تعلیمی اداروں میں سیکولر طبقے کی فاشسٹ کارروائیاں

پاکستان ایک اسلامی نظریاتی مملکت ہے جس کے آئین میں اسلام کو تمام قوانین پر بالادستی حاصل ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسلام اور پاکستان دشمن طاقتوں کی مداخلت سے ہمارے مقتدر حلقے نہ صرف خود سیکولر نظریات کے مالک ہیں بلکہ وہ ہر شعبہ ہائے زندگی میں سیکولر پالیسیوں کا بھی نفاذ کرتے ہیں۔ اِن کا سب سے بڑا ہدف تعلیمی نظام ہے۔ صدر پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں جاوید اشرف قاضی وفاقی وزیر تعلیم رہے۔ ایک تقریب میں انہوں نے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ قرآن مجید کے چالیس سپارے ہیں۔ دسمبر 2003ء میں ایک اور سابقہ وفاقی وزیر تعلیم زبیدہ جلال نے امریکہ کے کہنے پر قرآنی آیات نصاب سے خارج کر دی تھیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ اِس سے دہشت گردی پھیلتی ہے۔ اِسی طرح یورپی یونین کی مالی معاونت، ورلڈ پاپولیشن فاؤنڈیشن اور آہنگ نامی این جی او کے اشتراک سے سرکاری سکولوں میں ساتویں سے دسویں جماعت تک کے طلبہ و طالبات کو زندگی گزارنے کی مہارتوں پر مبنی تعلیمی پروگرام (LSBE) کے تحت خاندانی منصوبہ بندی، جنسی تعلقات، تولیدی صحت اور کم عمری میں شادی و زچگی کے مسائل سمیت دیگر قابل اعتراض مواد پر مبنی کتاب گزشتہ دو برس سے پڑھائے جانے کا انکشاف ہوا۔ جس پر والدین نے شدید اعتراضات کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ والدین کی اجازت کے بغیر طلبہ و طالبات خصوصاً طالبات کو قابل اعتراض مواد پر مشتمل کتاب فراہم کر کے اس کی تدریس شروع کرائی گئی جو پاکستانی معاشرے میں قابل قبول نہیں ہے۔ لہٰذا اس کتاب کی تدریس فوراً رکوائی جائے اور یہ کتاب سرکاری اسکولوں کے طلبہ و طالبات کو فراہم کرنے اور پڑھانے کے معاملے میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے۔ آئے دن تعلیمی نصاب کو وضح کرنے یا اس میں ترمیم کی آڑ میں قرآن مجید، احادیث مبارکہ، سیرت نبیﷺ، سیرت صحابہ کرامؓ اور اسلامی جنگوں سے متعلقہ مضامین حذف کر کے اُن کی جگہ ہندوؤں اور سکھوں کی شخصیات کے مضامین شامل کیے جا رہے ہیں۔ تعلیمی مشاورتی بورڈ کے ایک رکن اسلام آباد یونیورسٹی میں فزکس کے پروفیسر ڈاکٹر پرویز ہود بھائی بھی رہ چکے ہیں، جو فکری اعتبار سے متعصب قادیانی اور نظریہ پاکستان کے سخت مخالف ہیں۔ وہ نظریہ پاکستان اور اسلام کو نصابی کتب کا حصہ بنانے کے سخت مخالف بلکہ متحرک ہیں۔ یہ وہ شخص ہے جس نے دوسرے پاکستان دشمن عناصر سے مل کر اسلام آباد میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خلاف ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی فرضی قبر بنا کر اس پر جوتے مارے تھے۔ المیہ یہ ہے کہ پرویز ہود بھائی کو 14 اگست کے موقع پر ستارۂ امتیاز سے بھی نوازا گیا۔ سیکولر طبقے کی سرپرستی میں تعلیمی اداروں میں کھلے عام شعائر اسلامی کا مذاق اُڑایا جانا معمول کی بات ہے۔ کچھ عرصہ پہلے خیبر میڈیکل کالج کی طالبہ مصباح سیّد کے کلاس روم میں نقاب اوڑھنے پر کالج کے پروفیسر نے طالبہ کا تمسخر اُڑاتے ہوئے اُسے ڈاکو قرار دیا۔ اِس پر بہت احتجاج ہوا مگر پروفیسر کے خلاف کسی قسم کی کوئی قانونی کارروائی نہ کی گئی۔ استاد اور طالب علم کے مقدس رشتے کو پامال کرنے میں بھی اِس طبقۂ خبیثہ کا بڑا ہاتھ ہے۔ تعلیمی اداروں میں پروفیسر حضرات کی طرف سے طالبات کو جنسی ہراساں کرنے کے کئی واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی طالبات سے نازیبا حرکات اور معاشقوں کے قصے زبانِ زد عام ہیں۔ لمز (لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز) کا شمار انتہائی مہنگی یونیورسٹیوں میں ہوتا ہے۔ یہاں کا تعلیمی ماحول خالصتاً مغربی بلکہ شاید اِس سے بھی دو چار ہاتھ آگے ہے۔ آپ یونیورسٹی میں داخل ہوں تو آپ کو شرم و حیا سے عاری ایسے واقعات دیکھنے میں ملیں گے کہ آپ کی عقل دنگ رہ جائے گی۔ یہ یونیورسٹی کم ایک نائٹ کلب کا منظر زیادہ پیش کرتی ہے۔ اس بدنام زمانہ تعلیمی ادارے میں اساتذہ، پروفیسروں، فیکلٹی اسٹاف اور انتظامی عملے کی جانب سے طالبات کے ساتھ جنسی زیادتیاں معمول بن گئی ہیں۔ 2014ء میں لمز کے شعبہ قانون کے استاد عابد حسین امام کو ایک طالبہ کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کا مجرم قرار دیا گیا۔ عابد حسین امام، ملک کے مشہور سیاستدان جوڑے سیدہ عابدہ حسین اور سید فخر امام کے بیٹے ہیں اور LUMS یونیورسٹی کے شیخ احمد حسین سکول آف لاء میں بطور استاد فرائص سر انجام دے رہے تھے۔ وہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر سید بابر علی کے بھی قریبی عزیز ہیں۔ یونیورسٹی کی ایک طالبہ کی طرف سے الزام عائد کیا گیا تھا کہ عابد حسین نے اسے اپنی جنسی خواہش پوری کرنے کے لیے مجبور کیا۔ طالبہ کی شکایت پر یونیورسٹی انتظامیہ نے کارروائی کی لیکن اس کا نتیجہ صرف یہ نکلا کہ ملزم کے رویے کو ایک استاد کی شان کے منافی قرار دے کر معاملہ ختم کر دیا گیا۔ بعد ازاں یہ معاملہ وفاقی محتسب کے سامنے پیش کیا گیا جس پر فیڈرل امبڈسمن سیکرٹریٹ فار پروٹیکشن اگینسٹ ہریسمنٹ آف ویمن نے یونیورسٹی کے فیصلے کو رد کرتے ہوئے ملزم کو ملازمت سے برخاست کرنے کا حکم صادر کر دیا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ استاد کے اپنے بیان اور یونیورسٹی کی انکوائری سے ثابت ہے کہ وہ طالبہ کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے مرتکب ہوئے اور یونیورسٹی کو حکم دیا گیا کہ انہیں برخاست کرنے کے فیصلہ پر مکمل طور پر عمل کیا جائے، چنانچہ بادل نخواستہ یونیورسٹی نے پروفیسر عابد حسین امام کو یونیورسٹی سے نکال دیا۔ یہ پاکستان کے صف اول اور سب سے مہنگے تعلیمی ادارے کا حال ہے جہاں داخلہ لینے کو ہر کوئی اپنا خواب سمجھتا ہے۔ اگر ایسی بات کسی چھوٹے موٹے مدرسے کے بارے میں سامنے آجاتی تو میڈیا وہ طوفان کھڑا کردیتا، لبرلز، سیکولرز اور مذہب بیزار طبقے، این جی اوز کی ماڈریٹ اور ڈالرائزڈ آنٹیاں کھل کر سامنے آجاتیں، سیکولر جماعتوں کے رہنما کی سیاست الگ ہوتی اور مدارس و مولویوں کے خلاف وہ غلیظ زبان استعمال کی جاتی کہ الامان الحفیظ۔

\
یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ لمز یونیورسٹی گذشتہ کئی سالوں سے قادیانی مذہب کی تبلیغ و تشہیر کا سب سے بڑا ادارہ اُبھر کے سامنے آیا ہے۔ یہاں قادیانی طلبہ کو اپنے عقائد کی کھلے عام تبلیغ کرنے کی مکمل اجازت ہے۔ حالانکہ سب جانتے ہیں کہ قادیانیوں کے کفریہ عقائد کی بناء پر ملک کی منتخب جمہوری حکومت نے متفقہ طور پر 7 ستمبر1974ء کو انہیں غیر مسلم اقلیت قرار دیا اورآئین پاکستان کی شق 160(2) اور 260(3) میں اس کا اندراج کردیا۔ قادیانی آئینی طور پر غیر مسلم ہونے کے باوجود بھی سرعام شعائر اسلامی کی بے حرمتی اور اپنے باطل مذہب کی تبلیغ و تشہیر کرتے رہے۔ چنانچہ اس سے روکنے کے لیے 26 اپریل 1984ء کو حکومت پاکستان نے امتناع قادیانیت آرڈیننس جاری کیا جس کی رو سے قادیانی اپنے مذہب کے لیے اسلامی اصطلاحات استعمال نہیں کر سکتے۔ اس سلسلہ میں تعزیرات پاکستان میں دفعہ 298/B اور 298/C کا اضافہ کیا گیا جس کی رو سے کوئی قادیانی خود کو مسلمان نہیں کہلوا سکتا اور نہ ہی اپنے مذہب کو بطور اسلام پیش کر سکتا ہے اور نہ ہی شعائر اسلامی کا استعمال کر سکتا ہے۔ خلاف ورزی کی صورت میں وہ 3 سال قید اور جرمانہ کی سزا کا مستوجب ہوگا۔ 2 نومبر 2013ء لمز یونیورسٹی کے سید سیگل ایڈیٹوریم میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیئے جانے کے خلاف ایک سیمینار منعقد ہوا جس میں پاکستان کے معروف مزاح نگار کالم نویس کے صاحبزادے علی عثمان قاسمی نے نہایت زہریلا خطاب کرتے ہوئے اِس آئینی ترمیم کے خاتمے اور قادیانیوں کو اپنے مذہب کی مکمل تبلیغ و تشہیر کرنے کا مطالبہ کیا۔ یہ خطاب نہ صرف پاکستان کے آئین و قانون کی خلاف ورزی تھا بلکہ اِس سے مسلمانوں کے مذہبی جذبات بھی مجروح ہوئے۔ دینی جماعتوں نے اِس واقعہ پر وائس چانسلر کو کئی احتجاجی خطوط لکھے مگر جواب ندارد۔ افسوس یہ ہے کہ اِس ادارے کے چارٹر کے تحت صدرِ پاکستان اس کے چانسلر ہیں۔ انہیں جتنا شغف دہی بھلوں سے ہے اگر اِس کا عشر عشیر بھی آئین کی حفاظت سے ہو تو کافی مسائل حل ہو سکتے ہیں۔

Mateen Khalid
About the Author: Mateen Khalid Read More Articles by Mateen Khalid: 17 Articles with 27959 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.