گدھوں کو بھی سیکیورٹی فراہم کی جائے

رواں سال کے اکیس اگست کو پولیس تھانہ سٹی لیہ نے خانہ بدوش کی جھگی میں چھاپہ مارکر گدھوں کی پچاس کھالیں برآمد کرلیں اور موقع پر موجود مردہ جانوروں کی ہڈیان بھی قبضہ میں لے لیں۔اصل ملزم فرار ہوگیا جب کہ پولیس نے اس کے بھائی کو گرفتار کرلیا۔اخباری رپورٹ کے مطابق پولیس کی جانب سے اس شبہہ کا اظہار کیا گیا کہ مبینہ طور پر حرام جانور کا گوشت مقامی ہوٹلوں اور قصابوں کو سپلائی کیا جاتا ہے۔زیر حراست شخص نے میڈیا نمائندوں کے سامنے موقف اختیار کیا کہ اس کا بھائی خانہ بدوش سے مل کر حرام جانوروں کی ہڈیوں اور کھالوں کی خریدوفروخت کا کام کرتاہے۔اور لیہ کے قریبی اضلاع بھکر، جھنگ، مظفرگڑھ کے علاوہ ڈیرہ غازی خان سے گدھے کھالیں اور ہڈیاں اکٹھی کی جاتی ہیں۔جنہیں ملتان کی منڈی میں فروخت کردیا جاتا ہے۔پولیس نے تحقیقات کے بعد اصل کہانی سامنے لانے کی یقین دہانی کرادی۔لیہ کے بعد ۲۳ ستمبر چک نمبر۴۳۱ کے باسیوں نے دو افراد کو رنگے ہاتھوں پکڑ کر گگو منڈی پولیس کے حوالے کیا۔پولیس نے مقدمہ درج کرکے ان ملزمان کو نامزد کردیا۔دوران تفتیش ملزمان نے اعتراف کیا کہ گدھے کی ہڈیوں اور کھال کی مہنگے داموں فروخت اور معقول معاوضے کے باعث دوسروں کے ملکیتی گدھوں کو زہریلے ٹیکے لگا کر وہ اپنا مقصد پورا کرتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ اس مقصد کے لیے وہ ویرانے میں چرتے گدھوں کوٹیکہ لگا کر خود غائب ہوجاتے مالکان بھی مجبوری سے مردہ گدھے کو چھوڑنے پر مجبور ہوجاتے جس پر بعد ازاں وہ کھالیں اور ہڈیاں اکٹھی کرلیتے تواتر میں ایک ہی علاقے میں گدھوں کی پر اسرار موت پر پریشان لوگوں نے دونوں افراد کو گدھے کوٹیکہ لگاتے دیکھ لیا۔جس پر انہیں پکڑ کی خوب دھنائی کی گئی مذکورہ واقعہ کے بعد لیہ سے گدھوں کی کھالوں کی برآمدگی کے واقعہ نے بھی پراسراریت اختیار کرلی ہے۔ضلعی پولیس کی جانب سے تاحال معاملے کو کسی کنارے نہ لگایا گیا ہے۔گگو منڈی میں پیش آنے والے واقعہ نے لیہ میں اتنی بڑی تعداد میں گدھے کی کھالوں کی برآمدگی نے کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔اس کے بعد آٹھ اکتوبر کو لیہ کی تحصیل چوبارہ کے چک نمبر ۳۲۲ ٹی ڈی اے میں گدھا کھال کاروبارکا انکشاف ہوا۔ملزمان نے گھر میں کھالیں جمع کررکھی تھیں۔اہل علاقہ نے بدبو سے تنگ آکر تھانہ چوبارہ کو اطلاع کی تو پولیس نے چھاپہ مارکر سات کھالیں قبضہ میں لے لیں۔تین ملزمان بعد ازاں دو مین ملزمان کو بھی گرفتار کرکے مقدمہ درج کرلیا۔اہل علاقہ کا کہنا تھا کہ کھالیں ستر کے قریب تھیں پولیس نے صرف سات قبضہ میں لیں۔علاقہ میں آئے ہوئے پٹھان جن کے گدھوں اور دنبوں کے ریوڑ ہیں نے پچیس گدھے گم ہونے کی شکایت کی ہے۔کھالیں موجود ہیں مگر گوشت کہاں گیا۔ملزمان نے ابتدائی تفتیش میں بتایا کہ کھالیں ملتان بھیجتے ہیں۔وہاں سے قصور جاتی ہیں۔قیمت فروخت آٹھ سو روپے بتائی گئی۔جبکہ اہل علاقہ کا کہنا تھا کہ زندہ گدھا دس سے پندرہ ہزار کا ہوتا ہے۔اسے محض کھال حاصل کرنے کے لیے کیوں ذبح کیا جاتا ہے۔مقامی لوگ ملزمان کے خلاف متحد ہوگئے۔ انہوں نے ملزمان کو چک بدر کرنے کامطالبہ کردیا۔