آپ نے ہمیشہ صرف ایسے بادشاہوں کے بارے میں سنا ہوگا جو
اپنی رعایا کے درمیان ہی رہتے ہیں لیکن دنیا میں ایک بادشاہ ایسا بھی ہے جو
کسی دوسرے ملک میں رہائش پذیر ہے اور اپنے لوگوں پر حکومت بھی کر رہا ہے-
اور وہ یہ حکومت آج کی جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے چلا رہے ہیں-
|
|
Kosi Bansah افریقہ کے علاقے Hohoe کے حقیقی بادشاہ ہیں لیکن وہ حکومت کرنے
کے پرانے طریقوں پر یقین نہیں رکھتے-
اسی لیے Bansah نے کئی سال قبل جرمنی میں رہائش اختیار کرلی تھی اور وہ آج
تک جرمنی سے ہی بذریعہ اسکائپ اپنی حکومت کے تمام امور بخوبی سرانجام دے
رہے ہیں-
Bansah جرمنی میں ایک طالبعلم کے طور پر گئے تھے جہاں وہ ایک خاتون کی محبت
میں گرفتار ہوگئے اور ہمیشہ وہی رہنے کا فیصلہ کرلیا-
|
|
بسنا کے بادشاہ منتخب ہونے کے پیچھے ایک دلچسپ داستان ہے- 1987 میں بسنا
کے دادا کے انتقال کے بعد بسنا کو جانشین نامزد کیا گیا اور اس نامزدگی کی
وجہ صرف یہی تھی کہ وہ بائیں ہاتھ سے تمام کام انجام دیتے ہیں-
بادشاہت کے اس انتخاب میں بسنا کے والد اور ان بڑے بھائی کو بھی اسی وجہ سے
نظر انداز کردیا گیا کہ وہ اپنے تمام کام دائیں ہاتھ سے کرتے تھے- اس
امتیازی سلوک کو اس علاقے میں بظاہر بے ایمانی اور بددیانتی کا مظہر سمجھا
جاتا ہے-
بسنا کی تاجپوشی کی تقریب 1992 میں منعقد کی گئی لیکن یہ بادشاہ فیصلہ کر
چکا تھا کہ وہ اب افریقہ واپس نہیں آئے گا-
بسنا تاحال جرمنی کے شہر فرینکفرٹ کے قریبی علاقے Ludwigshafen میں اپنی
جرمن بیوی کے ساتھ رہائش پذیر ہیں اور وہاں ایک گیراج چلا رہے ہیں-
لیکن اپنی مصروف ترین زندگی کے باوجود اپنے علاقے کے 2 لاکھ افراد پر حکومت
کرنے کے لیے وقت بھی نکال لیتے ہیں اور وہ یہ سب کچھ بذریعہ اسکائپ اور
ٹیلیفون کی مدد سے کرتے ہیں-
|
|
بسنا قبائلی تنازعات کو نمٹانے کے لیے رات دیر تک جاگتے رہتے ہیں اور وہ ہر
سال 6 مرتبہ ضرور اپنے علاقے کے لوگوں سے ملنے کے لیے جاتے ہیں-
اگرچہ بسنا کی رہائش جرمنی میں ہے لیکن پھر بھی وہ اتنے بڑے فاصلے کو اپنے
فرائض پر اثرانداز نہیں ہونے دیتے- بسنا نے ایک بہت بڑی مہم بھی چلا رکھی
ہے جس کے تحت وہ اپنے لوگوں کو طبی امداد فراہم کرتے ہیں-
اس کے علاوہ بسنا باقاعدگی کے ساتھ Hohoe کو پانی صاف کرنے
کا سامان بھی
بھیجتے ہیں-
|
|
حال ہی میں بسنا اس وقت خبروں کی زینت بن گئے جب ان کے گھر چوری ہوگئی اور
چور بسنا کے چار سونے کے تاج لے کر فرار ہوگئے-
بسنا کے مطابق “ چور کچھ ایسی اشیا بھی ساتھ لے گئے جن کی تاریخ سینکڑوں
سال پرانی تھی اور ان کی مالیت 25 ہزار ڈالر بنتی تھی “- |