موجودہ دور نفسا نفسی کا ہے اس
میں اب ہم سب اپنی روایات سے دور ہوتے جا رہے ہیں اور افسوس کا مقام ہے ہم
دین اسلام کے فرائض سے بھی دور ہوتے جارہے ہیں ان میں سے ایک والدین سے حسن
سلوک بھی ہے افسوس کا مقام ہے کہ مغرب کی اندھا دھند تقلید میں میں ہمارے
ہاں بھی اولڈ ہاوس بن رہے ہیں والدین کو اولاد ان کے گھر سے ہی نکال رہی ہے
یا خود ان کو چھوڑ کر الگ ہو جاتی ہے ۔اور اس بے حسی ،ظلم ،پر ذرا بھی
شرمسارنہیں ہے موجودہ عہد میں والدین سے بد سلوکی،بد زبانی،طعنے دل دکھانے
والی باتیں تو ایک معمول بن چکا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے علما ء
،اساتذہ،اور پرنٹ و الیکڑانک میڈیا کے ساتھ ساتھ شوشل میڈیا وغیرہ پر حقوق
العباد پر زیادہ سے زیادہ کام کیا جانا چاہیے تاکہ نئی نسل اپنے اسلامی
فرائض کو جان سکے اس بارے میں ہم سب کو زیادہ سے زیادہ کام کرنا چاہیے
ہمارے ہاں ایک یہ بہت بڑا فقدان ہے کہ پاکستان کا قانون ہی اب تک اسلامی نہ
بن سکا اور جو قانون ہے اس میں والدین کی خدمت کو اخلاقی قرار دیا گیا ہے
ان کی تذلیل کرنے ان سے بد سلوکی کرنے کی کوئی سزا نہیں ہے اس کا معاملہ
آخرت پر چھوڑ دیا گیا ہے حالانکہ ہم دیکھتے ہیں کہ والدین سے بد سلوکی گناہ
کبیرہ ہے اور شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے اﷲ کا فرمان ہے کہ اﷲ کے سوا
کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اگر ان دونوں میں سے
ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائے تو ان کو اف تک نہ کہو اور نہ ان کو
جھڑکوبلکہ ان سے نرمی سے بات کرو اور اپنے بازوں کو نرمی اور عاجزی سے ان
کے سامنے پھیلا ؤ اور ان کے لیے یوں دعا کرو ۔اے میرے رب تو ان پر اس طرح
رحم فرما جس طرح ان دونوں نے بچپن میں مجھ پر رحمت اور شفقت کی (مفہوم سورۃ
بنی اسرائیل آیت 32 تا 42 ) کاش ایسا ہوتا کہ پاکستان میں یہ قانون ہوتا
اور اس پر عمل بھی ہوتا کہ والدین بھی اپنا مسئلہ لے کر حکومت،عدالت کے پاس
جا سکتے تاکہ ان سے بد سلوکی ،بدزبانی ہوئی ہے ان کی تذلیل ہوئی ہے اولاد
والدین کے بھی اخراجات کے قانونی طور پر پابند بنائے جاتے اور اس پر عمل نہ
کرنے کی بھی سزا مقرر ہوتی ۔پاکستان جو اسلام کے نام پر بنا اس میں اخبارات
کی خبریں ہیں کہ اولاد نے والد کو یا ماں کو قتل کر دیا ،گھر سے نکال دیا
،یا خود چھوڑ کر الگ ہو گئے اور ان کو در در کی بھیک مانگنے کے لیے چھوڑ
دیا گیا اور بڑھاپے میں ان کوبے آسرا چھوڑ دیا ہم یہاں والد کی شان چند
اقوال کی روشنی میں بیان کرنے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں والد جو کہ جنت کا
دروازہ ہے اس بارے میں کم لکھا جاتا ہے ۔میں نے اس پر جتنی تحریریں دیکھیں
ان میں سے اکثر بیٹیوں کی طر ف سے لکھی ہوئی تھیں ۔میں یہ نہیں کہتا کہ
بیٹے والد سے محبت نہیں کرتے میں یہ کہ رہا ہوں والد کے بارے میں بیٹوں نے
کم لکھا ہے ۔اسی طرح جب اسلامی تعلیمات کا ذکر ہوتا ہے تو بھی زیادہ والدہ
کی خدمت پر زور دیا جاتا ہے حالانکہ قرآن اوپر درج سورۃ بنی اسرائل کی آیات
کا مفہوم اور بہت سی احادیث میں زیادہ تر والدین کا ذکر آیا ہے یعنی ماں
