لاپتہ بچے

پاکستان میں خواتین اور بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور قتل جیسے گھناؤنے واقعات روز مرہ کا معمول بن چکے ہیں زیادہ تر غریب ، مظلوم اور بے ضرر انسان اپنی جان اور عزت کا بھرم رکھتے ہوئے رو دھو کر خاموشی اختیار کر لیتے ہیں اگر کسی میں زیادتی برداشت نہ کرنے کی صلاحیت موجود ہو اور وہ قانون نافذ کرنے والے ادارے یا نام نہاد پولیس سٹیشن تک جا پہنچتا ہے تو اسے یہی قانون کے رکھوالے اپنے ڈیرے یعنی (تھانہ )(سلاٹر ہاؤس) میں ایسے ایسے ذہنی و جسمانی طریقے سے ریپ اور ٹارچرکرتے ہیں کہ وہ سارے سماج اور معاشرے کو لعنت ملامت کرتے ہوئے جیتے جی وہیں دفن ہو جاتا ہے اور ویسے بھی لوگ بیٹھ کر انصاف کا رونا تو ناحق ہی روتے ہیں انصاف تو وہاں ملتا ہے جہاں پہلے قانون موجود ہو جس ملک میں قانون ہوتے ہوئے بھی اس پر عمل درامد نہیں تو کیسا انصاف ؟ ترقی یافتہ مغربی اور اسلامی ممالک میں قانون کی اجارہ داری بھی ہے اور انصاف بھی ملتا ہے ریپ کیس میں پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے مجرموں کی شہہ رگ تک پہنچنے کیلئے ہر حربہ استعمال کرتے ہیں عوام کے تحفظ کو یقینی بنانے سے غافل نہ ہوتے ہوئے جان کی بازی بھی لگا دیتے ہیں اور ایسے افراد کو محب وطن قرار دیتے ہوئے تاحیات یاد رکھا جاتا ہے جبکہ پاکستان میں پولیس کے سامنے جرائم پلتے اور پایہ تکمیل پہنچتے ہیں اور وہ آنکھیں موند کرکے غریب اور مظلوم کی عزت کو تار تار ہوتا دیکھ کر قہقہے لگاتے ہیں جب کوئی نام نہاد دہشت گرد انہیں گولی مار کر ماتھے میں سوراخ کر دیتا ہے تو شہید اور محب وطن کہلاتے ہیں۔

گزشتہ دنوں برطانیہ میں ایک ناقابل یقین سکینڈل کا انکشاف ہوا جس میں کئی سیاست دان ، ججز ،وی آئی پیز اور دیگر آعلیٰ شخصیات خفیہ طور پر بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور قتل جیسی وارداتوں میں ملوث پائے گئے ، ضلعی حکومت اور میٹرو پولیٹن پولیس نے اس خفیہ راز سے پردہ اٹھایا جس میں معصوم بچے جن کی عمریں آٹھ سال تھیں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا اور کئی بچوں کو قتل کر دیا گیااوریہ بچے لاپتہ قرار دئے گئے۔

انگلش جریدے نے اپنے آرٹیکل میں اس بات پر زور دیا کہ یہ کوئی جرائم پر مبنی ناول نہیں جسے دلچسپی سے پڑھا جائے بلکہ اٹل حقیقت ہے جو رونگٹے کھڑے کر دیتی ہے،جریدے کا کہنا ہے ناقابل یقین بات یہ ہے کہ اس گھناؤنے جرم میں کوئی عام انسان نہیں بلکہ آعلیٰ شخصیات ، ممتاز سیاست دان ،ججز اور دیگر سوشل عوامی ورکرز ملوث ہیں جن میں سے کئی افراد پر الزامات ثابت ہو چکے ہیں اور کچھ اتنے بااثر ہیں کہ ان پر ہاتھ نہیں ڈالا جا سکتا ،رپورٹ میں بتایا گیا کہ ان بچوں کو کئی سال تک جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ،قتل کیا اور کچھ بچوں کو غائب کر دیا گیا۔

مقامی پولیس اور حکومتی نمائندوں نے ان جرائم کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ کئی بااثر شخصیات نے تمام ثبوت ضائع کروا دئے اور ان ثبوتوں کو ضائع کرنے میں حکومتی نمائندے بھی ملوث تھے،متاثرہ بچوں کی خاموشی کے سبب ہم کسی کو گرفتار نہیں کر سکتے ،پولیس کا کہنا ہے یہ تمام واقعات ستر اور اسی کی دہائی میں پیش آئے اور برطانوی سٹیبلشمنٹ کے کئی بااثر افراد اس گھناؤنے عمل میں شریک تھے۔