انہوں کے گوشت ہوٹلوں پر سپلائی کرنے کا شبہہ ظاہر کیا۔اورپولیس سے سختی سے مکمل تفتیش کرکے حقائق منظر عام پر لانے کا بھی مطالبہ کردیا۔چک کے نمبر دار ریاض کے مطابق علاقہ کے لوگوں نے ملزمان کا سوشل بائیکاٹ کرنے اور علماء سے رابطہ کرکے شریعت اسلامیہ کے حکم پر عمل کرنے کا اعلان کیا۔چوبارہ کے بعد پچیس اکتوبر کو صوبائی دارالحکومت لاہور میں ڈی او لاری اڈہ عائشہ ممتاز کی سربراہی میں چھاپمہ مارٹیم نے کھوکھر روڈ بادامی باغ میں مردہ جانوروں کا گوشت اور ہڈیوں سے مضر صحت خوردنی آئل بنا کر فروخت کرنے والے کے ڈیرے پر مارکر کئی من مردہ جانوروں کا گوشت قبضے میں لے لیا۔ٹیم نے موقع پر موجود شخص اور اس کے ساتھی کو گرفتارکرلیا۔پولیس نے گرفتار افراد سے تفتیش شروع کردی۔خبر کے مطابق دونوں افراد شہر میں مردہ بھینسوں، گدھوں اور گھوڑوں کا گوشت سپلائی کرتے تھے۔یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ ملزمان مردہ اورحرام جانوروں کا گوشت فروخت کرنے کے ساتھ ساتھ مردہ جانوروں کی ہڈیوں سے مضر صحت کوکنگ آئل بھی تیارکرتے تھے۔یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ سبزہ زار، بندروڈ، محمود بوٹی، شیراکوٹ سمیت مختلف علاقوں میں یہ گھناؤنا کاروبار جاری ہے۔لاہور کے بعد لیہ کے نواحی قصبہ چوک اعظم اٹھائیس نومبرکو وارڈ نمبر ۶ کے محلہ شریف آباد میں پٹھانوں کے گلی میں بندھے ھدھے مردہ پائے گئے۔خانہ بدوش مانگنے کے لیے پہنچ گئے۔اور مردہ گدھے اٹھا کر جنگل میں لے گئے ان کی کھالیں اتارلیں۔گدھا مالکان کو شک گزرا کہ کہ ایک ہی رات میں ۶ گدھوں کی ہلاکت کیسے ہوئی۔اور سب ہلاک ہونے والے گدھے یہی خانہ بدوش اٹھا کر لے گئے۔جب چند لوگوں کے ہمراہ ان کی جھگی کی تلاشی لی گئی توقریب ہی ایک پوٹلی میں گندم مین رکھنے والیاں زہریلی گولیاں برآمد ہوئیں۔تو شک کیا گیا کہ یہی لوگ اندھیرے میں بندھے ہوئے گدھوں گولیاں کھلاتے ہیں۔اور صبح مرے ہوئے گدھے وصول کرنے پہنچ جاتے ہیں۔وٹرنری ڈاکٹر، میڈیا اور پولیس موقع پر پہنچ گئی۔اور خانہ بدوشوں نے جان بخشی کے لیے پٹھانوں کو اپنے گدھے دے دیے۔پٹھان یہ الزام لگارہے تھے کہ گدھوں کو گولیاں دے کر مارا گیا ہے۔مذکورہ پٹھان خانہ بدوشوں سے گدھے لے کر نکل گئے۔مدعی کی عدم دستیابی پر پولیس نے گرفتار خانہ بدوش چھوڑ دیے۔گدھے کی برآمد ہونے والی چھ کھالوں کے ساتھ ایک ہلاک جنگلی گیدڑ بھی موقع پر پڑا ملا۔خانہ بدوش مردار جانوروں کی ہڈیاں،چمڑے ، ڈھانچے اٹھا کر فروخت کرتے ہیں۔اس معاملہ میں قانون نافذ کرنے والے ادارے مکمل خاموش ہیں۔مقامی اخبار اپنی اس خبر میں لکھتا ہے کہ ایجنسیوں کو پتہ لگانا چاہیے کہ مردار ناپاک کھالیں کس استعمال اور مصرف میں لائی جارہی ہیں۔مردہ خوری اور مردارجانوروں کی کھالیں اتارنے اور فروخت کرنے پر کوئی قانون اور جرم موجود نہیں جس سے یہ گھناؤنا کاروبار جاری ہے۔ملزمان خانہ بدوشوں کے پاس کوئی ریکارڈ شناختی کارٖڈ تک موجود نہ تھا۔ڈیرہ غازی خان سے ۳۰ ایک قومی اخبار میں خبر ہے کہ محکمہ لائیوسٹاک اور تھانہ صدر پولیس نے ڈیرہ غازی خان کے نواحی علاقہ کوٹ ہیبت میں مشترکہ کارروائی کے دوران گدھے کو ذبح کرنے والے ایک قصاب کو گرفتار کرلیا۔