جماعۃ الدعوۃ پاکستان کامنفرد و تاریخی اجتماع(تاریخ و تحریک پر ایک نظر)

( جماعۃ الدعوۃ کے اجتماع 4،5دسمبر2014بمقام مینار پاکستان لاہورکے سلسلے میں خصوصی طور پر لکھا گیا)

جماعۃ الدعوۃ کا سب سے بڑا اجتماع 4اور5دسمبر کو مینار پاکستان میدان میں ہو رہا ہے جس میں ملک بھر سے لاکھوں لوگ شرکت کررہے ہیں۔جماعۃ الدعوۃ نے اپنے اس اجتماع کا جیسے ہی اعلان کیا ،بھارتی میڈیا میں ایک کہرام بپا ہو گیاکہ پاکستان میں ان کے سب سے بڑے مخالفین کو کیسے اتنا بڑا پروگرام کرنے کی اجازت ملی ہے۔بھارت جماعۃ الد عوۃ کو اپنا سب سے بڑا دشمن گردانتاہے تو اس کے امیر پروفیسر حافظ محمد سعید کومطلوب ترین شخصیت قرار دیتا ہے۔دوسری طرف پاکستان کا کہنا ہے کہ جماعۃ الدعوۃ اور اس کے کارکنان ملک میں کسی بھی غیر قانونی یا تخریبی سرگرمی میں ملوث نہیں پائے گئے۔ اس جماعت کے امیر ایک ایسے شہری ہیں جن پر بھارت یا امریکہ کی جانب سے لگایا گیا کوئی بھی الزام ثابت نہیں کیا جا سکا،لہذاانہیں پاکستا ن میں کسی سرگرمی سے روکا نہیں جا سکتا۔جماعۃ الدعوۃ ایک طویل عرصہ سے عالمی میڈیا اور عالمی طاقتوں حتیٰ کہ اقوام متحدہ جیسے ادارے کی بھی اس فہرست میں شامل ہے جس پر سب سے زیاد ہ غور ہوتا ہے۔پاکستان میں اقتدار کی کبھی اور کسی صور ت تمنا اورخواہش نہ رکھنے والی او ر حکمرانوں اور عوام کوہمیشہ دعوت و اصلاح کی طر بلانے والی اس جماعت سے پاکستان اور بیرونی دنیاکے مسلمان دل و جان سے محبت کرتے تو ہیں ہی لیکن سندھ کے وہ بے شمار ہندوجن کی آج بھی جماعت فلاح وخدمت میں مصروف ہے، اس کے گرویدہ ہیں۔ملک میں کوئی بھی آفت یا حادثہ پیش آئے ،جماعۃ الدعوۃ کا ریکارڈ گواہ ہے کہ اسکے کارکن ہمیشہ سب سے پہلے مدد کے لئے پہنچتے ہیں۔سال2013کے سیلاب میں جب لاہور کے گردو نواح کے علاقے بری طرح ڈوبے تھے تو جماعۃ الدعوۃ کے کارکنان نے جانوں پر کھیل کر ملک بھر کی طرح مسلمانوں کے ساتھ عیسائیوں کو بھی مدد و تعاون بہم پہنچایا تو کوٹ عبدالمالک کے گرد و نواح کے عیسائیوں نے گھروں پر جماعۃ الدعوۃکے پرچم لہرا دیئے تھے۔ ایسے مناظر ملک بھرمیں آج ہر جگہ ہی دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔جماعۃ الدعوۃ کی ایک اور خوبی سارے اہل اسلام کو اپنے سٹیج پر جمع کرنا اور انہیں اسلام سے متعلقہ مسائل و مشترکات پر اکھٹا کرنا ہے جو کوئی دوسراایسے طریقے سے کرتا نظر نہیں آتا۔