میٹروپولیٹن پولیس چالیس رکنی خصوصی کمیشن کے توسط سے تحققات اور واقعات کا گہرائی سے جائزہ لے رہی ہے اس کمیشن کی تحقیقات کا دائرہ کار ویسٹ لندن ہے،پولیس کا کہنا ہے جنسی اور قتل کے اس سکینڈل کو پہلی بار دوہزار بارہ میں منظر عام پر لایا گیا ایک رپورٹ کے تحت ان افراد کا تعلق پارلیمنٹ اور ڈاؤننگ سٹریٹ کے لنکس کا شاخسانہ ہے جس میں کئی بااثر شخصیات کے ملوث ہونے کا امکان ہے جو ایک نیٹ ورک کے تحت اس کرائمز رنگ کو سپورٹ کرتی ہے،رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ اس گھناؤنے عمل میں کئی اخباری رپورٹر اور نجی ٹی وی سے منسلک افراد بھی شامل تھے پولیس نے بتایا کہ ایک اخباری نمائندہ جو دوہزار گیارہ میں چوراسی سال کی عمر میں انتقال کر گیا تھا اسکی رپورٹ کے مطابق سیکڑوں نابالغ لڑکیاں اور جوان عورتیں جنہیں سن انیس سو پچاس سے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا انہوں نے آج تک خاموشی اختیار کی ہوئی ہے،اس اخباری نمائندے کو خفیہ راز افشا کرنے پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا،کیونکہ اس نے اپنے توسط سے یہ خبر پبلش کی کہ جنسی زیادتی میں پارلیمنٹ کے افراد بھی ملوث ہیں ،پولیس رپورٹ کے مطابق یہ تمام واقعات انیس سو نوے میں پیش آئے اور لندن کے کئی اسپتالوں میں بھی مریضوں کو طبی عملے اور دیگر افراد نے خواتین اور بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی،اخباری نمائندوں اور ٹی وی سے منسلک افراد کے خلاف مقدمات دائر ہوئے اور جنسی استحصال میں ملوث ہونے پر طویل قید کی سزا سنائی گئی،ایک ممبر آف پارلیمنٹ کے نام کو صیغہ راز میں رکھا گیا جو ہم جنس پرست تھا اور ان افواہوں میں شامل تھا۔ میٹروپولیٹن پولیس نے ان ایک سو چوالیس متاثرہ بچوں کے بیانات بھی قلمبند کئے جن کی عمریں آٹھ سال سے بارہ تک تھیں، پولیس ڈیپارٹمنٹ سے منسلک ایک ریٹائیرڈ اوفیسر نے بتایا کہ عملے میں کالی بھیڑوں کی کارستانی سے کئی فائلیں غائب کی گئیں جن میں کئی ایسے با اثر افراد جو آعلیٰ عہدوں پر تعینات تھے جن کے نام منظر عام پر آنے سے ایک تہلکہ مچ جاتا پولیس بغیر ثبوت کے کسی وی آئی پیز کو گرفتار نہیں کرسکتی،رپورٹ کے مطابق دو سو لا پتہ بچوں کی فائل پر توجہ دی جارہی ہے تاہم نئی تحقیقات کے مطابق مغربی لندن کے ایک بورڈنگ ہاؤس میں بھی ایک آٹھ سالہ بچے کو ایک حکومتی نمائندے نے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا اورجرم ثابت ہونے پر اسے گرفتار کر لیا گیا،جنسی زیادتی اور قتل کا مقدمہ ایک سابق وزیر کے خلاف درج ہوا جس میں دیگر افراد کی شراکت پر انہیں طویل سزائیں دی گئیں۔

پولیس اب ان دو سو لاپتہ بچوں کی تلاش میں ہے جنہیں ستر اور اسی کی دہائی میں جنسی زیادتی یا قتل کرنے کے بعد غائب کر دیا گیا،بچوں کی تلاش پولیس کیلئے ایک معمہ بن چکی ہے اور سوال پہ سوال اٹھ رہے ہیں کہ آخر بچے گئے کہاں؟برطانیہ کی ہوم سیکریٹری نے ایک بیان میں پولیس کو ہر حربہ استعمال کرنے کی ہدایت کی انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ جلد از جلد گمشدہ بچوں کا کھوج لگایا جائے اور کامیابی کی صورت میں عوام کو تمام واقعات سے آگاہ کیا جائے ان کا کہنا تھا کہ یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ دو سو بچے اچانک غائب ہو جاتے یا غائب کر دئے جاتے ہیں اور کسی کو خبر تک نہیں اس گھناؤنے نیٹ ورک میں کتنی بھی بڑی شخصیات ملوث کیوں نہ ہوں سب کو منظر عام پر لانا پولیس کی ذمہ داری اور اہم فریضہ ہے ۔

جیسے کہ ابتدا میں عرض کی کہ قانون پر عمل درامد ہو گا تو انصاف اپنا ڈنڈا اٹھائے گا ،پاکستان میں قانون کی دھجیاں اڑانے والے کوئی اور نہیں قانون نافذ کرنے والے خود ہیں تو ہم سب روتے کس بات پر ہیں ،ہمیں اس حقیقت سے اب منہ چھپانے کی قطعی ضرورت نہیں کہ ہم سب بے ضرر اور بے قصور لوگ ہیں ہمیں مجرم کوئی اور نہیں یہ نام نہاد لیڈر اور ان کے بنائے گئے قوانین مجرم بناتے ہیں ۔

ایک انسان کی روزی روٹی کمانے کے دروازے کھڑکیاں ہی بند کر دئے جائیں گے تو وہ سادھو بنے گا یا شیطان ۔۔۔؟؟؟
Shahid Shakil
About the Author: Shahid Shakil Read More Articles by Shahid Shakil: 250 Articles with 246096 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.