ہائے میرا بستہ

نام کتاب۔ ہائے میرا بستہ !
بستے کے بوجھ تلے دبے ہوئے ایک پاکستانی بچے کی جگر خراش دہائی
تحریر و تحقیق ۔اشتیاق احمد ۔منتظم و مہتمم ادارہ تحقیق و تخلیق 105/10R تحصیل جہانیاں ضلع خانیوال پنجاب پاکستان

میں ایک پرائمری جماعت میں پڑھنے والا بچہ ہوں۔ میری عمر اور جسمانی قوت کا تو سب کو اندازہ ہی ہے۔ میرے بستے کے بوجھ سے بھی سبھی واقف ہیں۔ اس لیے سب مانتے ہیں کہ میرا بستہ میری عمر اور میری قوت کے لحاظ سے بڑا ہے۔ میرے کندھوں پر نشان ڈال دیتا ہے میری کمر کو دہرا کر دیتا ہے۔ میں ہانپتے کانپتے اسے اٹھا کر سکول پہنچتا ہوں اور اسی حالت میں سکول سے گھر لوٹتا ہوں۔ سکول میں بھی یہ میرے لیے ذہنی اذیت کا باعث بنا رہتا ہے۔ یہ بستہ میرے لیے ذہنی اور جسمانی دونوں لحاظ سے تکلیف دہ ہے۔ میری عمر کا اگر کوئی بچہ مزدوری کرتا ہوا نظر آئے تو سب کو بڑا ترس آتا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی جاگ اٹھتی ہیں۔ اخباروں میں خبریں بھی لگ جاتی ہیں۔ عالمی سطح پر میرے حقوق کی بابت بڑی بڑی کانفرنسیں بھی منقعد ہوتی ہیں۔ بچوں کے عالمی دن بھی منائے جاتے ہیں اور ان میں میرے حقوق کے بارے میں آوازیں بھی اٹھائی جاتی ہیں۔ جب میں ریڈیو، ٹی وی کے پروگرامات سنتا اور دیکھتا ہوں تو ایسا لگتا ہے جیسے پوری دنیا میرے مسائل حل کرنے کی خاطر متحرک ہو گئی ہے۔ مگر کسی کو میرا بستہ چھوٹا اور آسان کرنے کی فکر نہیں ہے۔ اب تک میں خاموش رہا ہوں۔ اس لیے کہ آپ مجھ سے بڑے ہیں، میرے بزرگ اور بڑے بھائی بہنوں کی طرح ہیں۔ آپکا شمار میرے ملک کے دانشوروں، اساتذہ اور مفکرین، قائدین اور علماء میں ہوتا ہے۔ آپ میرے والدین کی جگہ پر بھی ہیں آپکی شان میں گستاخی!۔ توبہ نعوذبااللہ۔ خدا وہ دن نہ لائے کہ میری زبان سے کوئی ایسا جملہ نکلے جسے آپ سوءِ ادب سمجھ بیٹھیں۔ میں اپنے بڑوں کے احترام سے خوب واقف ہوں۔ پھر بھی بچہ ہوں۔ اگر کوئی غلطی سرزد ہو جائے تو پیشگی دست بستہ معافی کا طلبگار ہوں۔ مگر اب میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔ میں زیادہ دیر تک اپنے اوپر سکتہ طاری نہیں کر سکتا۔ میں بھی آخر گوشت پوست کا انسان ہوں، میرے سینے میں بھی آپ کی طرح ایک دل دھڑکتا ہے۔ آپ کب تک لاروں لپوں کے سہارے مجھے ٹرخاتے رہیں گے؟ کب تک میرے اس مسئلے کی بابت صرف ِ نظر کرتے رہیں گے؟ ڈاکٹروں نے بھی میرے بستے کو میری عمر سے بڑا اور میری ذہنی اور جسمانی صحت کے لیے نقصان دہ قرار دیا ہے۔ پھر بھی کوئی نہیں سنتا۔ حالانکہ آپ سب کو خدا نے حواسِ خمسہ کی صحیح و سلامت دولت سے نوازا ہے۔ آپ ملک کے بہت بڑے دانشور سہی۔ آپ ملک کے بہت بڑے ماہر تعلیم سہی۔ آپ ملک کے مانے ہوئے پالیسی ساز سہی۔ مانا کہ آپ میری نفسیات کو بھی سب سے زیادہ جانتے ہیں۔ مانا کہ آپ محکمہ تعلیم میں سیاہ سفید کے مالک ہیں۔ آپ میں بڑے بڑے تعلیمی منصوبے تیار کرنے اور ان کو روبہ عمل لانے کی صلاحیتں موجود ہیں۔ مگر گستاخی معاف! میں ان بڑی بڑی باتوں کو کیسے تسلیم کروں؟ اتنے بڑے بڑے کارنامے انجام دینے والے اگر میرے بستے کو چھوٹا اور آسان نہیں بنا سکتے تو میرے پاس کیا دلیل ہے کہ جس کی بنیاد پر میں آپ کی صلاحیتوں کا لوہا مانوں؟ میں ایسے ہی غصے میں آ کر جلی کٹی باتیں نہیں کر رہا ہوں۔ میں بہت ستایا ہوا ہوں۔ روزانہ ستایا جاتا ہوں۔ دن میں کم از دو مرتبہ جسمانی اعتبار سے اور دن بھر ذہنی اعتبار سے۔ روزانہ ان دانشوروں کی جان کو روتا ہوں جو میری مشکل کو مانتے ہیں مگر حل نہیں کرتے۔ میں اتنا کم ظرف نہیں ہوں کہ تنگ آکر اِن کو بددعائیں دینا شروع کر دوں۔ نہیں۔ ہرگز نہیں۔ ایسا تو مایوس لوگ کیا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرنا میرا حق ہے کہ خدا ان ماہرین تعلیم اور دانشوروں کو میرے مسئلے کو گنجلک بنانے کی بجائے اسے حل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ مجھے تو خدائے بذرگ و برتر کی ذات پر پورا بھروسہ ہے۔ مجھے یقین ہے کہ میں ایک نہ ایک دن اپنی جدوجہد میں ضرور کامیاب ہو جاؤں گا۔ اس لیے آپ کی عزت و توقیر پر کوئی حرف نہیں آنے دوں گا انشاء اللہ۔ مگر شکوہ کرنا اپنا حق سمجھتا ہوں۔ اسی طرح جس طرح ایک بیٹا اپنے باپ سے کرتا ہے۔ وہ شکوہ جو حدِ ادب کے اندر رہ کر کیا جاتا ہے۔ شاعر مشرق حضرت علامہ اقبال رحمتہ اﷲ علیہ نے بھی امت کو جنجھوڑنے کے لیے خدا سے شکوہ کیا تھا۔ مجھے بھی یہ حق حاصل ہے کہ میں بھی اپنے جیسے لاکھوں بچوں کی بھلائی کی خاطر آپ سے شکوہ کروں اور آپ کو جنجھوڑوں اور آپ کو سوچنے پر آمادہ کروں تاکہ آپ میرے اور میری عمر کے لاکھوں بچوں کے ایک اہم مسئلے کی طرف متوجہ ہوں ۔

جب بڑے کسی مسئلے کو حل کرنے میں ناکام ہو جائیں تو چھوٹوں کو پھر میدان عمل میں کودنا پڑتا ہے۔ اس لیے مجھے چھوٹا سمجھ کر میری باتوں کو نظر انداز مت کریں۔ بہر حال میری باتوں میں اگر وزن ہو گا تو خود بخود آپ کے دل و دماغ میں اترتی چلی جائیں۔ آپ ماننے پر مجبور ہو جائیں گے کہ اپنے بستے کے بوجھ تلے ہوئے بچے کی چیخیں واقعی کان دھرنے کے لائق ہیں۔ انشاءاللہ بات کروں گا تو دلیل و منطق کی طاقت کے ساتھ۔ دھونس دھاندلی نہ کروں گا اور نہ ہی کرنے دوں گا۔ آپ سے بس اتنی گزارش ہے کہ چھوٹا ہونے کے ناطے میری بات کو درمیان سے نہ کاٹیں۔ صبرو تحمل کے ساتھ مجھے سنیں اور اپنے بڑا ہونے کا ثبوت دیں میرا بستہ بڑا ہونے میں میرے لیے نصاب سازی کرنے والوں کی سطحی سوچ اور ذہنی مرعوبیت کا بڑا عمل دخل ہے۔ جی ہاں۔ بات تو بڑی ہے مگر کہنا میری مجبوری ہے۔ دنیا میں بڑے بڑے مسائل کی بابت لوگ گہرائی کے ساتھ سوچتے ہیں اور ان کے حل نکال لیتے ہیں۔ گہرے غورو فکر اور منصوبہ بندی کے ساتھ اگر ایٹم بم بنایا جا سکتا ہے، مریخ پر قدم رکھا جا سکتا ہے،آنکھوں کو خیرہ اور ذہن کو ورطہ حیرت میں ڈالنے والے آلات ایجاد ہو سکتے ہیں، سمندر کا سینہ چیر کر اس کی تہہ سے دولت نکالی جا سکتی ہے۔ خلاء میں معلق رہ کر عالمی جنگ لڑنے کے منصوبے بنائے جا سکتے ہیں تو میرا بستہ چھوٹا کیوں نہیں کیا جا سکتا؟ انسانوں نے خدا کی عطا کی ہوئی عقل و دانش استعمال کر کے ستاروں پر کمندیں ڈال لی ہیں مگر میرے ملک کے دانشوروں سے میرا بستہ چھوٹا نہیں ہوتا۔ میرا قیاس یہ ہے کہ میرے ملک کے دانشوروں کو شائد یہ غلط فہمی ہو گئی ہے کہ اگر انہوں نے اپنے دماغ کو غورو فکر اور منصوبہ بندی کے لیے استعمال کیا تو یہ کہیں گھس کر چھوٹا نہ ہو جائے۔ اس میں سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت نہ جاتی رہے۔ یہ سوچ و فکر کی بھول بھلیوں میں کہیں گم نہ ہو جائے اور بھر اسے چراغ لے لے کر نہ ڈھونڈنا پڑ جائے۔ اگر یہ بات ہے تو میں چھوٹا ہونے کے ناطے یقین دلاتا ہوں کہ یہ نہ تو گھس کر چھوٹا ہو گا اور نہ یہ کہیں گم ہو گا۔ بلکہ استعمال کرنے سے اس پر جو سالہا سال سے زنگ چڑھا ہوا ہے وہ اتر جائے گا۔ اور نیچے سے چمکتا دمکتا، تازہ دم اور چالو حالت میں ایک دماغ نکلے گا۔ وہی دماغ میرے بستے کو چھوٹا کرے گا۔ یہ بڑے بڑے دماغ جن پر زنگ کی دبیز تہیں چڑھی ہوئی ہیں یہ ان کے بس کا روگ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جن چیزوں کو چھوٹا کرنا چاہیے ان کو یہ بڑا کر رہے ہیں اور جنہیں بڑا کرنا چاہیے انہیں چھوٹا کرنے کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں۔ مثلا ً اپنی کاروں، کوٹھیوں اور بنگلوں کو بڑی سرعت کے ساتھ بڑا کرتے چلے جا رہے ہیں۔ شائد اسی لیے میرے بستے کو بھی اسی رو میں بہتے ہوئے بڑا کرتے چلے جا رہے ہیں۔ اپنے دماغ کی جسامت کو بھی لگے ہاتھوں بڑھا رہے ہیں مگر افسوس صد افسوس کہ اپنی سوچ وفکر اور فہم و تدبر کے دائرے کو تنگ سے تنگ کرتے جا رہے ہیں۔ بڑے سے بڑے دماغوں سے نکلنے والے مغز تو پرانی انارکلی سے بھی بہت مل جاتے ہیں مگر فقط کھانے کے لیے ۔ ہمیں دماغ چاہیں کام کے لیے جو جسامت میں چاہے چھوٹے ہی کیوں نہ ہوں مگر ہوں سمارٹ۔ خوب غوروفکر کرتے ہوں ۔میرا بستہ اب تک جو کتابوں کی غذا کھا کھا کر موٹا ہوتا رہا ہے، یہ انہیں موٹے دماغوں کی کارستانی ہے ۔محکمہ تعلیم کو چاہیے کہ وہ نصاب بنانے کی ذمہ داری ایسے لوگوں کو سونپے جن کے دماغ چھوٹے ہوں مگر ان کا معیار بلند ہو ۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ آجکل مقدار کی بجائے معیار دیکھا جاتا ہے ۔ دوسری بات یہ کہ دماغ ان کا اپنا ہو اور سوچ و فکر میں آزاد ہو ۔خود دار ہو اور اعتماد کی دولت سے مالا مال ہو ۔ مجھے خطرہ ہے کہ دوسروں کے دماغ سے سوچنے والوں کے سامنے جب میں اپنا مطالبہ رکھوں گا تو نصاب کو بڑا چھوٹا کرنے کا اختیار رکھنے والے خواتین و حضرات برا نہ مان جائیں ۔میرا مطالبہ ان کی طبع نازک پر گراں نہ گزرے ۔اور وہ غصے میں آ کر بستہ چھوٹا اور آسان کرنے کی بجائے اسے اور بڑا اور پیچیدہ نہ کر دیں اور ساتھ ہی مجھے سکول سے بھی نکال باہر کریں ۔اس لیے ڈر لگتا ہے کہ اگر انہیں ناراض ہونے کا موقع مل گیا تو لاکھوں بچوں کے بستوں کا بوجھ اور بڑھ جائے گا ۔کیونکہ مجھ سے پہلے والے لوگ اس کی سزا بھگت چکے ہیں ۔میرے بڑے بھائی بتاتے ہیں کہ ان کے دور میں انگریزی چھٹی جماعت سے شروع ہوتی تھی ۔آپ جانتے ہیں کہ چھٹی جماعت کا بچہ ذرا بڑا ہو جاتا ہے اور بستے کا جسمانی اور ذہنی بوجھ کسی قدر آسانی سے اٹھا سکتا ہے ۔ انہوں نے بستہ چھوٹا کرنے کا مطالبہ کیا تو نصاب سازی کا اختیار رکھنے والوں نے طیش میں آکر اسے اور بڑا اور مشکل کر دیا ۔ لیں جناب اور مطالبہ کریں ان سے بستہ چھوٹا کرنے کا ۔ پہلے کم از کم ایک انگریزی کی کتاب اور اس کے ساتھ تین چار کاپیوں کا بوجھ تو نہیں تھا ۔ اب بھی میرے بستے میں ایک انگریزی کی کتاب، ایک الفاظ معانی کی کاپی، ایک سبق کے آخر میں موجود مشقوں کے لیے اور ایک انگریزی خوشخطی کے لیے یہ تو کتابوں کے وزن اٹھانے کی بات ہے۔ ایک دفعہ سکول جاتے ہوئے اور ایک دفعہ واپس آتے ہوئے انہیں اٹھانا پڑتا ہے۔ اس سے کئی گنا زیادہ وزن میرے دماغ پر پڑتا ہے ۔ مجھے جتنی محنت اور جتنی توانائی دوسرے تمام مضامین پر خرچ کرنا پڑتی ہے اتنی ہی مجھے اکیلی انگریزی کے مضمون پر خرچ کرنا پڑتی ہے ۔بلکہ اس سے کچھ زیادہ ہی ۔ پھر بھی کم بخت آتی نہیں ہے ۔ رٹے کی چکی پیس پیس کر دماغ تھک جاتا ہے ۔ اس پر طُرّہ یہ کہ میری سائنس کو بھی اتنا پیچیدہ اور غیر فطری بنا دیا ہے کہ جی چاہتا ہے سکول سے بھاگ جاؤں ۔میں تو اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ میرے بستہ ساز مجھے پڑھنے نہیں دینا چاہتے ۔ اخبارات میں کروڑوں روپیہ خرچ کر کے مہم چلاتے ہیں کہ لوگ اپنے بچوں کو سکول میں داخل کروائیں مگر سکول میں ایک غیر ملکی زبان اور غیر فطری سائنسی نصاب کا بوجھ ڈال کر میری تمام دلچسپیوں کو ختم کر رہے ہیں ۔ان حالات میں میرا سکول میں کیسے دل لگ سکتا ہے؟ پھر کہتے ہیں کہ پاکستان میں سکول سے بھاگ جانے والوں بچوں کی شرح پوری دنیا سے زیادہ ہے ۔جوں جوں مجھے پڑھائے جانے والے علوم کا رشتہ میری قومی زبان سے کاٹتے چلے جاتے ہیں توں توں میرے جسم، دماغ، دل اور روح کو تکلیف میں مبتلا کرتے چلے جاتے ہیں ۔بات تو سیدھی ہے کہ فطرت سے انسان جوں جوں گریز کرتا چلا جائے گا فطرت اس کے راستے میں مشکلات پیدا کرتی چلی جائے گی ۔ایک انسان کی بجائے اگر پوری قوم فطرت گریز راستے پر چلنا شروع ہو جائے تو پوری قوم انحطاط و زوال کا شکار ہو جائے گی ۔فطرت گریز راستے پر چلنے کا مطلب خدا سے جنگ ہے ۔مجھے کہنے دیجئے کہ میرے بستہ سازوں اور نصاب سازوں نے خدا سے جنگ چھیڑ رکھی ہے ۔ اور مجھے اور میرے جیسے کروڑوں بچوں کو بطور بیگار اس جنگ میں سپاہی کے فرائض انجام دینے کے لیے مجبور کیا جا رہا ہے ۔ ممکن ہے کہ لڑتا ہی رہ جاؤں اور یہ بھاگ کر کہیں اور چلے جائیں ۔ بہر حال مجھے بہت ستایا جا رہا ہے ۔سب سے زیادہ مشق ستم بننے والی والی ذات میری ہی ہے ۔ان حالات میں میرا جذباتی ہونا فطری سی بات ہے

یہاں پر کچھ لمحوں کے لیے رک کر میں ٹھنڈے پانی کا گلاس پینا چاہتا ہوں تاکہ میں اپنے برانگیختہ جذبات کو ٹھنڈا کر سکوں ۔ آپ کو بھی رکنے اور سانس لینے کا مشورہ دوں گا اس لیے کہ آپ بڑے حساس ہیں کہتے ہیں کہ انسان جب بڑی عمر کو پہنچ جاتا ہے تو اس کی عادتیں بچوں کی طرح ہو جاتی ہیں ۔ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر بچوں کی طرح بگڑنا شروع کر دیتا ہے ۔آپ محسوس نہ کریں اسی خدشے کے پیش نظر مجھے کہیں کہیں رک کر نصیحتیں کرنا پڑتی ہیں ۔اس لیے کہ غورو فکر تو فقط ٹھنڈے دل و دماغ سے ہی کیا جاتا ہے نا ۔تو خیر میں یہ گذارش کر رہا تھا کہ بستہ چھوٹا کرنے کا تعلق گہرے غورو فکر کے ساتھ ہے ۔بستہ اور سوچ و فکر کی گہرائی ایک دوسرے کے بالعکس متناسب ہیں ۔یعنی بستہ چھوٹا کرنا ہو تو ذرا گہری سوچ میں ڈوبنا پڑتا ہے ،دماغ کے زیادہ خلیوں کو سوچنے کی زحمت دینا پڑتی ہے ۔ اور اگر بستہ بڑا کرنا ہو تو اس کے لیے سطحی سوچ ہی کافی ہے۔اس سے پہلے جو بستے کو بڑا کیا گیا وہ یقیناًاسی سوچ کا ہی کرشمہ ہے ۔دنیا میں بچوں کے حقوق کی بحالی کے لیے بھی تنظیمیں بنی ہوئی ہیں جو بچوں پر ہونے والی زیادتیوں اور ان سے جبری مشقت لینے کے خلاف آواز اٹھاتی ہیں۔ میری ان سے بھی گذارش کہ وہ میری آواز پر بھی کان دھریں ۔میرے مسئلے کو بھی سمجھیں ۔بستے کے بوجھ سے میری جھکی ہوئی کمر کی طرف بھی دیکھیں ۔میرے ماتھے پر پریشانیوں کی شکنوں میں چھپے میرے دل کے درد کو محسوس کریں ۔ کیا یہ جبری مشقت نہیں جو ہر روز مجھ سے لی جاتی ہے ؟کیا یہ میرا حق نہیں کہ میرا بستہ میری عمر ، جسمانی صحت اور ذہنی سطح کے مطابق ہو؟ کیا انسانی حقوق کی تنظیموں کو میرے مسئلے کو اپنے ایجنڈے میں شامل نہیں کرنا چاہیے؟ بچوں کے فٹ بال سینے اور ہوٹلوں میں کام کرنے پر تو بڑا واویلا کرتی ہیں ۔مگر میرے اپنی طاقت سے زیادہ بوجھ اٹھانے پر ان کی چیخیں کیوں دم توڑ جاتی ہیں؟ آج جب میرے فہم کو چھیننے ،مجھے جسمانی اور روحانی طور پر کمزور کرنے، مجھے رٹے کا خوگر بنانے، میرے علم کی بنیادوں کو کمزور کرنے، میرے علم کا میری قومی زبان سے رشتہ کاٹنے، میری قومی زبان کی پشت میں خنجر گھونپنے، میری سائنسی فہم کی بنیادوں پر تیشہ چلانے اور مجھے میری تہذیب و ثقافت سے بیگانہ کرنے کی سازشیں ہو رہی ہیں تو یہ سب کیوں خاموش ہیں؟ ان کو اب کیوں سانپ سونگھ کیا ہے؟ یہ سب لوگ کیوں مجھے ڈوبتا ہوا دیکھ کر خاموش ہیں ۔کیا ان کے لب آزاد نہیں ہیں؟ کیا ان کی زبان اب قوت گویائی سے محروم ہو چکی ہے؟ اگر نہیں تو پھر مجھے ان کی آواز کیوں نہیں سنائی دے رہی؟ کیا ان کی قوت شامہ بھی ماؤف ہو چکی ہے ؟کیا انہیں میری دہائی سنائی نہیں دے رہی؟معاف کرنا میں ذرا جذباتی ہو گیا تھا ۔میں کیا کروں کہ میری حالت تو اس شخص کی سی ہے جسے مارا بھی جا رہا ہو اور رونے بھی نہ دیا جا رہا ہو ۔میرے سامنے دو ہی راستے ہیں ۔یا تو میں اپنے جذبات کے اس الاؤ کو دل ودماغ میں ہی رہنے دو ں اور اپنی آگ میں آپ ہی جل کر اپنے وجود کو ختم کر ڈالوں ۔یا زور زور سے چلا ؤں اور اپنی دل خراش چیخوں کی لہروں کو کو ظالموں کے کانوں کے پردو ں سے ٹکرادوں ۔یہی راستہ میں نے اختیار کیا ہے ۔گھٰٹ گھٹ کر مرنے سے تو بہتر ہے کہ جدوجہد کرتے ہوئے جان دے دی جائے۔

میرے محلے میں ایک امیر زادے رہتے ہیں ۔میں نے جب باتوں باتوں میں ان سے اپنے بستے کی بابت بات کی تو کہنے لگے کہ بستہ تو ان کا بھی کافی بھاری ہے مگر ان کے ابو انہیں کار پر سکول چھوڑ آتے ہیں ۔مجھے کہنے لگے کہ تم بھی اپنے ابو سے کہو کہ وہ تمہیں بھی تمہارے بستے سمیت سکول چھوڑ آیا کریں ۔میں نے ان سے کہا کہ جناب میرے ابو تو منہ نہار کھیتوں میں ہل چلانے کے لیے چلے جاتے ہیں، شام کو تھکے ہارے گھر لوٹتے ہیں ۔میں اتنا بے وقوف نہیں ہوں کہ ان کی مشکلات سمجھے بغیر ان سے مطالبہ شروع کر دوں ۔آپ کے ابو تو سارا دن فارغ رہتے ہیں ۔وہ ایک زمیندار ہیں ۔اس لیے وہ شائد کام کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کرتے ۔آپکے ابو سے میرے ابو کا معاملہ تو بالکل ہی مختلف ہے ۔پھر آپ انگریزی سکول میں پڑھتے ہیں اور میں ٹاٹ سکول میں ۔میں نے مزید کہا کہ جناب آپ جیسے تو شائد ملک میں ایک فی صد بھی لوگ نہ ہوں ۔زیادہ تعداد تو معاشرے میں میرے جیسے تو شائد کے زور پر اپنے ہر مسئلے کو حل کر سکتے ہیں ۔آپ نے ٹیوشن پڑھانے کے لیے ہر مضمون کا الگ الگ ٹیچر رکھا ہوا ہے ۔ مگر اصل مسئلہ تو میرا اور میرے جیسے دوسرے لاکھوں بچوں کا ہے ۔ بچوں کے لیے نصاب اور دوسری تعلیمی پالیسیاں بنانے والے بھی آپ جیسے بچوں کو ہی مد نظر رکھ کر بناتے ہیں ۔میرے جیسوں کو نہیں ۔ہم تو شائد ان کی نظروں میں اچھوت ہیں ۔ہمارے لیے بنائے گئے بے شمار سکولوں میں بیٹھنے کے لیے کمرے نہیں ہیں۔کمرے ہیں تو چار دیواری نہیں ہے ۔کہیں پنکھے ہیں تو کہیں میرے جیسے بچے درختوں کے نیچے بیٹھ کر گزارا کرتے ہیں۔میرے لیے میرے پالیسی سازوں کے ذہن میں یہ خیال بھی نہیں ہوگا کہ کروڑوں روپے کی جو رقم اپنی پگڑی کا شملہ اونچا کرنے کے لیے خرچ کی جا رہی ہے اس میں سے چند ہزار روپے نکال کر میرے سکول کی چار دیواری ہی بنا دی جائے ۔آپ کے کمرے گرمیوں میں ٹھنڈے ٹھنڈے اور سردیوں میں گرم اور ان کے بھی جو بستہ تشکیل دینے کے اختیارات رکھتے ہیں ۔آپ کے مفادات کو وہ اچھی طرح سمجھتے ہیں میرے نہیں ۔ٹھنڈے کمروں میں بیٹھنے والوں کو چلچلاتی دھوپ میں جلنے والوں کے مسائل کا اندازہ آخر کیسے ہو سکتا ہے ؟آخر کار جب میری بات کا جواب نہ بن پایا تو کہنے لگے کہ تم غریبوں کو تو شکوے شکایت کی عادت پڑ چکی ہے ۔یہ حکومتوں کے معاملے ہیں۔بھلا تمہارے اتنی چھوٹی عمر میں سیاست چمکانے سے کیا ہو گا ؟میں نے کہا کہ میں غریب ضرور ہوں مگر میری آواز کمزور نہیں ہے ۔میری آواز میں حق و انصاف اور دلیل ومنطق کی طاقت موجود ہے ۔کمزور وہ ہوتا ہے جو اپنے آپ کو کمزور سمجھے ۔میں تو اپنے آپ کو کمزور نہیں سمجھتا ۔اللہ کے فضل و احسان سے میں لوگوں کے جسم کو اگر متاثر نہ کر سکا تو دماغوں کو تو ضررور سوچنے پر مجبور کر دوں گا ۔اور ایک دور آئے گا جب لوگ میرے مؤقف کو سمجھیں گئے اور یہ بستہ میری ذہنی اور جسمانی عمر سے ضرور ہم آہنگ ہو گا ۔آپ سوچ رہے ہوں گے کہ وہ کیسے ؟اس بات کا جواب دینے سے پہلے آپ سے پھر یہ گزارش کروں گا کہ میری بات سنتے ہوئے جذباتی نہ ہوں ۔اور تحمل و بربادی سے سماعت فرمائیں ۔آپ ذرا دنیا میں ترقی کرنے والے ممالک کے بچوں کے بستے کی طرف دیکھ لیں تو آپ کو سمجھ آجا ئے گی کہ بستہ کیسے چھوٹا کرنا ہے ؟ان کے بچوں کے بستوں کو دیکھیں کہ ان میں کتنی کتابیں ہیں ؟ان کے نصاب سازوں نے ان کے بچوں کا بستہ کیسے چھوٹا رکھا ہوا ہے؟دراصل جن باتوں میں ہمیں ان کی تقلید کرنی چاہیے ان میں ہم کرتے نہیں ہیں اور جن باتوں میں ہمیں اپنے فیصلے آپ کرنے چاہیں ان میں ہم ان کی تقلید کرنا شروع کر دیتے ہیں۔تقلید بھی اندھی ۔اتنی اندھی کہ جس میں اپنے دماغ استعمال کرنے گنجائش نہ چھوڑی گئی ہو ۔میں نے اپنے استاد محترم سے سوال کیا کہ کن کن ممالک کے بچوں کے بستے ہم سے چھوٹے ہیں ؟تو انہوں نے تمام ترقی یافتہ ممالک کے نام گنوادیے جن میں امریکہ ،برطانیہ ،فرانس ،جرمنی ،جاپان ،چین ،اور روس وغیرہ شامل ہیں ۔میں نے پھر اپنے استاد محترم سے سوال کیا کہ ان کے بستے کیوں چھوٹے ہیں تو انہوں نے فرمایا کہ وہ تمام مضامین اپنی قومی زبانوں میں پڑھتے ہیں ۔انہوں نے اپنے ملک کے بچوں پر اپنی قومی زبان کے علاوہ کسی دوسری زبان کا بوجھ نہیں ڈالا ۔استاد محترم کی بات میرے دل کو لگی ۔اردو میں بول بھی سکتا ہوں اور بڑی آسا نی سے میری سمجھ میں آجاتی ہے مگر انگریزی ہے کہ کم بخت سمجھ میں ہی نہیں آتی ۔انگریزی کے مضامین ،کہانیاں ، اور کتاب کے اسباق کو زیادہ تر رٹا ہی لگا نا پڑتا ہے ۔کتنے خوش قسمت ہیں وہ بچے جن کے نصاب سازوں نے ان پر کسی اور زبان کا بوجھ نہیں ڈالا۔ مگر ہمارے نصاب سازوں نے میری کمر کے ساتھ ساتھ میرے ذہن پر بھی تھکا دینے والا بوجھ ڈالا ہے ۔میں یہ بات سوچ ہی رہا تھا کہ میرے ایک ہم جماعت نے استاد محترم سے سوال کر ڈالا کہ ہم پر بھی تو عربی کا بوجھ ڈالا گیا ہے ۔استاد محترم نے کلاس کو بڑی ہی حکمت اور دانائی کے ساتھ سمجھایا کہ عربی تو قرآن کی زبان ہے ۔اور وہ انگریزی سے کئی گنا زیادہ آسان ہے ۔اسے پڑھنا اور اسکے ذریعے سے قرآن سمجھنا تو ہم پر فرض ہے ۔میرے استاد محترم نے سمجھایا کہ عربی اور اردو میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہے ۔ان کا مزاج ایک جیسا ہی ہے ۔ان کا خمیر تقریباً ایک جیسی ہی تہذیب و ثقافت سے اٹھتا ہے ۔اس لیے جو زبان ہماری تہذیب وثقافت کا حصہ ہوا سے سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے ۔انہوں نے بتایا کہ جب بچے نورانی قاعدہ پڑھتے ہیں تو عربی کے ساتھ ساتھ اردو پڑھنے میں بھی آسانی پیدا ہو جاتی ہے۔وہ بتا رہے تھے کہ عربی ،فارسی اور اردو تقریباً ملتی جلتی زبانیں ہیں ۔ان کے حروف تہجی بھی ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں ۔