بسم اﷲ الرحمن الرحیم
شاہد: جلیبی دھو رہا تھا
امی: ارے یہ کیا کر رہے ہو؟
شاہد: کل ابو نے کہا تھا ناں کہ بازار کی ہر چیز دھو کر کھانی چاہئے
شاہد ذہنی طور پر معذور تھا۔ اکثر لوگ اس کی حرکتوں پر ہنسا کرتے تھے ،کسی
کو ضرر نہیں پہنچاتا تھا اس لئے اس کے والدین نے بھی اس پر کوئی خاص پابندی
نہیں لگائی ہوئی تھی ۔خود اکیلا باہر چلا جاتاتھا۔ محلے والے بھی اسے جانتے
تھے اس کی حرکتوں اور باتوں سے لطف اندوز ہوتے۔ وہ اکثر جو منظر دیکھتا اس
کی نقل اتارنے کی کوشش کرتا، کبھی وزیراعظم بن جاتا،کبھی صدراور کبھی فقیر۔
ایک بار اس نے کرکٹ کا فائنل میچ دیکھ لیا،جیتنے والی ٹیم کے کپتان کو
دیکھا کہ وہ ٹرافی ہاتھ میں لے کر اپنی
کامیابی پر بہت خوش نظر آرہا ہے اور ٹرافی بلند کر کے تماشائیوں سے داد
وصول کر رہا ہے ۔ اگلے دن شاہد کو کیا سوجھی محلے میں قائم کچرا کنڈی کے
اندر گیا اور ایک مردار جانور کی ہڈی ہاتھ سے بلند کر کے فاتحانہ انداز میں
قہقہہ لگا رہا ہے۔ لوگ اس کی حرکت پر ہنس رہے تھے۔
شاہد کی اس حرکت کی خبر اس کے گھر والوں کو ہوئی اور اس کے والدین نے فیصلہ
کیا کے اب شاہد اکیلا باہرنہیں جائے گا۔
شاہد کے دادا نیک آدمی تھے بزرگوں کی صحبت کا اثر تھا۔ باتوں باتوں میں
دادا کے سامنے بھی شاہد کی اس حرکت کا ذکر آیاسب ہنس رہے تھے لیکن دادا
گہری سوچ میں پڑ گئے اور پھر سب کو مخاطب ہو کر کہا کہ شاہد کی یہ حرکت تو
بہت بری اور پاگلوں جیسی ہے لیکن اس میں ہمارے لئے بڑی عبرت ہے سب کے کان
کھڑے ہو گئے کہ اس میں ہمارے لئے کیا سبق ہے؟
دادا جان نے فرمایا ہم کسی کی غیبت کرتے ہیں اور اس پر قہقہے لگاتے ہیں تو
ہم بھی شاہد کی طرح پاگلوں جیسی حرکت کرتے ہیں اور یہ کہ اپنے مردہ بھائی
کا گوشت کھا کر قہقہے لگارہے ہوتے ہیں ۔ بس فرق اتنا ہوتا ہے شاہد کو ہم
معذور سمجھتے ہیں اور اپنے آپ کو سمجھ دار۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جمعہ کا دن تھا اکرام صاحب اپنے بیٹے دانش کے ساتھ جمعہ کی نماز کے لئے گئے
ہوتے تھے ۔ وہاں غیبت کے متعلق بیان ہوا۔
شام کو سب گھر والے ساتھ بیٹھے گفتگو کر رہے تھے
دانش: آج زبیر دوبارہ پوری کلاس میں سب سے زیادہ نمبر حاصل کیے ، ماشااﷲ
بہت ذہین ہے،نماز کا پابند اور حافظ قرآن بھی
اکرام صاحب: حفظوں کا دماغ بہت تیز ہوتا ہے ۔ یہ حفظ کا کمال ہے۔
دانش: واقعی حفظ کا کمال لگتا ہے۔ لیکن ایک اس میں خرابی ہے کہ کنجوس بہت
ہے-
اکرام صاحب: انکے والد کو میں جانتا ہو ، وہ بھی بڑے بخیل ہیں۔
دانش کی امی: زبیر کی امی بھی بڑی کنجوس ہیں ، پور ا خاندان ہی کنجوس ہے-
اکرام صاحب کو ایک دم خیال آیا آج ہی غیبت کے بارے میں بیان سنا اور آج ہی
غیبت ہو گئی ، اس لئے بزرگ فرماتے ہیں کہ کسی کا اچھائی کے ساتھ بھی ذکر نہ
کرو کہ اچھائی کرتے کرتے شیطان دوسرے رخ پر ڈال دیتا ہے-
دانش: ابو اگر ہم غیبت نہ کریں تو پھر ہم کیا باتیں کریں ؟ کالج میں تو
ہماری باتوں کا موضوع ہی کسی کے بارے میں ہوتا ہے -
خوب ہنستے ہیں اور انجوائے کرتے ہیں اگر ہم کسی کی برائی نہ کریں تو ہمارا
تو مزا ہی خراب ہو جائے گا۔
اکرام صاحب کچھ کہنا ہی چاہ رہے تھے کہ دروازے پر گھنٹی بجی، اکرام صاحب کے
مہمان آئے تھے اس طرح بات ادھوری رہ گئی-
دانش کے سالانہ امتحانات چل رہے تھے ، آج بھی گھر والے سب ساتھ بیٹھے چائے
پی رہے تھے اور آپس میں گفتگو ہو رہی تھی۔
اکرام صاحب: دانش بیٹا امتحان کی تیاری کیسی ہے ؟
دانش: مشکل پیپر ہیں بڑا ڈر لگ رہا ہے
اکرام صاحب: تمھارے دوستوں کا کیا حال ہے؟
دانش: اپنی ایسی فکر کھائے جا رہی ہے ،دوستوں کی کیا خبر لوں؟
اس گفتگو کے درمیان فون کی گھنٹی بجی۔ امی نے آکر بتایا کے یاسر کا فون ہے
-
دانش : منع کر دو کہ میں گھر پر نہیں ہوں
اکرام صاحب: ارے یاسر تو تمھارا خاص دوست ہے-
دانش: کبھی تھا اب نہیں
اکرام صاحب: کیا ہوا؟
دانش: ایک بار میں کالج لیٹ ہو گیا ،کلاس روم میں دوست باتیں کر رہے تھے
میرا بھی ذکر کانوں میں پڑا تو میں کلاس روم کے باہر ہی سننے کھڑا ہو گیا ۔یاسر
میرے خلاف باتیں کر رہا تھا ۔ تب سے میں نے اس سے بات چیت بند کر دی ہے ۔
اکرام صاحب نے قہقہہ لگایا اور بولے: دانش بیٹا پچھلی بار تو آپ کہہ رہے
تھے کہ ہم غیبت نہ کریں تو کیا کریں اور یہ کہ اس کو ہم انجوائے کرتے ہیں ،
تو اب بھی انجوائے کرو-
دانش کا سر جھک گیا-
اکرام صاحب: جیسے ہم نہیں چاہتے کہ ہماری برائی ہو ایسے ہی اور لوگ بھی
نہیں چاہتے کہ ان برائی ہواور جیسے آپ کو اپنے امتحان کی فکر ہے دوسروں کی
فکر نہیں اسی طرح دنیا امتحان گاہ ہے اس میں اگر اپنی فکر لگ جائے تو
دوسروں کی طرف دھیان ہی نہیں جائے گا۔
تھے جب اپنی برائیوں سے بے خبر
رہے ڈہونڈتے اوروں کے عیب و ہنر
پڑی اپنی برائی پر جو نظر
تو نگاہ میں کوئی برا نہ رہا |