سانحہ کراچی کے48 شہدا اور 100
زخمیوں کا خون کس کے ہاتھ ہے.....؟
کون مرا؟ کس نے مارا؟ اور کیوں مرا؟ اِن سوالات کی گتھی کون سلجھائے گا.....؟
کہا جاتا ہے کہ انسان دوستی یہی ہے کہ کسی ارفع و اعلیٰ مقصد کے لئے بھی
کبھی کسی انسان کو قربان نہ کرو۔ مگر یہ کیا کہ اسلام کی تعلیمات کو مسخ کر
کے اسلام کے لبادے میں خود کو مسلمان کہلانے والے اپنے خود ساختہ نظریات کے
پرچار میں اتنے دیوانے ہوچکے ہیں کہ وہ اپنے ہی جیسے انسانوں کو کسی کا آلہ
کار بن کر(اُس کی اور) اپنی اِنتقام کی آگ میں اندھے ہو چلے ہیں اور اپنے
ہی مسلمانوں کا مولی گاجر کی طرح قتل ناحق کررہے ہیں جو اپنی اِن ناپاک
حرکتوں کی وجہ سے کسی بھی طرح سے مسلمان تو کیا انسان کہلانے کے بھی لائق
نہیں ہیں اور آج یہی وجہ ہے کہ کسی نے آج کی اِس بے رحم انسانیت اور اِن
بدبختوں کو نصیحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اے آدم کے بیٹوں! اپنے بھائیوں کو
اپنے ہاتھوں سے ناحق قتل اور ذلیل و خوار نہ کرو کیونکہ میں نے دیکھا ہے کہ
پاگل کتے بھی اپنا گوشت خود نہیں چباتے ...مگر تم تو انسان ہو اور خود کو
ایک ایسے عالمگیر مذہب اسلام کے پیروکار اور مسلمان کہلاتے ہو جس کی
تعلیمات اور اخلاق ہی احترام ِ انسانیت ہے اور کیا تم اپنی تعلیمات اور
اخلاق کو بھی بھول چکے اور اپنی گھناؤنی حرکتوں کی وجہ سے اُس پاگل کتے سے
بھی حقیر ہوگئے ہو کہ جو اپنا گوشت خود نہیں چباتا...اور تم اپنے ضد اور
انتقام کی آڑ لے کر اپنے ہی مسلمان بھائی کا خون بہا رہے ہو۔ جو اِس کا
گوشت چبانے کے مترادف ہے چھی چھی....چھی چھی یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ آج
کون مر رہا ہے؟ اِسے کس نے مارا؟ اور کیوں مرا ہے؟ اِن سوالات کی گُتھی کون
سلجھائے گا....؟ اور یہی وہ نکات ہیں جن کا جواب آج ہر محب وطن پاکستانی
اور مسلمان اپنے حکمرانوں اور تم اسلام کا لبادے میں اوڑھے ہوئے سفاک
قاتلوں سے لینا چاہتا ہے کیا تم اُسے اِس کا جواب دے سکو گے....؟ روزے
قیامت اللہ کی عدالت میں اپنے اِس گھناؤنے عمل کی وجہ سے دوزخ کا ایندھن
بننے کا انتظار کرو گے۔؟
اور یہاں ایک بڑے افسوس کی بات یہ ہے کہ شہر کراچی لہو لہاں ہے اور اِسے
لہولہاں کرنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچانے اور اَب اسلام کے نام پر ملک
بھر میں انارکی اور افراتفری پھیلانے والوں اور دہشت گردوں کو لگام دینے
اور اِن سے کراچی سمیت ملک کے چپے چپے کو پاک کرنے اور انہیں واصلِ جہنم
کرنے کا ہر فرد کو عزمَِ مصمم کرنا ہوگا۔ اور حکومت کو بھی اِس مد میں
دقیقہ فروگزاشت نہیں کرنا چاہئے ۔کیوں کہ اِس کے بغیر نہ تو ہمارے ملک میں
ہی امن و سکون قائم رہنا ممکن ہے اور نہ ہی ہمارا ملک ترقی کرسکتا ہے۔ اور
آج کراچی کے امن و سکون کو ایک بار پھر ملک دشمن اور کراچی کے حاسدوں کی
نظر لگ گئی ہے اور یہی شہر کراچی جہاں ایک بڑے عرصہ تک فرقہ وارانہ ہم
آہنگی برقرار تھی (اور انشا اللہ آئندہ بھی قائم رہے گی ) اِسے گزشتہ دنوں