انہوں نے مزید فرمایا کہ کوئی شخص اگر عربی سیکھنا چاہے تو بہت سے لوگ سکھانے کے لیے میسر ہیں ۔دینی مدرسوں میں بڑی آسانی سے مفتو مفت سیکھی جا سکتی ہے ۔عربی کی سرکاری سطح پر سر پرستی نہ ہونے کے باوجود بھی آسان ہے ۔ مگر انگریزی سیکھنے کے لیے لاکھوں اکیڈمیاں قائم ہیں مگر پھر بھی نہں۔ سیکھی جاتی میرے استاد محترم نے فرمایا کہ بستے کو بڑا کرنے میں انگریزی کا ہی زیادہ عمل دخل ہے ۔نصاب سازوں اور ان کے حواریوں نے اس قوم کے بچوں پر بہت بڑا ظلم کیا ہے ۔وہ یہ کہ انہوں نے انگریزی کو ہماری ضرورت بنایا ہے اردو کو نہیں ۔مجھے یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ ضرورت سے کیا مراد ہے مگر استاد محترم نے وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ ضرورت بنانے سے مراد یہ ہے کہ حکومت نے گیارہویں جماعت سے لے کر سولہویں جماعت تک جدید تمام سائنسی اور جدید علوم کو انگریزی میں رائج کیا ہے۔امتحان انگریزی میں ہوتا ہے ۔اس لیے انگریزی پڑھنے کے لیے ہم سب مجبور ہیں ۔جبکہ انگریزوں نے تمام تر علوم کو اپنی زبانوں کے سانچے میں ڈھال کر باقی زبانوں کی اہمیت کو کم کر دیا ہے ۔دوسری زبانوں سے علوم و فنون اخذ کرنے کے لیے انہوں نے مخصوص باتوں کے ضرورت کے مطابق ماہرین تیار کیے ہیں جو ان زبانوں سے انگریزی میں علوم و فنون کو منتقل کیا ہے ۔اسی طرح دوسرے ترقی یافتہ ممالک میں بھی سائنسی علوم کو ان کی اپنی ہی زبانوں میں دی جاتی ہے ۔استاد محترم نے مزید بتایا کہ تمام ماہرین تعلیم ،ماہرین نفسیات اور ابلاغیات کا متفقہ فیصلہ ہے کہ بچوں کو تعلیم انکی مادری یا قومی زبانوں میں دی جانی چاہیے ۔مگر نہ جانے ہمارے نصاب ساز کیوں اس فطری طریقے سے انحراف کرتے ہیں ؟فطرت انسان پر اپنا بوجھ نہیں ڈالری ۔ انسان خود اپنے اوپر بوجھ ڈالتے ہیں استادمحترم نےبتایا کہ اگرایک سو لوگوں کو حکومت اس انداز سے انگریزی سکھانے سے بہتر ہے ۔کام وہی درست اور صحیح نتائج کا حامل ہوتا ہے جو مقاصد کو مد نظر رکھ کر کیا جائے ۔اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کوئی کارخانے کا مالک اگرایک کمپیوٹر اور ایک ملازم کے ساتھ جو کام کر سکتا ہے وہ شائد سو مزدور بھی مل کر نہ کر سکیں ۔ اگر وہ اس کی بجائے سو ملازم رکھے گا تو اسے کون عقلمند کہے گا ؟انتظام کاری ہے ہی اسی چیز کا نام کہ کم وسائل کے ساتھ زیادہ کا م کرنا ۔آپ سوچ رہے ہونگے کہ ان باتوں کا میرے بستے کے ساتھ کیا تعلق ہے ؟تعلق ہے ۔بہت گہرا تعلق ہے ۔یہی تو سوچ ہے جس نےمیرے کندھے پر ہل پر جوتے ہوئے بیل کی طرح نشان ڈال دیا ہے ۔صرف کندھے پر ہی نشان نہیں ڈالا بلکہ دماغ کو بھی بوجھل کر دیا ہے ۔بہر حال میں اپنے استاد محترم کے حوالے سے بات کر رہا تھا ۔وہ اپنے ایک دوست کی مثال دیتے ہیں جو ابھی ابھی چین کے سفر سے واپس لوٹے ہیں ۔چین میں چینی زبان کے علاوہ کوئی اور زبان بولتے ہوئے نظر نہیں آتے ۔ملک کے اندر تمام اشتہارات چینی زبان میں ہی پڑھتے ہیں ۔ان کو اپنے اوپر اعتماد ہے اور اپنی زبان پر بھی ۔وہ اپنی زبان فخر کے ساتھ بولتے ہیں ۔چین کا صدر اگر کسی ملک میں جاتا ہے تو وہ چینی زبان میں ہی گفتگو کرتا ہے ۔فرانس کا صدر اپنی قومی زبان میں ہر جگہ گفتگو کرتا ہے ۔جاپان کے صدر یا کسی سرکاری اہل کار کو کبھی کسی سے انگریزی میں گفتگو کرتے نہیں سنا ۔روس کا صدر اپنی زبان میں ہر بین الاقوامی موقع پر روسی زبان میں گفتگو کرتا ہے ۔انہیں اپنی زبان پر بھروسہ ہے اور اسے اپنی غیرت و حمیت کا مسئلہ سمجھتے ہیں ۔مگر ہمارے حکمران ہر جگہ انگریزی بول کر اپنے آپ کو انگریزی کا دم چھلا ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔دراصل وہ انہیں یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اپنی قوم کے کم اور ان کے زیادہ وفادار ہیں ۔حیرت کی بات یہ ہے کہ اپنی ہی قوم سے خطاب کرتے ہیں تو وہ بھی انگریزی میں ۔اور جب قوم سے کچھ چھپانا مقصود ہو تو پھر اپنی تقریر میں انگریزی کے ایسے ثقیل فقرے استعمال کرتے ہیں کہ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی سمجھنے سے قاصر رہیں ۔انگریزی کے الاقوامی زبان ہونے کا ہوا مذکورہ ممالک کو تو اپنے ملک کے بچوں کو انگریزی پڑھا نے پر مجبور نہیں کرسکا ۔پوری دنیا میں چیزیں اب چین کی بنی ہوئی بکتی ہیں ۔مختلف زبانوں کے لیبل لگا کر چین مختلف ممالک کو اپنا مال بیچتا ہے ۔یہ کام چند لوگ کر لیتے ہیں ۔اب اس کام کے لیے چین اگر پوری قوم کے بچوں کو انگریزی پڑھانا شروع کر دے تو اس سے بڑی حماقت اور کیا ہو گی ؟ہمارے ہاں تو ریفریجریٹر کے اشتہار میں "ٹھنڈا پانی ہر بار "کی بجائے thunda pani her bar لکھا ہوا نظر آتا ہے ۔جیسے اردو میں لکھنے سے پانی گرم ہو جاتا ہو اور اردو کو انگریزی رسم الخط میں لکھنے سے پانی واقعہی ٹھنڈا ہو جاتا ہو ۔یہی ذہنیت ہے جس نے میرے بستے کو بڑا کیا ہوا ہے ۔اگر تمام مضامین کو اپنی زبانوں میں پڑھا جائے اور انگریزی کو لازمی قرار دینے کی بجائے اختیاری قرار دیا جائے تو ہزاروں لاکھوں طلباء وطالبات جو انگریزی کی وجہ سے فیل ہو تے جارہے ہیں وہ پاس ہو جائیں اور تعلیم کی شرح میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہو جائے اور غریب آدمی کا بچہ بھی اعلٰی تعلیم حاصل کر سکے ۔گھر گھر میں ڈاکٹر اور انجینئر پیدا ہونے لگیں اور میرے دماغ پر بوجھ بننے والا اور کندھے پر لٹکنے والا بستہ دونوں ہلکے ہو جائیں ۔آپکو میری مشکل کا کسی حد تک انداز ہو گیا ہو گا کہ میں اپنے دماغ سے اور کندھے سے انگریزی کا بوجھ ہٹانا چاہتا ہوں ۔میری باجی تین دفعہ میٹرک میں فیل ہوئی ہیں فقط انگریزی کی وجہ سے ۔میں سمجھتا ہوں کہ جتنی قوت اس نے انگریزی پڑھنے پر صرف کی ہے اتنی قوت ،وسائل اور اتنا وقت صرف کر کے وہ ایم اے پاس کرسکتی تھیں ۔مقصد تو ہمارا ہے علم حاصل کرنا ۔اس علم کو مجھے میری قومی زبان کو سکھائیں ۔جتنا مرضی سکھائیں ۔مگر میرے بزرگ ،میرے نصاب ساز مجھے علم سکھانے کی بجائے انگریزی کی صورت میں ایک زبان سکھا رہے ہیں ۔مجھے یہ بتائیں کہ کیا جو انگریزی جانتا ہے وہی پڑھا لکھا ہوتا ہے ۔انگریزوں کے بچے جوان پڑھ ہوتے ہیں ۔بولتے تو وہ بھی انگریزی ہی ہیں ۔کیا اس وجہ سے وہ پڑھے لکھے کہلاتے ہیں ؟ آخر کیا وجہ ہے کہ ہم دن رات انگریزی سیکھنے میں گزار دیتے ہیں مگر علم کے سمندر میں تیر رہے ہیں مگر علم نام کی چیز ہمارے پاس نہیں ہے ۔ مجھے اپنے سکول کی دیوار پر لکھا ہوا وہ جملہ یاد آرہا ہے کہ "ہم علم کے سمندر میں تیر رہے ہیں مگر علم کو بھی ترس رہے ہیں "۔جی ہاں میں پورے وثوق کے ساتھ کہتا ہوں کہ ہمارے پاس علم نہیں ہے ۔اگر علم ہوتا تو ہم بھی ایف ۱۶ طیارے بنا چکے ہوتے ۔ہم بھی بی ۵۲ طیارے بناتے۔ہم نے بھی ھبل جیسی بڑی دور بین بنائی ہوتی ۔ہم بھی کمپیوٹر بناتے ۔اور دنیا میں فروخت کرتے ۔ہمارے خلائی سیارے بھی مریخ کا سفر کر چکے ہوتے ۔ہمارے ملک میں بھی تمام ادویات بنتیں ۔ہمارے لوگ بھی سائنس اور جدید علوم پر بڑی بڑی کتابیں لکھتے ۔ہمارے استاد بتاتے ہیں کہ پاکستان میں تو سوئی بھی باہر سے منگوائی جاتی ہے ۔پوری مارکیٹ بیرونی ممالک کی بنی ہوئی چیزوں سے بھری ہوئی ہے ۔منہ ٹیڑھا کر کے انگریزی کے لمبے لمبے فقرے بول کر اپنی علمیت کا رعب جمانے والے میرے ان سوالوں کا جواب کیوں نہیں دیتے ؟ یہی لوگ ہیں جو نہ خود ترقی کرنا چاہتے ہیں اور نہ ہی قوم کو کوئی سمت دینے کی پوزیشن میں ہیں ۔ایسے مصنوعی لوگ مجھے بہت برے لگتے ہیں ۔مجھے ایک بات کی سمجھ نہیں آتی کہ اپنے لوگوں کے ساتھ تو اپنی زبان میں بات کی جانی چاہیے تا کہ اچھی طرح سمجھ آسکے ۔پھر اپنے ہی لوگوں کے ساتھ انگریزی کے فقرے اور الفاظ بولنے کے کیا معنیٰٰہیں؟کیا انگریزی آپس میں گفتگو کرتے ہوئے عربی ،فارسی اور اردو کے الفاظ بولتے ہیں ؟
