کچھ ایسے واقعات زندگی میں پیش آتے ہیں، جنہیں ہم
چاہیں بھی تو بھلا نہیں سکتے ۔ایسا ہی ایک واقعہ ہمارے ایک جاننے والے صاحب
کے ساتھ پیش آیا تھا۔ آیئے آپ بھی وہ واقعہ ان کی زبانی سنیں:
یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں پاک آرمی سے تقریباً ایک ہفتے کی چھٹی لے کر
اپنے بچوں کو ان کی نانی کے ہاں لے کر جارہا تھا۔ بچوں کی چھٹیاں ہوچکی
تھیں، اس لیے وہ ضد کررہے تھے کہ ہمیں نانی کے ہاں لے کر چلیں۔ مسئلہ میری
چھٹیوں کا تھا، جو مشکل سے ہی ملتی تھی ،خیر اللہ اللہ کرکے ہمیں چھٹی ملی
اور ہم اپنے بچوں کو کوئٹہ سے منڈی بہائوالدین لے جانے کے لیے تیار ہوگئے۔
پلیٹ فارم پر پہنچے تو پتا چلا کہ گاڑی تقریباً آدھا گھنٹہ لیٹ ہے۔آخر
کار ریل گاڑی پلیٹ فارم پر پہنچ گئی۔ہمارے ڈبے میں رش زیادہ تھا، سب لوگ
باری باری سوار ہونے لگے، ہم بھی سوار ہو گئے۔بالکل آخر میں ایک میجر صاحب
تھے،جو اپنے بچوں کو ریل گاڑی میں سوار کرا ہی رہے تھے کہ ریل آہستہ
آہستہ چلنے لگی۔ میجر صاحب نے اپنے بچوں کو جلدی جلدی گاڑی میں سوار کیا
اور خود بھی گاڑی میں سوار ہونے کے لیے ایک آدمی کو ہاتھ دیا کہ اچانک ہی
گاڑی کی رفتار تیز ہو گئی اور میجر صاحب کا ہاتھ اس آدمی کے ہاتھ سے پھسل
گیااوروہ نیچے گر پڑے۔ ایک شور اٹھا اور ریل گاڑی جھٹکے سے رک گئی۔ تمام
مسافر ریل گاڑی سے اترنے لگے اور میجر کے گرد حلقہ بنا کر کھڑے ہوگئے۔ جیسے
ہی میں نے میجر کی طرف دیکھا تو دل ہل کر رہ گیا،کیوں کہ ان کی دونوں
ٹانگیں جسم سے علیحدہ ہوگئی تھیں اور خون بے تحاشا بہہ رہا تھا۔میجر صاحب
آہ و بکا کر رہے تھے لیکن اپنے ہوش میں تھے۔میں کھڑا دل ہی دل میں ان کی
ہمت کو داد دے رہا تھاکہ اتنی تکلیف میں بھی وہ بے ہوش نہیں ہوئے تھے۔ پھر
اچانک میجر صاحب درد بھری آوازمیں چلائے:
’’ لوگو! آج میں نشانِ عبرت بن گیا ہوں۔ ہاں مجھ سے عبرت حاصل کرو !میں
بدبخت نامراد ہوگیا، خدارا کبھی… بھ…ی… بھی اپنے والدین کی نافرمانی نہ
کرنا، دیکھو یہ ہے نافرمانی کا انجام، یہ ہے میری بدقسمتی ،کہاں ہے میرا
عہدہ؟ کہاں ہے؟ جو مجھے ماں کی بددعا سے بچا نہ سکا…‘‘ہجوم تیزی سے بڑھ رہا
تھا، شاید ریلوے پولیس نے ایمبولینس بلوا لی تھی مگر ان کی یہ غیر متوقع
بات سن کر مجمع کو سانپ سونگھ گیا۔ سب دم بخود ان کے چہرے کو دیکھنے لگے۔
چند ثانیوں کے بعد وہ دوبارہ بولے:
’’مجھ پر خدا کی مار ہے،بے شک خدا کی لاٹھی بے آواز ہے،کسی نے مجھے نہ
بچایا ،کسی میں قدرت نہیں کہ وہ خدا کے عذاب سے کسی کو بچا سکے، ہاں یہ ہے
بدنصیبی ،یہ میں ہوں جو کل خود کو کچھ زیادہ ہی اونچا گمان کرتا تھا، اتنا
اونچا کہ اس کے آگے اپنے والدین کی بھی کوئی قدر ومنزلت نہ تھی، آہ… ہ… ہ
وہ بھیانک دن، وہ خوف ناک صبح جب میں نے تنگ آکر اپنے بوڑھے والدین کو خوب
مارا اور جب میں مارمار کر تھک گیا تو میری ماں نے صرف یہ کہا:’اے خدا! اے
مالک تونے اس کی ٹانگیں کیوں نہ توڑ دیں؟‘…یہ شکوہ نہیں بلکہ بددعا تھی جس
کا نتیجہ آپ سب لوگوں کے سامنے ہے۔‘‘
بس یہ چند جملے تھے،جومیجر نے کہے پھر درد کی شدت کے باعث اس کی زبان بند
ہو گئی۔ اتنے میں ایمبولینس آگئی اور کچھ لوگ اسے ہسپتال لے گئے۔ یہ واقعہ
سن کر ہمارا دل لرز کر رہ گیا۔خدایا!کیا واقعی کوئی اپنے والدین کو مار
سکتا ہے؟ |