سپوتاژ کرنے اور شہر کراچی میں فرقہ وارانہ انارکی پھیلانے کے لئے یوم ِ
عاشورہ پر پاکستان اور اسلام کے دشمنوں نے اپنی گھناؤنی سازش کو عملی جامہ
پہنانے کی کوشش کی جو بالآخر کامیاب تو نہ ہوسکی مگر اِس سازش کے تحت ملک
دشمن عناصر نے اِس شہر کے معاملات زندگی کو مفلوج کر کے رکھ دیا۔ اور آج
دنیا کے اِس بارہویں انٹرنیشنل شہر جِسے بالا رنگ و نسل اور مذہب و زبان
پاکستان کے طول ُارض سے آنے والے ہر محب وطن پاکستانی کو اپنے دامن میں
سمیٹے رکھنے کا فریضہ ادا کرنے کا اعزاز ہے تو وہیں اِس شہر کراچی کو اپنی
اِس خاصیت کی بنا پر منی پاکستان ہونے کا بھی درجہ حاصل ہے اِس شہر میں ملک
دشمن عناصر نے اپنی گھناؤنی حرکت سے اِس کا امن و سکون اُس وقت تباہ وبرباد
کر دیا کہ جب یومِ ِعاشورہ پرنواسہ رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے عقیدت کا
اِظہار کرنے والے عزاداروں کا مرکزی جلوس پُرامن طریقے سے پوری سیکورٹی کے
ساتھ ایم اے جناح روڈ سے گزر رہا تھا ابھی اِس جلوس کو اپنی منزل ِمقصود تک
پہنچنے کے لئے ایک سے دو گھنٹے کی مسافت طے کرنی باقی تھی کہ جب یہ جلوس
سیکڑوں سیکورٹی پر معمور رینجرز اور پولیس کے اہلکاروں کے احصار میں4 بج
کر13منٹ پر لائٹ ہاؤس کے نزدیک جوں ہی پہنچا تو خبروں کے مطابق عین اُسی
وقت بوتل والی گلی سے ایک 18یا19سالہ خودکش بمبار جلوس کے راستوں میں حائل
تمام رکاوٹیں پھلانگتا ہوا جلوس کے اندر داخل ہوا اور مزید آگے بڑھنے کی
کوشش میں ایک رینجرز کے اہلکار عبدالرزاق کے روکنے اور اِس کے ہاتھوں خود
کو دبوچے جانے پر اِس نے خود کو ایک زور دار دھماکے سے اڑا لیا ابتدائی
تحقیقات کے مطابق سانحہ عاشورہ کراچی میں16کلو C4 بارود استعمال کیا گیا
تھا جس نے کراچی میں قیامت صغریٰ برپا کردی۔ اِس دھماکے کے نتیجے میں اپنے
فرائض کی ادائیگی کرنے والے رینجرز کے اہلکار عبدالزراق کو شہادت کا رتبہ
نصیب ہوا اور المناک دھماکے کے نتیجے میں آخری اطلاعات آنے تک 45افراد شہید
اور 250سے زائد عزاداروں، عام شہریوں، صحافیوں، سیکورٹی کے اہلکاروں اور
جلوس کی معاونت کرنے والے ینگ بوائز سکاؤٹ گروپ کے 5اسکاؤٹس جن میں گروپ
اسکاؤٹ لیڈر حاجی فاروق کبیر، انور سومرو، عرفان سموں شاہد حسین ازوہب شامل
ہیں اِن سمیت کئی افراد ہلاک و زخمی ہوگئے تھے اور جس کے بعد ہر طرف خون ہی
خون تھا اور ایم اے جناح روڈ پر قیامتِ صغریٰ برپا ہوگئی تھی اور ہر طرف
معصوم انسانوں کی آہ فغاں سے کان بھر آواز سنائی نہیں دے رہی تھی اور جہاں
تک نظر کام کرتی تھی دور دور تک انسانی لاشیں بکھری پڑی تھیں اور زخمیوں کی
ایک بڑی تعداد مدد کے لئے چیخ و پکار رہی تھی۔
اِس المناک سانحہ کے نتیجے میں جہاں قیمتی انسانی جانیں لقمہ اجل بنیں جن
کا ازالہ تو ممکن نہیں مگر وہیں جو ایک اور سب سے زیادہ افسوسناک پہلو رہا
وہ یہ تھا کہ سانحہ کے رونما ہونے کے ہی چند گھنٹوں کے اندر اندر اُن مشتعل
عوام جن کا اِس حادثے کے بعد اپنا ردِعمل ظاہر کرنا ایک فطری عمل کہا