میں یہ کہا رہا تھا کہ ہمارے پاس علم نہیں ہے ۔کیوں نہیں ہے ؟ کیا سر جوڑ کر سوچنے کی بات نہیں ہے ؟آپ نے شائد اس پر کبھی سوچنے کی زحمت گوارانہ کی ہو مگر میں آپ کے دماغوں کے خلیوں کو ضرور ہوا لگاؤں گا ۔آپ کو سوچنے پر مجبور کروں گا ۔ آپ سوچ رہے ہونگے کہ شائد میں نے غیر متعلق گفتگوشروع کر دی ہے ۔ نہیں جناب ہرگز نہیں ۔یہ علم نہ ہونے کی وجہ بھی میرا بستہ ہی ہے ۔ جو ضرورت سے کہیں بڑا ہے ، مشکل ہے اور ساتھ ساتھ غیر فطری بھی ہے ۔اسے چھوٹا ، آسان اور فطرت سے ہم آہنگ کر دیجئے ملک وقوم کے تمام مسائل حل ہو جائیں گے ۔علم سمجھ میں آئے گا اور جب سمجھ میں آجائے گا تو اس پر عمل کرنا آسان ہوجائے گا۔ علم اس لیے سمجھ میں نہیں آتا کہ اسے ہم اپنی زبان چھوڑ کر دوسروں کی زبان میں پڑھتے ہیں ۔آسان راستوں کو چھوڑ کر جو شخص جان بوجھ کر مشکل راستوں کا انتخاب کرتا ہے ۔وہ اپنے وسائل کو ضائع کرنے کا خود سامان فراہم کرتا ہے اپنے راستے کی دیوار کو خوود اونچا کرتا ہے اور پھر اسے پھلانگنے کے لیے مزید توانائیاں اور وسائل جمع کرتا پھرتا ہے ۔کون اسے عقلمند کہے گا؟میرا بستہ بڑا کرنے والوں کی مثال بھی ایسی ہی ہے ۔مجھے تو یہ میرے ملک کے دشمنوں کی ایک چال لگتی ہے ۔دشمن کہاں چاہتا ہے کہ ہم ترقی کریں ؟ وہ ہمارے وسائل اور توانائیوں کو ہمارے ہی ہاتھوں ضائع کروا کے ہمیں کمزور کرنا چاہتا ہے ۔جدید علوم وفنون کو ہماری دسترس سے باہر رکھنا چاہتا ہے ۔میرے استاد محترم بتا رہے تھے کہ ہمارا دشمن بڑا مکار ہے ۔وہ ہمیں دست ِنگر اور کمزور کرنے کے لیے سب سے پہلے ہمارے تعلیم حاصل کرنے کے طریقہ کار کو مشکل بناتا ہے ۔وہ جدید علوم و فنون کا رشتہ ہماری قومی زبان سے کاٹتا ہے ۔ اسی لیے برصغیر پر قبضہ کرتے ہی اس نے وہاں رائج زبان فارسی کو ختم کیا اور تعلیمی اداروں میں انگریزی زبان رائج کر کے صدیوں کے تعلیمی ور ثے کو غرق کر کے رکھ دیا ۔تا کہ وہاں کے لوگ نہ کچھ پڑھ سکیں ۔ انگریزوں سے پہلے وہاں کا شرح خواندگی اٹھانوے فی صد تھا ۔ میرے استادِمحترم نے کتنی پتے کی بات فرمائی کہ خود تو سامراجی ممالک تمام قسم کے علوم اپنی قومی اور مادری زبانوں میں پڑھتے ہیں مگر جن ممالک کو یہ ترقی کرتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتے ان میں یہ اپنی زبان رائج کرنے کی سازش کرتے ہیں ۔اپنے مقاصد کو پورا کرنے کے لیے وہ چند با اختیار لوگوں کو طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کر کے ور غلاتے ہیں اور اپنی مرضی کے مطابق ان سے نصاب تیار کرواتے ہیں ۔ایسا نصاب جس کا ہماری زبان سے رشتہ کمزور سے کمزور ہو ۔ایسا نصاب جو غیر فطری ہو۔ایسا نصاب جسے سمجھنے کے لیے کئی گنا زیادہ وسائل در کا ر ہوں اس کا پہلا ہدف میرا بستہ ہوتا ہے اسی لیے انہوں نے انکے مقاصد پر پورا اترنے والے نام نہاد دانشوروں کے ذریعے میرے بستے میں پہلی جماعت سے ہی انگریزی کی کتاب اور چند کاپیاں شامل کر دیں ۔وہ سمجھتے ہیں کہ یہ بچے بچپن سے ہی انگریزی میں الجھ کر اپنی توانائیوں اور وسائل کو ضائع کرنا شروع کر دیں گے ۔اور جدید علوم کا حصول ان کے لیے نا ممکن رہے ۔بستے کے بہانے دراصل وہ میرے دماغ کو بھی بوجھل بنانا چاہتے ہیں ۔مجھے پڑھائی سے بیزار کرنا بھی ان کا مقصد ہے ۔میری عمر کے ہزاروں بچے انگریزی کے خوف سے سکول چھوڑکر بھاگ جاتے ہیں ۔میرا اپنا مشاہدہ ہے کہ ہزاروں طلباء و طالبات انگریزی کی وجہ سے میٹرک ،ایف اے اور بی اے نہیں کرپاتے ۔یہی رکاوٹیں ہیں جو ہمیں تعلیم نہیں حاصل نہیں کرنے دیتیں ۔میرے استاد محترم فرماتے ہیں کہ انگریز خود اپنے ممالک میں عربی ،فارسی اور اردو کو لازمی قرار کیوں نہیں دیتے ؟اسلیے کہ انہوں نے تمام علوم وفنون کو اپنے ملکوں میں اپنی زبان میں رائج کیا ہوا ہے ۔وہ دوسری زبانوں سے علم تو اخذ کرتے ہیں مگر ان کو ذریعہ تعلیم کے طور پر رائج نہیں کرتے ۔کتنی سمجھ داری کا مظاہرہ کرتے ہیں وہ لوگ ۔دراصل میرے بستے کو مشقِ ستم بنانے والے لوگ ذہنی طور پر غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں ۔یہ لوگ میری نفسیات کو نہیں سمجھتے ۔میری طرح کا ہر بچہ اپنی زبان میں ہی بات کو سمجھتا ہے ۔ہر بچے کےلیے اس کی اپنی زبان میں سیکھنا آسان ہوتاہے اسی کی کار ستانی ہے کہ آج ملک پاکستان کا بچہ بچہ ٹیوشن پڑھنے پر مجبور ہے سائنس پڑھنے والا تو شائد کوئی طالب علم ہی ایسا ہوتا ہو گا جو ٹیوشن کے بغیر امتحان پاس کرنے کا تصور بھی کرتا ہو ۔استاد محترم نے مزید وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ جتنا پیسہ ،وقت اور توانائیاں ہم انگریزی پڑھنے اورانگریزی میں جدید علوم کو پڑھنے میں صرف کرتے ہیں اتنا پیسہ ،وقت اور توانائیاں اردو میں ان علوم کو پڑھنے میں صرف کریں اور انگریزی کو بطور اختیاری مضمون پڑھیں تو بہت جلد ملک میں سائنس وٹیکنالوجی کا انقلاب آجائے گا ۔اتنی واضح اوراتنی صاف بات جسے ایک ان پڑھ آدمی بھی سمجھ سکتا ہے ۔میں نے اپنے استادمحترم سے سوال کیاکہ اتنی سیدھی اور صاف بات کو میرا نصاب بنانے والے دانشور کیوں نہیں سمجھتے ۔استادمحترم نے ہم سب کے قومی شاعر کا حضرت علامہ اقبال کا یہ شعر سنایا کہ
غلامی میں نہ کام آتی ہیں تدبیریں نہ تقدیریں
جو ہو ذوق یقیں پیداتو کٹ جاتی ہیں زنجیریں

انہوں نے فرمایا کہ دانشور چاہے جتنا بھی بڑا کیوں نہ ہوجب تک ذہن سے غلامی کے جراثیم نہیں نکلیں گے ،اس طرح کی بات سمجھ میں نہیں آسکتی ۔غلامی کا سب سے پہلا کام ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ ذہن سے غوروفکر کی صلاحیت کو ہی چھین لیتی ہے ۔غلام ذہن رکھنے والے آدمی کو نہ اپنے اوپر پر اعتماد ہوتا ہے اور نہ ہی اپنی زبان اور تہذیب وثقافت پر ۔اس میں اپنے گردونواح اور دنیا کے حالات وواقعات سے سبق سیکھنے کی صلاحیت دم توڑ جاتی ہے ۔اس لیے ایسے غلام دانشور اور اپنے آپکو ماہرین تعلیم سمجھنے والے پوری قوم کو جدوجہد کی منفی سمت دیتے ہیں ۔ترقی کی سمت کو اتنا مشکل بنا دیتے ہیں کہ سوائےوسائل ضائع کرنےکےکچھ ہاتھ نہیں آتا۔