جبکہ دوسرا ساتھی قصاب فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا۔وٹرنری ڈاکٹر ریاض حسین کھوسہ کے مطابق ملزمان گدھوں کو ذبح کرکے گوشت شہر کے مختلف ہوٹلوں میں سپلائی کرتے تھے۔پولیس نے قصاب کے خلاف مقدمہ درج کرکے اسے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بجھوا دیا۔لیہ سے برآمد ہونے والی کھالوں کے حوالے سے کی جانے والی کارروائی اور رپورٹس یہ ہیں کہ ۲۳ اگست کے مقامی اخبار میں ہے کہ گدھے کی کھالوں کی برآمدگی سٹی پولیس الجھن کا شکار ہوگئی۔لائیوسٹاک و لیگل برانچ سے مدد طلب کرلی۔اسی اخبار میں ایک اور خبر اس حوالے سے ہے کہ ریجن میں گدھے کی کھال فروخت کرنے کا ایک بھی سٹال موجود نہیں کھالوں کی موجودگی سوالیہ نشان بن گئی۔چوبیس اگست کے ایک اور مقامی اخبار میں ہے کہ ایس ایچ او تھانہ سٹی اعجاز بخاری کہتے ہیں کہ گدھوں اور دیگر جانوروں کی پرانی کھالیں برآمد ہوئی ہیں کسی مردار جانور کا گوشت کہیں بھی سپلائی نہیں کیا جاتا۔چھبیس اگست کے ایک مقامی اخبار میں ہے کہ حرام اور مردار گوشت کی فروخت وکلاء نے قبیح فعل پر نئی قانون سازی کا مطالبہ کردیا۔اسی روز ڈی سی او لیہ نے گدھے کی کھالوں کی برآمدگی کا نوٹس لے کر اسسٹنٹ کمشنر لیہ کو تحقیقاتی آفیسر مقرر کردیا۔ضلعی افسران، سیاسی و سماجی شخصیات نے سروے میں تشویش کا اظہار کیا۔اٹھائیس اگست کو گدھے کی کھالوں کی برآمدگی کے دو مبینہ ملزمان کو پولیس نے میڈیا کے سامنے پیش کر دیا۔مبینہ ملزمان نے میڈیا کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے اعتراف کیا کہ انہوں نے آٹھ ماہ قبل گدھے سمیت حرام جانوروں کی خریدوفرخت کا کاروبار شروع کیا۔اور ضلع لیہ میں وہ واحد افراد ہیں جوگدھے و حرام جانوروں کی خرید وفروخت کا کاروبارکرتے ہیں۔انہوں نے اعتراف کیا کہ تین ماہ میں خرید کردہ ایک کھال بھی فروخت نہیں کی جبکہ پہلے پانچ ماہ میں گیارہ کھالیں اوپن مارکیٹ میں فروخت کرچکے ہیں۔مذکورہ کھالون کے فروخت کنندہ اور خرید کنندگان کے حوالے مبینہ ملزمان معلومات دینے سے قاصر رہے۔ایک ملزم نے بتایا کہ خانہ بدوش انہیں یہ کھالیں فروخت کرکے جاتے ہیں۔اور ایک کھال پانچ سے سات سو میں خرید کی جاتی ہے۔تاہم وہ کسی بھی فروخت کنندہ خانہ بدوش کا نام اور اس کے قیام کی جگہ نہ بتا سکے۔اسی طرح انہوں نے اپنی ہی بتائی گئی اوپن مارکیٹ ملتان، ساہیوال، خانیوال اور قصور میں قائم حرام کی کھالوں کی خرید وفروخت کے ایڈریس بھی بتانے سے گریز کیا۔مبینہ ملزمان نے گدھوں کے گوشت کی سپلائی کے الزامات کی سختی سے تردید کی۔رپورٹ کے مطابق ملزمان کے بیانات میں تضاد پایا گیا۔