جاسکتا ہے اُن میں شامل ہو کر شرپسندوں کا وہ گروپ جو 27دسمبر2007 متحرمہ
بےنظیر بھٹو کی شہادت کے روز شہر کراچی میں تباہی مچانے کے بعد دو سال تک
خاموش رہا اور وہ اِس تاک میں تھا کہ کوئی حادثہ رونما ہو تو وہ سانحہ
بینظیر بھٹو کی طرح ایک بار پھر اپنا کام کر دکھائے اور شہر کراچی کو معاشی
اقتصادی اور سیاسی طور پر شدید نقصان پہنچائے اتفاق سے اِن ملک دشمن عناصر
کو سانحہ عاشورہ کراچی اِن کے ہاتھ لگ گیا اور اُنہوں نے اِس موقع سے فائدہ
اٹھا اور شرپسندوں کے اِس ٹولے نے ایک پل بھی ضائع کئے بغیر لائٹ ہاؤس،
لنڈا بازار ڈینسوہال، میریٹ روڈ اور بولٹن مارکیٹ تک اطراف کی تمام
مارکیٹوں کی بڑی چھوٹی تقریباََ ڈھائی ہزار دکانوں اور گوداموں کے علاوہ جن
میں میڈیسن مارکیٹ کی 40 دکانیں بھی شامل انہیں نذرِ آتش کر دیا گیا جو اَب
خاکستر ہوگئی ہیں اور اِن سطور کے رقم کرنے تک اطلاعات یہ ہیں کہ پاکستان
کی سب سے بڑی ہول سیل مارکیٹ کی دکانوں میں لگنے والی آگ کو 24 گھنٹے گزرنے
کے بعد بھی نہیں بجھایا جا سکا ہے اور اِن دکانوں میں لگنے والی آگ سے ہونے
والے نقصان کا تخمینہ یہ لگایا جا رہا ہے کہ اِس آگ سے 30ارب کا نقصان ہوا
ہے۔ اور خیال کیا جارہا ہے کہ اِس آگ کے نتیجے میں ارب پتی تاجر چند گھنٹوں
میں کنگال ہوگئے ہیں تو اُدھر ہی دوسری طرف مذہبی، سیاسی، سماجی اور تاجر
برادری کا یہ بھی دعوی ٰ ہے کہ اِس سانحہ کے بعد کراچی کی اِن مارکیٹوں میں
لگنے والی آگ سے اربوں کا نہیں کھربوں کا نقصان ہوا ہے۔ اگرچہ وفاقی وزیر
داخلہ رحمان ملک نے سانحہ کراچی کو ایک سوچی سمجھی سازش قرار دیا ہے اُنہوں
نے ڈی آئی جی ایسٹ کو تفتیشی ٹیم کا انچارج مقرر کیا ہے اور کہا ہے کہ
تحقیقات میں غیر ملکی ٹیم کی خدمات بھی لی جاسکتی ہے۔
اور یہ حقیقت ہے کہ شرپسند عناصر نے ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت حملے کے
فوری بعد ایم اے جناح روڈ کو میدان جنگ میں بدل دیا اور اِن شرپسند اور
کراچی دشمن عناصر نے 7عمارتوں 4گھروں، پولیس چوکیوں،4 نجی بینکوں کی
برانچوں،2 پیٹرول پمپوں اور 7 موبائلوں سمیت 90 سے زائد گاڑیوں کو بھی نذرِ
آتش کردیا۔ اگرچہ یہاں یہ امر قابل دید رہا کہ دھماکے کے بعد جب یہاں آگ و
خون کا یہ عمل جاری تھا تو وہیں جلوس میں شریک علما نے حملے کو یزیدی حملہ
قرار دے کر جلوس جاری رکھنے کا فیصلہ کیا اور جلوس میں شامل عزاداروں نے
اپنی منزل پر پہنچ کر جلوس کا اختتام کیا۔
اِس میں کوئی شک نہیں کہ صوبائی حکومت کی جانب سے عاشورہ محرم کے اِس مرکزی
جلوس کے لئے جتنے بھی سیکورٹی کے انتظامات کئے گئے تھے وہ اطمینان بخش تھے
بلکہ اگر دیکھا جائے تو میری نظر میں یہ ایک مکمل طور پر فول پروف سیکورٹی
کے مثالی اور قابلِ تحسین اقدامات تھے اِس حملے سے متاثرہ افراد اور فرقہ
کی جانب سے یہ کہنا کہ ناقص سیکورٹی کے انتظامات اور اقدامات کے باعث یہ
سانحہ رونما ہوا ہے تو یہ غلط ہے کیوں کہ جہاں تک میرا خیال ہے کہ حکومت یہ