میں آپ کو ایک مزے کی بات بتانا چاہتا ہوں ۔وہ یہ کہ پہلے چھٹی جماعت سے انگریزی شروع ہوتی تھی ۔ پھر چند دانشوروں (بزعم خویش)اسے پہلی جماعت سے نافذالعمل کردیا۔یہ سوچ کر کہ بچے پہلی جماعت سے ہی انگریزی پڑھنا شروع کریں تو شائد اگلی کلاسوں میں جا کر علم حاصل کرنے میں آسانی ہو گی مگر آسانی بجائے مشکلات میں مزید اضافہ ہو گیا ۔انگریزی کی طرف غیر ضروری توجہ نے اردو کو بھی کمزورکر دیا ہے۔نیتجہ یہ نکلا کہ نہ تو انگریزی ہی آئی اور نہ ہی اردو ۔دشمن یہی چاہتا ہے کہ ان کا کسی زبان پر بھی عبور نہ ہو ۔یہ کسی زبان میں بھی اچھی طرح اظہارِ خیال نہ کر سکیں ،نہ ہی اس میں کچھ لکھ سکیں ۔اس طرح ان کو ان کی تہذیب سےبھی دور کر دیا جائے اور علم سے بھی ۔ایسے لوگ پیدا ہوں جو منہ بگاڑ کر چند فقرے انگریزی کے بولنے کے سوا علوم وفنون سے تہی دست ہوں ۔محض دوسروں کو متاثر کرنے اور اپنے غصے کا اظہار انگریزی میں کرنے کے قابل ہی بن سکیں ۔ان کے عادات واطوار اور رویے ہی غیر فطری بن جائیں ۔علم کو میں اللہ کا نور سمجھتا ہوں اور انسان فطری طریقوں کو پسِ پشت ڈال کر کبھی خدا کے نور کو حاصل نہیں کر سکتا ۔انگریزاور دیگر ترقی یافتہ ممالک اس لیے کر گئے کہ انہوں نے علم حاصل کرنے کے فطری طریقوں سے انحراف نہیں کیا ۔اب یہ دانشور سوچ رہے ہونگے کہ پہلی جماعت سے انگریزی شروع کرنے سے مشکلات اور بڑھ گئیں ہیں اب کوئی ایسا طریقہ سوچا جائے کہ بچے پیدا ہونے سے پہلے ہی انگریزی سیکھنا شروع کر دیں ۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جس قدر قوم کو یہ اپنی قومی زبان سے دور کریں گے اور اس کی جگہ بغیر مقاصد کو سامنے رکھے انگریزی پر ساری توانائیاں خرچ کریں گے ،علم کے حصول کو اسی قدر مشکلات سے دوچار کریں گے ۔جوں جوں یہ انگریزی کو نچلی سطح پر لائیں گے توں توں مجھے ٹیوشن پڑھنے پر مجبور کریں گے اور میرے جیسے غریب بچوں کی دسترس سے علم کو دور کرتے جائیں گے ۔میں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ دوائی کے مثبت اثرات پر جب منفی اثرات غالب آجائیں تو دوائی کو مریض کےلیے کس طرح فائدہ مند قرار دیا جا سکتا ہے ؟کاش کوئی مجھےیہ بات سمجھا دے کہ علم کے ذرائع کو آسان کرنے سے علم پھیلتا ہے یا مشکل بنانے سے ؟انگریزی کی جگہ میرے لیے سائنس کی ایک اور کتاب لگوا دیں جو عام فہم اردو میں لکھی ہوئی ہو تو تب میں اتنا بوجھ محسوس نہ کر وں ۔یہ لوگ میرے ذہن کو کیوں نہیں پڑھتے ؟میری قومی زبا ن میں مجھے بنیادی تعلیم کیوں نہیں دیتے؟

میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ پاکستان میرے جیسے زیادہ سے زیادہ تیس پینتیس فیصد بچے تھوڑا بہت پڑھنا جانتے ہیں ۔لگتا ہے میرے نصاب اور بستہ سازوں کا اس سے زیادہ ہمیں پڑھانے کا ارادہ نہیں ۔ذرا دیکھیں نا کہ میٹرک کے امتحان میں لاکھوں بچے ہر سال انگریزی میں فیل ہو جاتے ہیں ۔اسی طرح اگر میرا پانچویں جماعت کا امتحان صحیح طریقے سے لیا جائے اور فیل پاس کا وہی طریقہ رکھا جائے جو میڑک میں ہے تو جنا ب من ملک کے لاکھوں بچے ہر سال پانچویں میں فیل ہو جائیں گے اور لاکھوں بچے اسی مضمون کی وجہ سے سکول چھوڑ کر بھاگ جائیں گے ۔امسال جو پانچویں اور آٹھویں کے سالانہ امتحان ہوئے ان میں لاکھوں بچے انگریزی اور سائنس کے مضمون میں فیل ہوئے اور محکمہ تعلیم نے اس خفت سے بچنے کے لیے یہ فارمولا جاری کیا کہ جو دو مضامین میں فیل ہو اسے پاس کر دیا جائے اور ایسے ہی ہوا ۔یہ بات میرے مؤقف کو سو فیصد درست ثابت کر تی ہے ۔ذرا اندازہ لگائے کہ لاکھوں بچے اگر پرائمری اور مڈل میں فیل ہو گئے تو پھر آگے پڑھنے کے لیے کتنے پہنچیں گے ۔مجھے سمجھ نہیں آتی کہ جس اجنبی زبان کو سیکھتے ہوئے ملک کے لاکھوں طلباء و طالبات تعلیم سے محروم رہ جاتے ہیں اس کی جگہ پر ہماری اپنی میں تعلیم کیوں نہیں دی جاتی ؟میں علم سیکھنے میں آسانی چاہتا ہوں ۔میری نفسیات ،مزاج اور فطرت یہ چاہتی ہے کہ مجھے میری اپنی ہی زبان میں تعلیم دی جائے ۔میں سمجھتا ہوں کہ میرے پسماندہ رہنے کا راز ہی یہی ہے کہ مجھے علم حاصل کرنے کے فطری راستوں سے منحرف کرکے غیر فطری اور خار دار راستوں پہ چلنے پر مجبور کیا جا رہا ہے ۔ ایک بستہ بھاری ،دوسرا دماغ بوجھل اور تیسرا راستہ پتھریلا ۔اسی لیے میری صحت خراب ،جسم نحیف ،دماغ تخلیقی صلاحیتوں سے عاری اور پاؤں شل ہیں ۔کچھ سمجھ نہیں آتی کہ میں کیا کروں ؟ کس کے سامنے فریاد کروں ؟مجھے کوئی گلے لگانے والا کوئی نہیں ہے ۔میری آواز کسی کے کانوں سےنہیں ٹکراتی ۔میرا درد کوئی بھی بانٹنے کےلیے تیار نہیں ہے ۔اس ملک کے لوگ بہرے تو نہیں ہیں ؟اس کے لوگوں کے سینے میں کیا دل نہیں ہے ؟اگر ہے تو پھر کیا دھڑکتا نہیں ہے ؟کیا یہ سماعتوں اور بصارتوں سے محروم لوگ ہیں ؟اگر نہیں تو پھر یہ میری طرف دیکھتے کیوں نہیں ؟ میری آواز کیوں نہیں سنتے ؟مجھے آگے بڑھ کر گلے سے کیوں نہیں لگاتے ؟ کیا یہ اس عظیم ہستی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی امت کے لوگ نہیں ہیں جو بچے کو روتا دیکھ کر آنسووں سے اپنی داڑھی مبارک تر کر لیا کرتی ہیں؟جو بے سہارا بچوں کو گود میں اٹھا لیا کرتی تھی ۔جس نے مجھے اور میرے جیسے بچوں کو پھولوں سے تشبیہ سی تھی۔ یااللہ میں پھر کیوں ایک ایسے بوجھ کے نیچے دبا جا رہا ہوں جس کو برداشت کرنے کی مجھ میں سکت نہیں ہے ۔مجھے نہ محبت ملتی ہے اور نہ تعلیم ۔کوئی ہے جو میرے سر سے اس مشکل پسندی کا پتھر ہٹا دے ۔کوئی ہے جومیرےدل کا درد محسوس کرے؟کوئی ہے جو مجھے سمجھنے کی کوشش کرے؟

میرے نصاب میں تو در حقیقت صرف دو ہی کتابیں ہونی چاہیں ۔ایک ریاضی کی اور دوسری اردو کی ۔اردو کی کتاب کے اندر ہی ایک حصہ دینیات کا جس میں قرآن کریم کی سورتیں، احادیث اور اخلاق و کردار کو سنوارنے کے لیے تربیتی مضامین ہوں۔ دس پندرہ اسباق پر یہ حصہ اسلامیات کے لیے وقف ہو۔ اسی طرح اتنے ہی اسباق پر مشتمل سائنس کا ہو۔ لمبے لمبے سوالات نہ ہوں بلکہ چھوٹے چھوٹے آسان فہم انداز میں لکھے ہوئے سوالات اور ان کے چھوٹے چھوٹے پیراگراف پر مشتمل جوابات ہوں جن کا میرے لیے سمجھنا، یاد کرنا اور اپنے الفاظ میں لکھنا آسان ہو۔ اصطلات عام فم اور روزمرہ زندگی میں بولے جانے والے الفاظ پر مشتمل ہوں۔جنہیں سمجھنے اور یاد کرنے کے لیے مجھے رٹا نہ لگانا پڑے ۔واضح انداز سے دی گئی تصویروں کے ذریعے سائنس کو دلچسپ بنایا جائے ۔عملی تجربات کے ذریعے مجھے سائنسی تصوارات سمجھائے جائیں۔سائنس کی بات چلی ہے تو میں اس ظلم کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو مجھ پر میرا نصاب بنانے والوں نے ڈھایا ہے ۔یہ میرا اور میرے جیسے لاکھوں بچوں کاجیتے جی گلا گھونٹنے کے مترادف ہے۔ میری سائنس کی کتاب سے اردو کی تمام اصطلاحات کو کر نکال کس انگریزی کی اصطلاحا ت کو اردو رسم الخط میں لکھ کر میرے دماغ پر ایک ایسابھاری پتھر رکھ دیاہے جسے اٹھا کر دوگام چلنا میرے اور میرے جیسے لاکھوں بچوں کے بس سے باہر ہے۔ذرا میری پنجم جماعت کی سائنس کی کتاب کے صفحے پر دیکھیں کہ روشنی کے قوانین کو کس انداز میں لکھا ہے۔

۱۔جب روشنی ایک پلین مرر سے رفلیکٹ ہوتی ہے تو اس کا اینگل آف ریفلیکشن (reflection)،اینگل آف انسیڈینس (incident)کے برابر ہوتا ہے "