اور باپ دونوں کا ۔ہم دیکھتے ہیں کہ والدہ کی طرح والد بھی ایک ذمہ دار
انسان ہے جو اپنے خون پسینے کی کمائی سے اولاد کی پرورش کرتا ہے اکثر والد
دن رات اپنی اولاد کی پرورش کے لیے محنت کرتے ہیں لوگوں کی غلامی کرتے ہیں
باتیں سنتے ہیں اور سارا دن جو کما کر لاتے ہیں وہ اپنے بچوں پر خرچ کرتے
ہیں باپ ایک مقدس محافظ ہے جو ساری زندگی اپنے خاندان کی نگرانی اور حفاظت
کرتا ہے اپنی اولاد کا سب سے بڑا خیر خواہ ہے ۔سچا دوست ہے پھر کیا و جہ ہے
کہ اس بارے میں کم لکھا جاتا ہے ۔ سوچنے کی بات ہے ،سمجھنے کی بات ہے ، ماں
کے لیے تو سبھی دعا کرتے ہیں ،ماں کا پیار تو سب کو نظر آتا ہے ،کبھی کسی
نے باپ کا پیار بھی محسوس کیا باپ کو بھی اپنی اولاد سے پیار ہوتا ہے ۔والد
کے انتقال سے پہلے پہلے اس کی قدر کرنی چاہیے ان کی زندگی ہمارے لیے کھلی
کتا ب ہے اس کتاب کے ایک ایک صفحے ایک ایک سطر ،ایک ایک لفظ سے ہم کو
استفادہ حاصل کرنا چاہیے ۔اس کے الٹ ہم دیکھتے ہیں کہ اولاد خود تجربات
کرتی ہے اور جب وہ اپنے تجربات اپنی اولاد کومنتقل کرتی ہے تو بالکل ان کی
طرح اولاد بھی اپنے تجربات خود کرتی ہے باپ کی کمائی کے تو اولاد حق دار
بنتی ہے مگر اس کے دیگر تجربات ،تعلق اس کی دوستیاں،اصول ،سے کم ہی فائدہ
اٹھاتی ہے حالانکہ باپ ایک کتاب ہے جس پر تجربات تحریر ہوتے ہیں اپنے والد
کو خود سے دور مت کریں بلکہ اس کے تجربات سے سیکھنا چاہیے سیانے یہ کہتے
ہیں لیکن ہم دیکھتے ہیں نئی نسل والدین سے خود کو زیادہ عقل مند خیال کرتی
ہے اپنے والد کے تجربات سے سیکھنے کی بجائے نئے تجربات کرتی ہے ۔اکثر
والدایسے دیکھے ہیں جن کو یہ گلہ ہوتا ہے اولاد نافرمان ہے کہا نہیں مانتے
،جہاں سے روکیں وہاں جاتے ہیں مخالفین سے تعلقات رکھتے ہیں اور جن کو ہم
عزیز رکھتے ہیں ان سے دور رہتے ہیں ہمارے کہنے پر جن سے ہم کو الفت ہے ان
کا احترام نہیں کرتے وغیرہ وغیرہ والد کا احترام کرو تا کہ تمہاری اولاد
بھی تمہارا احترام کرے ۔والد کی عزت کرو تا کہ اس سے فیض یاب ہو سکو۔والد
کی باتیں غور سے سنو تا کہ دوسروں کی باتیں نہ سننی پڑیں ۔اپنے والدکے
سامنے اونچی آواز سے نہ بولو ورنہ اﷲ پاک تم کو نیچا دکھا دے گا ۔والد کے
آنسو تمہارے دکھ اور تکلیف سے نہ گریں ورنہ اﷲ پاک تم کو جنت سے گرا دے گا
۔جب اولاد والدین کی بخشش کے لیے دعا کرنی چھوڑ دے تو اس کا رزق روک لیا
جاتا ہے ۔ مطلب یہ کہ رزق میں برکت نہیں رہتی رزق ہوتا ہے مگر کمی کا رونا
روتے رہتے ہیں وہ جو والدین کو ستاتے ہیں اور والدین ان کے لیے دعا کرنی
چھوڑ دیتے ہیں ۔ بد نصیب ہے وہ شخص جو اپنے والدین کی خدمت کر کے ان کی دعا
نہیں لیتا اور دوسرے لوگوں سے کہتا پھرتا ہے میرے لیے دعا کرنا ۔ باپ ایک
رحمت خداوندی ہے جو سدا ایک چادر کی طرح سر پر تنی رہتی ہے۔ جب تم اپنے
والدین سے سختی سے بات کرتے ہو اونچی آواز سے ان کو جھڑکتے ہو تو اس وقت اﷲ
اور اس کے فرشتے تم پر لعنت کرتے ہیں ۔اور آخر میں ایک بہت زبردست قول کہ
اس وقت تمہاری نماز ،روزہ،حج ،زکوۃ کس کام کا جب تم سے تمہارے والدین ہی
خوش نہ ہوں ۔۔۔
|