نہیں چاہتی تھی کہ سندہ اور کراچی میں کسی قسم کا کوئی المناک سانحہ رونما
ہو جس طرح ملک کے اور دیگر صوبوں اور شہروں میں آئے روز اِس نوعیت کے
واقعات ہوتے رہتے ہیں اِس وجہ سے صوبائی اور شہری حکومت نے سندہ بھر میں
اور بالخصوص شہر کراچی میں جہاں کہیں بھی محرم کے جلوس نکلتے ہیں اُن کے
لئے ہر طرح سے سیکورٹی فراہم کرنے کے سخت ترین اقدامات کئے تھے محض یہ سمجھ
کر کسی کی جانب سے حالات خراب کرنا کہ عاشورہ محرم کے جلوسوں کو سیکورٹی
ٹھیک طرح سے فراہم نہیں کی گئی تھی اِس وجہ سے یہ حادثہ ہوا ہے تو یہ غلط
ہے اور جہاں تک بات ہے اِس جلوس میں شامل عزاداروں اور دیگر کا اشتعال میں
آنا تو وہ اِن کا ایک فطری عمل ضرور کہا جا سکتا ہے کیوں کہ ایسے مواقعہ پر
عموماً تھوڑا بہت تو ہوتا ہے مگر اتنا بھی نہیں کہ جلوس میں شامل عزاداروں
کا حملے کے فوری بعد اتنا اشتعال میں آنا اور وہاں پر موجود اپنی ہی
سیکورٹی پر معمور پولیس اور رینجرز کے اہلکاروں پر حملے کرنا ٹھیک نہیں تھا
اگر اِس وقت جلوس میں شامل عزادار ذرا سا ہوش سے کام لیتے اور اپنے جذبات
کو قابو میں رکھتے اور سیکورٹی اہلکاروں اور اِن کی موبائلوں پر حملے نہ
کرتے تو اِس میں کوئی شک نہیں کہ حالات اتنے نہ بگڑتے اور نہ ہی عزاداروں
کے ساتھ مل کر شرپسندوں کو بھی یہ موقع ملتا کہ وہ چند ہی گھنٹوں میں لاشوں
اور زخمیوں کو لے جانے والی ایدھی، چھیپا، کے کے ایف اور دیگر سماجی اور
مذہبی اداروں کی ایمبولنسوں کو بھی نقصان پہنچاتے اور اِن ڈرائیوروں کو بھی
زخمی اور ہلاک کرتے جو اِس سانحہ کے بعد جائے حادثہ سے زخمیوں اور ہلاک
شدگان کی میتیں اپنے فرائض کی انجام دیہی کے دوران اسپتال پہنچانے میں
مصروف تھے۔ یقیناً شہر کراچی کو آج جو نقصان ہوا ہے اِس واقعہ کے بعد
اشتعال میں آنے والے اُن افراد کا بھی پورا پورا قصور ہے جو اپنے جذبات کو
قابو نہ رکھ سکے اور فوراً ہی طیش میں آکر سرکاری اور نجی املاک کو نقصان
پہنچانے لگے۔
اگرچہ حکومت سندہ نے سانحہ کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے افراد کے لواحقین
کو پانچ لاکھ اور زخمیوں کے لئے ایک لاکھ فی کس دینے کا اعلان تو ضرورکیا
ہے مگر میں یہ سمجھتا ہوں کہ میرنے والے کا خلا حکومت کی یہ پانچ لاکھ کی
امداد کبھی اِس کے کنبے میں پُر نہیں کرسکے گی اور اِسی طرح زخمیوں کو آنے
والے زخم حکومت کی جانب سے ملنے والی ایک لاکھ روپے کی رقم بظاہر تو بھر دے
گی مگر جب بھی زخمی کی نظر اِس کے اِس زخم کے نشان پر پڑے گی یہ زخم ہمیشہ
ہرا ہوجائے گا۔ بلکہ اِس موقع پر ہونا تو یہ چاہئے کہ حکومت ایسے اقدامات
کرے کہ پھر کبھی ملک کے کسی بھی کونے میں کوئی ایسا المناک سانحہ رونما نہ
ہو اور نہ پھر کبھی کسی گھر سے اِس بنا پر لاش اٹھے اور کوئی زخمی اسپتال
نہ پہنچے اور حکومت پانچ لاکھ اور ایک لاکھ کی رقمیں تقسیم کر کے اپنی جان
نہ چھوڑائے بلکہ اُن عناصر کا ملک بھر سے حقیقی معنوں میں قلع قمع کرنے کا
تہیہ کرے کہ جنہوں نے ملک کو آگ و خون اور موت کی وادی بنا دیا ہے۔(ختم شد) |