۲۔انسیڈنٹ رے (ancident ray)،عمود اور رفلیکٹڈ رے (relected ray)تینوں ایک ہی پلین میں ہوتے ہیں ۔

جی جناب کچھ پلے پڑا آپ کے ؟میری سائنس کی پوری کتاب اس طرح کی غیر فطری اور میرے لیے سوہان روح سا سامان فراہم کرنے والی تبدیلیوں سے بھری پڑی ہے ۔میں ان نصاب سازوں اور قوم کے دانشوروں سے پوچھتا ہوں کہ خدا کے لیے مجھے بتایا جائے کہ میری قومی زبان کون سی ہے ؟اب تک تو میں سمجھتا رہا ہوں کہ میری قومی زبان اردو ہے ۔ لیکن اب معلوم ہوتا ہے کہ نصاب سازوں نے اپنی قومی زبان بدلنے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔میں پوچھتا ہوں میری زبان کے الفاظ کہاں گئے ہیں ؟ان کو کیوں نصاب بدر کیا گیا ہے َ ان کا کیا جرم تھا ؟یہ تو ایسا ہی جرم ہے کہ کسی کو اس کے گھر سے زبردستی نکال باہر کیا جائے اور اس کی جگہ پر کسی اور کو بٹھا دیا جائے ۔کیا ظلم اسی چیز کا نام نہیں ہے ؟میری قومی زبان کی یہ ساری اصطلاحات اور الفاظ چیخ چیخ کر یہ سوال کر رہے ہیں کہ انہیں دیس نکالا کیوں دیا گیا ہے؟کیا کوئی محب وطن اپنی قومی زبان کی پیٹھ میں اس طرح خنجر گھونپ سکتا ہے ؟نہیں نہیں ہرگز نہیں ۔کاش یہ میری قومی زبان بدلنے کی بجائے خود بدل جاتے !کاش ان کو نصاب بنانے کے لیے نہ منتخب کیا جاتا !کاش ان کو میرے مستقبل کے ساتھ کھیلنے کی توفیق ہی نہ ملتی ! میں تو بس اتنا جانتا ہوں کہ جو قوم اپنی زبان کی حفاظت نہیں کر سکتی وہ اپنی حفاظت بھی نہیں کر سکتی ۔آج یری قومی زبان کے الفاظ سے دست بردار ہونے والے کل کو پورے ملک سے دست بردار ہونے کے لیے تیار ہو جائیں گے ۔میری قومی زبان میری شناخت ہے ۔یہ میری تہذیب او ر ثقافت کی علامت ہے ۔اس کے لیے میرے جیسے ہزاروں بچوں نے قربانیا ں دی ہیں ۔ بابائے قوم قائداعظم رحمتہ اﷲ علیہ نے میری قومی زبان کو اردو قرار دیا ہے ۔آئینے جگہ پلین مرر ،زاویہ ،انعکاس کی جگہ انسیڈنٹ رے ،ڈھانچے کی جگہ سکیلیٹن ،نظام اخراج کی جگہ ایکسکریٹری سسٹم ، نظام تولید کی جگہ ریپروڈکٹو سسٹم اور نہ جانے کتنی اردو زبان کی اصلاحات کو خیر باد کہہ کر اور ان کی جگہ پر غیر فطری انداز میں انگریزی کی اصلطلاحات نافذالعمل کر کے مجھے رٹے کا خوگر بنانے اور بنیادی سائنسی تصورات کے فہم سے تہی دست کرنے کی قابل مذمت کوشش کی ہے۔ میرے سر پر مشکلات کا بھاری پتھر رکھنے والوں نے بابائے قوم کی روح کو بھی تڑپا کے رکھ دیا ہے ۔مجھے تو شک ہونے لگا ہے کہ کل کو یہ ہمارا قومی شاعر بھی کسی انگریز کو نہ قرار دے دیں ۔میں اس اقدام کو اپنی قومی زبان کے خلاف بھی ایک سازش سمجھتا ہوں ۔میرے سائنسی نصاب کی وہ درگت بنائی ہے کہ ایسا لگتا ہے جیسے کسی بدمست ہاتھی نے ہرے بھرے کھیت کو اپنے پاؤں تلے روند کر ویران و بربا د کر دیا ہو ۔میرا دل خون کے آنسو روتا ہے جب میں اخبارات میں روزانہ لاکھوں روپے کے "پڑھا لکھا پنجاب "کے نام سے اشتہارات پر ضائع کیے جارہے ہیں ۔ایک طرف حکومت سکول میں بچوں کو داخل کروانے کا رونا رو رہی ہے اور دوری طرف وہ تمام اقدامات کر رہی ہے کہ میری تمام تر نصابی دلچسپیاں ختم کر دی جائیں اور میں سکول سے بھاگنے پر مجبور ہو جاؤں ۔مجھے ایسا نصاب دیا جا رہا ہے کہ میں رٹہ لگانے پر مجبور ہو جاؤں ۔میرے بستے کو ایسی نصابی کتابوں سے بھرا جا رہا ہے جو میری تمام تر دلچسپیوں کا گلا گھونٹ کر رکھ دے ۔کروڑوں روپے کی اس خطیر رقم سے میرے جیسے بچوں کے ہزاروں سکولوں کی چاردیواریاں بن سکتی تھیں ۔لاکھوں غریب بچوں کے بیٹھنے کے لیے ٹاٹ مہیا کیے جا سکتے تھے ۔سینکڑوں نئے سکول کھل سکتے تھے ۔میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ جنہوں نے میرے نصاب اور نظام امتحا ن کو تباہی و بربادی سے دوچار کیا ہے وہ اپنے جرم کو تشہیری مہم کے دھوئیں میں چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔میری قومی زبان کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے اور میرے فہم کو چند ٹکوں کے عوض بیچنے والوں کا یوم حساب آنے کو ہے ۔ان کا اللے تلے کامو ں میں پانی کی طرح بہایا جانے والا پیسہ میں نے اور میرے جیسے بچوں نے ہی تو کل کلاں قرض کی صورت میں ادا کرنا ہے ۔مجھے پسماندہ غصہ کیوں نہ آئے ؟میں کیوں نہ روؤں ؟مجھے اپنا مستقبل تاریک نظر آتا ہے ۔مجھے غصہ کیوں نہ آئے ؟مجھے مفت کتابوں کی میٹھی پڑی میں زہرملا کر کھلایا جا رہا ہے۔اور ستم بالائے ستم یہ کہ اس زہر کو ذرائع ابلاغ میں قند بنا کر پیش کیا جا رہا ہے ۔اس سے پہلے کہ میری مظلوم زبان سے آہ نکلے اور وہ آسمانوں کو چیرتی ہوئی حقیقی فریا د رسا ں تک پہنچ جائے اور سنبھلنے کا وقت ستم گروں کے ہاتھ سے نکل جائے ۔اے رسم ستم گری کے وارثو !خدا کی لاٹھی بے آواز ہے۔ایسا نہ ہو ظالمو ں کی اس بستی کو الٹ کر رکھ دیا جائے ۔ایسا نہ ہو کہ قہر ِالہی کو جوش آئے اور تمہارے شاہی محل آناً فاناً کھنڈرات کا نقشہ پیش کرنے لگ جائیں ۔خدا سے ڈر جاؤ۔میرے فہم کا گلامت گھونٹو ۔مجھ سے علم کی دولت مت چھینو ۔میرے پاؤں میں مشکلات کی زنجیریں مت ڈالو ۔ خدا کی قسم جب میں نے اور میرے جیسے دوسرے مظلوم بچوں کے منہ بد دعا نکل گئ تو نہیں بچ پاؤ گے ۔اگر یہ سب کچھ غیروں کے کہنے پر کر رہے ہو اور میرے علم وفہم کو پیسوں کے عوض دشمن کے ہاتھوں فروخت کر رہے ہو تو میرے تمام رشتے تم سے ٹوٹ چکے ہیں ۔میرے ساتھ جنگ کرنے کےلیے تیار ہو جاؤ ۔اس جنگ میں آج اگر میرا باپ بھی میرے مد مقابل آئے تو نہیں بخشوں گا ۔میرا بھا ئی بھی میرے سامنے آئے تو گلا کاٹ کے رکھ دوں گا ۔یہ رشتے مجھے میرے وطن سے پیار ے نہیں ۔یہ رشتے مجھے میری قومی زبان سے عزیز نہیں ہیں ۔میں ان رشتوں کو اپنی تہذیب اور ثقافت پر قربان کر سکتا ہوں ۔پاکستا ن بھی میرے بذرگوں نے ان رشتوں کو قربان کے کے ہی بنا یا تھا ؟میرے استاد محترم نے اپنی کتا ب "نئے سائنسی نصاب کا المیہ "لکھ کر ایسی حماقت خیز حرکات کرنے والوں کی خوب خبر لی ہے ۔آپ اس کتا ب کا ضرور مطالعہ کریں ۔معاف کرنا بات ذرا لمبی ہو گئی ۔تو میں اپنے لیے وضع کردہ نصاب کے لیے تجاویز پیش کر رہا تھا۔ سائنس کے علاوہ معاشرتی علوم ،جغرافیہ اور معلومات عامہ کے بارے میں بھی دس پندرہ اسباق سادہ اور عام فہم انداز سے اسی کتاب میں شامل ہونے چاہیں ۔ان سب مضامین پر مشتمل درمیانے سے سائز کی ایک ہی کتاب ہو۔بنیادی سطح پر انگریزی سکھانے کی بجائے مجھے اپنی زبان میں پڑھنے لکھنے اور اس میں بہتر انداز سے اظہار خیال کی مشق کروائی جائے۔تاکہ میں بڑی کلاسوں میں جا کر اپنے مافی الضمیر کا بخوبی اظہار کر سکوں اور جدید علوم کو اپنی قومی زبان میں منتقل کرنے کے قابل بن سکوں ۔جدید علوم پر اپنی قومی زبان میں کتابیں لکھوں اور قومی خود انحصاری کو حاصل کرنے میں اپنا بھرپور انداز سے کردار ادا کرسکوں۔اورمیرے بڑوں نے جو جدید علوم پر کتابیں نہ لکھ کر میرے لیے خلا چھوڑا ہے اس خلاءکو پر کر سکوں ۔بڑی کلاسوں میں پہنچ کر مجھے انگریزی اور دیگر زبانیں اس انداز سے سکھائی جائیں کہ میں ان زبانوں سے علوم وفنون کو اپنی قومی زبان اردو میں منتقل کر سکوں۔موجودہ طریق تعلیم مجھے پسند نہیں ہے جس میں طالب علم نہ اپنی زبان میں کچھ لکھنے کے قابل ہوتا ہے اور نہ ہی کسی دوسری زبان میں۔

