عدالت عظمیٰ نے جو ہیجڑوں کے
ذریعے قرض دہندگان سے قرض وصول کرنے کی تجویز دی ہے تو اس میں بھی ایک رمز
پوشیدہ ہے۔ برصغیر میں خواجہ سراﺅں کو ہمیشہ شہنشاہوں کی سرپرستی حاصل رہی
ہے۔ وہ محل سرا کے محافظ، زنان خانے کے رابطے، بیگمات کے راز دان، شہزادوں
کے اتالیق، ملکہ اور شہزادیوں کے منہ چڑھے تھے۔ سب سے زیادہ شاہ کے وفادار
تھے۔ اب ان کا شمار نہ ہی اور نہ شی میں ہوتا ہے۔ شاید یہ کارخانہ قدرت کا
وہ خام مال ہے جو غلطی سے تیار ہوگیا اور بازار میں آگیا۔ اب نہ ان کی کوئی
کھپت ہے نہ کوئی قدر، مغل دربار تھا تو انھیں بھی اقتدار تھا۔ وہ بھی کہیں
مشیر سفیر تھے۔ اب نہ کوئی دربار ہے نہ کوئی وقار۔ بازار میں ہیں تو
استہزاء کا سبب ہیں، محلے میں ہیں تو سب کے لئے عجوبہ روزگار، لوگ تفریح کے
لئے ان سے دل بہلاتے ہیں، کوئی انسان سمجھتا ہی نہیں، گھر ان کے لئے نہیں،
روز گار ان کے لئے نہیں، تعلیم ان کے لئے نہیں، ایک بازار ہے ٹھکانہ جس کے
لئے شہر شہر مارے مارے پھرتے ہیں۔ بھلے وقتوں میں کوئی ناچ گانا دیکھ کر
مدد کردیتا تھا، اب کوئی تھوکتا بھی نہیں۔۷۷ کی تحریک میں ان خواجہ سراﺅں
کا بڑا حصہ ہے۔ ان کے جلوسوں کا یہ مقبول نعرہ تھا۔ ایوب آیا، میں نہ بولی،
یحییٰ آیا میں نہ بولی، بھٹو آیا تو میں بولی چلاﺅ گولی، چلاﺅ گولی
عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے خواجہ سراؤں کے طرف سے دائر
ایک درخواست کی سماعت کے دوران حکومت کو جو صائب مشورہ دیا ہے کہ وہ
امتیازی سلوک کا شکار معاشرے کے اس طبقے کو باعزت ملازمتیں دینے کے لیے
حکمت عملی وضع کرے۔ اور یہ تجویز بھی دی ہے کہ قرض نادہندگان سے وصولی کے
لیے حکومت پاکستان خصوصاً انکم ٹیکس کا محکمہ خواجہ سراؤں کی خدمات حاصل
کرنے پر غور کرے جیسا کے ہمسایہ ملک بھارت کی بعض ریاستوں میں کیا گیا ہے۔
یہ دراصل معاشرے اور حکمرانوں کے منہ پر ایک تھپڑ ہے۔ جس معاشرے میں قوت
والے اور مرد جو کام نہ کرسکیں بلا شبہ وہ کام زنخوں کو سونپ دینا چاہئے۔
قوم کے اربوں روپے شیر مادر سمجھ کر پی جانے والوں سے یہ رقم یہ لوگ ہی
نکلواسکیں گے۔ انھیں اپنی نہ عزت کی فکر ہوگی نہ وقار کی۔ گلے میں ڈھول ڈال
کر اپنی پارٹی کے ساتھ جب یہ لوگ بڑے لوگوں کے محلوں کا محاصرہ کر کے گا
بجا کر ان قرضوں کی تفصیل بتا کر عوام کو جمع کر لیں گے تو بہت سوں کو اپنی
عزت بچانی مشکل ہوجائے گی۔ ملک بھر میں خواجہ سراؤں کی تنظیموں نے بھی اس
تجویز کا خیر مقدم کیا ہے۔ اور کہا ہے کہ اس سے نہ صرف ان کی برادری کے لیے
روز گار کا مسئلہ حل ہو گا بلکہ ملک سے لوٹی ہوئی دولت کی واپسی میں بھی
آسانی ہوگی۔ کراچی میں بندیا رعنا خواجہ سراؤں کی تنظیم” جیا“ کی سربراہ
ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جو لوگ بھاری قرضے لے کر خاموش بیٹھے ہیں ہم جب ان
کے دروازوں پر جا کر بیٹھیں گے تو شاید وہ یہ نوبت ہی نہ آنے دیں اور خود
ہی قرضہ واپس دیں اور اپنے واجبات ادا کر دیں۔ خواجہ سراوں کو معاشرے کا
متحرک رکن بنانے کے لیے یہ سپریم کورٹ کی جانب سے ایک اچھا قدم ہے جو قرض
نا دہندگان کے لیے یقیناً برا ثابت ہوگا کیونکہ وہ اس وقت تک ڈیرا ڈالے
رکھیں گے جب تک رقم واپس نہیں مل جاتی۔ کیوں کہ نہ تو ہمارے کوئی بچے ہیں
اور نہ ہمیں گھر واپس جانے کی جلدی ہوگی۔ پاکستان میں چھوٹا قرضہ لینے والے
افراد تو خود کشی کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں لیکن بڑا قرضہ لینے والوں کے
لیے کھلے عام معافی ہے۔ اور اس کے لئے گندے قانون این آر او کا سہارا لیا
گیا ہے۔ اب خواجہ سرا اس پر ایسے ایسے مکھڑے گائیں گے کہ گلی گلی اس کی
شہرت ہوگی۔ |