مردہ گدھوں کی کھالوں کی خرید وفروخت کے شہر تو سامنے آئے ہیں تاہم ان کا گوشت کیا کیا جاتا رہا ہے ۔ یہ معاملہ ابھی تک پراسرار ہی ہے۔ جیسا کہ آپ اس تحریر میں پڑھ آئے ہیں کہ مردہ کھانے کے جرم کی طرح مردار جانوروں کی کھالوں کی خریدوفرخت کے حوالے سے بھی قانون میں کوئی سزا موجود نہیں۔ قومی اسمبلی میں مردہ کھانے والوں کے خلاف تو قانون سازی کی اطلاعات اخبارات میں شائع ہوچکی ہیں تاہم مردار جانوروں کی کھالوں اور گوشت کا کاروبارکرنے والوں کے خلاف اسی کوئی اطلاع میڈیا پر نہیں آئی۔یہ معاملہ بھی ابھی تک راز میں ہی ہے کہ ان کھالوں کو کس مصرف میں لایا جاتا ہے۔ یہ معاملہ صرف لیہ تک ہی محدود ہوتا تو اور بات تھی لیہ شہر اور اس کے نواحی قصبات اور چکوک کے ساتھ ساتھ لاہور، گگومنڈی اور ڈیرہ غازی خان سے بھی اس طرح کی خبریں آئی ہیں۔اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ ایک منظم نیٹ ورک ہے جو اس گھناؤنے کاروبارمیں ملوث ہے۔ اور یہ ضلعی نہیں صوبائی معاملہ ہے۔گوشت ہوٹلوں پر سپلائی ہوتا رہا یا نہیں اس بارے میں بھی کوئی واضح رپورٹ سامنے نہیں آئی۔ لیہ سے برآمد ہونے والی کھالوں کے بعد معرف ہوٹل بارے افواہیں گردش میں رہیں جس سے ان کاکاروبارمندے کا شکار ہوگیا۔ ہوٹل مالکان نے گاہکوں کا اعتماد بحال کرنے کے لیے محفل میلاد منعقد کرائی۔اس کے بعد لوگوں نے بڑے ہوٹلوں میں کھانا کھانے اور تمام ہوٹلوں میں مویشیوں کا گوشت کھانے سے اجتناب کرنا شروع کردیا۔ اور اس کے ساتھ ہی شہر کی ہوٹلوں میں گاہکوں کا غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ایک ہوٹل ملازم نے بتایا کہ لوگ اب گوشت اور قیمہ نہیں کھاتے بلکہ سبزی کو ترجیح دیتے ہیں۔ او ر گوشت کھانا بھی ہوتو مرغی کا کھاتے ہیں۔ گدھے کا گوشت مکروہ ہے اس کو اور غذا نہ ملنے پر اتنا کھایا جاسکتا ہے کہ جان میں جان آجائے۔اخباری رپورٹوں کے مطابق اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیا جارہا۔وزیراعلی شہباز شریف کو اس معاملے کی تحقیقات کے لیے ماہرین پر مشتمل کمیٹی قائم کرکے اس کی تہہ تک پہچنا چاہیے اور اس میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کرکے اس گھناؤنے کاروبار کو بند کرنا چاہیے۔ گدھے عام طور غریب اور دیہاڑی دار پالتے ہیں اس سے باربرداری کا کام لے کر وہ بچوں کی روزی کماتے ہیں۔ گدھے مرجانے سے ان کا روزگاربھی چھن جاتا ہے۔ ان سے دیہاڑی کمانے والے اس پوزیشن میں بھی نہیں ہہوتے کہ وہ اور گدھا خرید سکیں۔جس کو خطرہ ہو اس کو حکومت سیکیورٹی فراہم کرتی ہے یا اس کو اپنی سیکیورٹی کے انتظامات کرنے کی ہدایت کرتی ہے۔ حفاظتی تحویل میں بھی لے لیتی ہے۔اب گدھے اپنی حفاظت خود تو نہیں کرسکتے نہ ہی ان کے پاس موبائل ہوتے ہیں کہ وہ کسی کو اطلاع کرسکیں۔گدھوں کو مارکر ان کی کھالیں فروخت کرنے والے کسی بھی جگہ اور کسی بھی گدھے کو جان سے مار سکتے ہیں۔اسی طرح لیہ ، لاہور ، ڈیرہ غازی خان سمیت صوبہ بھر کے گدھوں کی جانوں کو خطرہ ہے ۔ اس لیے ضروری ہے کہ ان گدھوں کو بھی سیکیورٹی فراہم کی جائے۔ان کو بھی سیکیورٹی کیمرے فراہم کیے جائیں۔ ایک خاتون کے جسم میں اس کی جاسوسی کے لیے ٹریکر لگانے کا معاملہ سامنے آیا تھا ۔ اور کچھ نہیں تو ان گدھوں کو ٹریکر ہی لگا دیے جائیں تاکہ جب بھی کوئی دہشت گرد گدھوں کے پاس آئے تو اس کے مالکان کو اسی وقت پتہ چل جائے -
Muhammad Siddique Prihar
About the Author: Muhammad Siddique Prihar Read More Articles by Muhammad Siddique Prihar: 394 Articles with 305525 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.