مجھے یاد آیا کہ مجھے تو خلاصے بھی بستے میں ڈال کر لے جانے پڑتے ہیں۔اساتذہ بہت روکنے کی کوشش کرتے ہیں مگر ہم آنکھ بچاکر انہیں اپنے بستے میں چھپانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں ۔ہم ریاضی کے سوالات ان سے دیکھ کر حل کرتے ہیں ۔تقریباً تمام مضامین کے خلاصے ہم نے اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں ۔خلاصوں میں بنے بنائے سوالات اور ان کے جوابات موجود ہوتے ہیں ۔ہمیں انہیں رٹا لگانے میں آسانی ہوتی ہے ۔مجھے سمجھ نہیں آتی کہ اساتذہ ہمیں خلاصے اپنے پاس رکھنے سے منع کیوں کرتے ہیں؟ماناکہ ان کے استعمال سے میری تخلیق صلاحیتیں دم توڑ جاتی ہیں ۔یہ مجھے رٹے کا عادی بناتے ہیں ۔یہ سب باتیں اپنی جگہ پر بجا ہیں ۔مگر یہ ہمیں خلاصوں کے استعمال کو روکنے کا کوئی طریقہ ہے ؟میں یہ پوچھتا ہوں کہ یہ خلاصے بنتے کہاں ہیں؟کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ انہیں بننے ہی نہ دیا جائے؟اب جبکہ خلاصے بنانے والوں کو آزادی ہے ۔دکانوں میں رکھ کر بیچنے کی آزادی ہے ۔ہر کتاب خانے تک پہنچانے اور سکولوں میں جا جا کر تعارف کروانے کی آزادی ہے ۔طلباء طالبات کو دکانو ں سے خرید کر گھر رکھنے کی آزادی ہے۔ان ساری آزادیوں کے ہوتے ہوئے مجھے سکول لے جانے کی آزادی کیوں نہیں ہے۔جب برائی کے تمام راستے کھلے ہوں تو کیا آخری راستہ بند کرنے سے برائی رک جائے گی ؟یہ تو ایسی ہی بات ہے کہ برائی کے کسی درخت کو اکھاڑنا مقصود ہو تو اس کے پتوں کو نوچنا شروع کر دیا جائے ۔بھئی درخت تو جڑ سے اُکھاڑنے سے ہی اکھڑتا ہے ۔میں یہ پوچھتا ہوں کہ کیا حکومت کے پاس اتنی طاقت نہیں ہے کہ وہ خلاصوں کو چھپنے ہی سے روک دے ۔نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری ۔جب حکومت کے پاس اتنی طاقت ہے کہ وہ اس برائی کے درخت کو جڑ سے اکھاڑڈالے تو پھر نوچنے کا کام کیوں کرتی ہے ؟اس سوال پر آپ یقیناً شکوک وشبہات کا شکار ہوئے ہونگے ۔میں تو اچھی طرح سمجھ گیا ہوں۔آپ تو مجھ سے بڑے بھی ہیں اور جہاندیدہ بھی ۔آپ کو پہلے سے ہی معلوم ہو گا کہ اصل خرابی کہاں ہے ؟ میں اپنے بڑوں اور بذرگوں کو مشورہ دوں گا کہ ایسے لوگوں کو میری قسمت کا فیصلہ کرنے کے لیے منتخب کریں جو اہلیت و قابلیت کی دولت سے مالا مال ہوں ؟جو ملک وقوم سے مخلص ہوں ۔

میں بات ختم کرنے لگتا ہوں تو پھر کوئی نہ کوئی بات ذہن میں آجاتی ہے ۔مجھے یاد آیا کہ میرے استاد محترم فرما رہے تھے کہ تمام ترقی یافتہ ممالک کے پرائمری سطح کے بچوں کو فقط اوقات مدرسہ میں ہی سب کچھ پڑھایا جاتا ہے ۔ان کو گھر میں کرنے کے لیے کام بالکل نہیں دیا جاتا ۔وہاں کی تعلیم و تدریس میں میری نفسیات کو خوب مد نظر رکھا جاتا ہے ۔مگر یہاں تو ایک گٹھا کاپیوں اور کاغذ کے دستوں کا مجھے سکول میں تفویض کردہ گھر کے کام کے لیے رکھنا پڑتا ہے ۔میں اس بات کو پھر دہراؤں گا کہ ان ترقی یافتہ ممالک کی مثبت چیزیں میرے نصاب سازوں اور پالیسی سازوں کو کیوں نظر نہیں آتیں ؟یہ ان سے ہمیشہ منفی چیزیں ہی کیوں اخذ کرتے ہیں ؟مجھے اخلاق باختہ بنانے اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے میرے دل و دماغ کو پراگندہ کرنے کے لیے ان کے نقش قدم پر چلنا اپنا فرض عین سمجھتے ہیں مگر ان کی مثبت اپنے ہاں رواج دینے سے معلوم نہیں کیوں ڈرتے ہیں ؟اللہ تعالیٰ سے میں دعا کرنا اپنا حق سمجھتا ہوں اور بارگاہ الہیٰ میں التجا کرتا ہوں کہ اے اللہ تو اپنے دربا ر میں میرے فریا د کو رسائی اور قبولیت کا درجہ عنائت فرما دے ۔اے اللہ تو تو دلوں کے بھید جانتا ہے ۔میں تیرے سامنے نہ بھی روؤں تو تو میرے دل کی کیفیت سے آگاہ ہے ۔اے رب العلمین ہوں ۔یااللہ میری سسکیوں کی لاج رکھ لے ۔یااللہ اگر تجھے میری کوئی نیکی پسند ہے تو اُس کے طفیل میری پکار کو شرف ِ شنوائی بخش دے ۔یااللہ میں اپنی ذات کےلیے کچھ نہیں مانگتا ۔ مجھے اس ملک کی قومی ناؤ اس ملک کے نصٓب تعلیم اور نظام تعلیم کے ہاتھوں ڈوبتی ہوئی محسوس ہو رہی ہے ۔یااللہ تو اسے منجد ھار سے نکال کر صحیح و سلامت کنارے پر لگا دے ۔ یا اللہ تیرے نام پر بننے والے اس ملک کی قومی زبان اس وقت خطرے میں ہے ۔یااللہ اس کا مستقبل غیر محفوظ ہاتھوں میں مجھے نظر آ رہا ہے ۔اسے تومحفوظ اور محب ِ وطن ہاتھوں میں تھما دے ۔یااللہ میرے چھوٹے چھوٹے ہاتھ تیری بارگاہ میں اٹھے ہیں انہیں خالی مت لوٹانا ۔یااللہ میں پورے یقین اور امید کے ساتھ تیری بارگاہ میں دست بد دعا ہوا ہوں ۔یااللہ میں ندامت کے آنسوؤں کو اپنی پلکوں پر سجا کر تیرے سامنے آیا ہوں ۔اے اللہ میں تجھ سے سونے کی تجوریا ں نہیں مانگتا ۔یااللہ میں تجھ سے دنیاوی آسائشوں کی دعا نہیں مانگتا ۔یااللہ یہ چیزیں بھی میں تجھ سے مانگنے کا حق رکھتا ہوں مگر نہ جانے کیوں آج ایسا سوچتے ہی اپنے آپ کو خود غرض سمجھنے لگ جاتا ہوں ۔اے اللہ میں اس ملک کے نظام تعلیم کو اہل ،مخلص ،خدا خوف ہاتھوں میں دینے کےلیے تیری بارگاہ میں سر بسجود ہوا ہوں اور اپنی پیشانی پر قبولیت اور امید ور جا کا نور لے کر اٹھنا چاہتا ہوں ۔یااللہ تجھے اپنے جھکی ہوئی پیشانیاں پسند ہیں ۔میری پیشانی پر لگی ہوئی مٹی کو بھی شرف قبولیت بخش کر قیمتی بنا دے ۔اے خدا ئے بذرگ و برتر میرے بستے کو دشمنوں کی سازشوں بچا لے ۔اے میرے پیارے رب !دشمنوں کی نظروں میں میرے ملک کا ایٹمی پروگرام کاٹنے کی طرح کھٹکتا ہے ۔یااللہ تو جانتا ہے کہ یہ کانامہ ٹاٹو ں پر بیٹھ کر پڑھنے والوں نے انجام دیا ہے ۔مگر اب ان سے بھی ان کا فہم چھین کر ان کو نادیدہ اور اندھیروے راستوں کا ایسا راہی بنایا جارہا ہے جہاں سے واپسی کے سب راستے انسانوں کے خون سے رنگے ہوئے محسوس ہوتے ہیں ۔اے خدا یا میں کیوں بے چین وبے قرار ہوں ؟میرادل کیوں پریشان و مظطرب ہے ؟مجھے تو سکینت وراحت عطا فرما ۔ میرے خوابوں کو ٹوٹنے سے بچا ۔میرے دل ودماغ میں ایک انجانا سا خوف بس گیا ہے۔ یااللہ اس انجانے خوف سے مجھے نجات عطا فرما ۔مجھے بے خوفی اور عزم واستقلال کی وہ دولت نصیب فرما کہ میں اپنے ملک اور اس کے نو نہالوں کے دشمنوں سے جنگ کر سکوں ۔ہاں میں جیت سکتا ہوں ۔یااللہ تیری نصرت اگر میرے شامل حال ہو جائے تو میں یہ جنگ جیت سکتا ہوں ۔ہاں میں جیت سکتا ہوں ۔میں یہ جنگ جیتوں گا ۔ضرور جیتوں گا ۔اے میرے رب مجھے یقین ہےکہ تیری نصرت سے میرا دامن بھرنے والا ہے افق کے اس پار سے تیری رحمت کی گھٹا ئیں اُٹھ رہی ہیں ۔یہ ٹھنڈی ہواؤں کے جھونکے وہیں سے آرہے ہیں ۔راحت ِجسم وجاں کے یہ پیا مبر جھونکے میری جدوجہد کے ثمر بار ہونے کی نوید سنا رہے ہیں.
Ishtiaq Ahmad
About the Author: Ishtiaq Ahmad Read More Articles by Ishtiaq Ahmad: 52 Articles with 177569 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.