جماعۃ الدعوۃ کا پہلااجتماع 2، 3، 4 مارچ 1989ء کو مرکز البدر پھول نگرضلع قصور میں ہواتھا۔اس پہلے اجتماع میں جماعت کی بنیا د اور اساس رکھنے والے سبھی اکابرین بشمول سید بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اﷲ ،حضرت پروفیسر حافظ محمد عبداﷲ بہاولپوری رحمہ اﷲ ،حضرت مولانا محمد حسین شیخوپوری رحمہ اﷲ ،حضرت حافظ محمد یحییٰ عزیز میر محمدی رحمہ اﷲ جو مرکز البدر کے بانی اور سربراہ تھے سبھی موجود تھے……( جو اب اپنے رب کے پاس پہنچ چکے ہیں) اگلے سال یہ اجتماع پھر اسی مرکز البدر میں ہوا۔اس کے بعد1990میں جماعت نے لاہور شہر کے نواح میں مرید کے شہر کے قریب ننگل ساہداں نامی بستی کے پاس زمین کا وسیع و عریض قطعہ خرید کریہاں پہلا اجتماع منعقد کیا۔پھر یہاں دینی مدارس، سکولز، کالجز، ہسپتال اور رہائشی منصوبے وغیرہ بنانے کا کام شروع ہوا۔اس کے بعد لگا تار10سال اجتماعات یہیں منعقد ہوئے تو اس بستی کو عالمی شہرت حاصل ہو گئی۔ اس کے بعد 2002اور2003میں لگا تار2اجتماعات پتوکی ضلع قصورمیں واقع جماعت کے مرکز یرموک میں منعقد ہوئے جہاں اب علم و عمل کا ایک وسیع شہر آباد ہو چکا ہے۔یہاں لڑکیوں کے لئے عبدالرشید محسن کی نگرانی میں جدید تعلیم کا مایہ نازالدعوۃ سائنس کالج بھی قائم ہے تو دینی مدارس اور بڑی جامع مسجد بھی موجو د ہیں۔الدعوۃ سائنس کالج کے نتائج اور تربیت کا ریکارڈ اتنا شاندا ر ہے کہ یہاں داخلہ کے لئے میرٹ پر اترنا بھی کسی بڑے امتحان سے کم نہیں۔جماعت نے اس طرز کے تعلیمی ادارے پورے ملک میں قائم کرنے کا بھی الگ سے قائم کئے جا رہے ہیں۔سکولوں کا ملک بھر میں ایک سلسلہ عرصہ دراز سے قائم ہے۔مرکز یرموک کے ان اجتماعات کے بعداگلے کئی سال تک جماعت نے عالمی و ملکی مسائل و مشکلات کا ادراک کرتے ہوئے اپنے اس اجتماع کا انعقاد کرنے کے بجائے کارکنان کے بڑے بڑے اجتماعات کئے البتہ2008میں ملک کے تین مقامات مرکز یرموک پتوکی،مرکز طیبہ مرید کے اورمرکز نیو سعید آباد سندھ میں علاقائی بنیادوں پر بڑے بڑے اجتماعات منعقد ہوئے۔

جماعۃالدعوۃ نے اپنے دعوتی ،تنظیمی اور تحریکی کام کا آغاز شہر لاہور سے کیا تھا۔حافظ محمد سعید ان دنوں(1985) لاہور کی انجنئیرنگ یونیورسٹی میں پروفیسر تھے۔یہیں سے انہوں نے لاہور میں دعوتی دروس کا آغاز کیا اور خود باغبان پورہ کی ایک مسجد میں خطیب مقر ر ہوئے۔جماعت نے اپنا پہلے دعوتی سفر کا اہتمام 10اگست 1987ء کو کیا تھاجب لاہورسے 80افراد کا ایک قافلہ راولپنڈی کیلئے ٹرین پر روانہ ہوا۔ راولپنڈی پہنچ کر اس قافلے نے دو بسیں بک کروائیں اور پھر مری کے راستے ایوبیہ کے گاؤں توحید آباد پہنچ گئے۔ پھر وہاں کی بلند پہاڑی تک پیدل سفر کیا گیا۔ پہاڑی کی چوٹی پر افغانستان میں روس کے خلاف رزم حق و باطل سجانے والے مجاہدوں اور غازیوں کے ہمراہ یہاں ایک منفرد و یکتا محفل سجی۔ اس محفل میں جسمانی ورزشوں کا بھی اہتمام تھا اور روحانی بالیدگی کا بھی…… دن بھر قیام کے بعد پھر یہ قافلہ ایبٹ آباد سے ہوتا ہوا پہلے راولپنڈی اور پھر پشاور کے راستے ایک نئی جوت جگاتا واپس لاہور کی جانب عازم سفر ہوا۔اس سفر کا مقصد اہل اسلام اور اہل پاکستا ن کو دعوت و جہاد کے اس سفر کی جانب قائل و مائل کرنا تھاجس کی ایک انمٹ تاریخ ہزارہ اور صوبہ خیبر کے ان علاقوں میں سیدین شہیدین،سید احمد شہیداور شاہ اسماعیل شہیدکی شکل میں موجود ہے۔ان اسلاف کے جہاد اور خون کی قربانی نے ہی دراصل انگریز کو اس خطے سے نکالنے اورپاکستان کے بنانے میں سب سے اہم اور بنیادی کردار ادا کیا تھا۔ان بزرگوں اور ان کے ساتھیوں کی قبریں ہزارہ کے شہر بالاکوٹ میں موجود ہیں جہاں انہوں نے غاصب و ظالم سکھ حکومت سے مسلمانوں کو آزادی دلانے کے لئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے تھے۔اس علاقے کے لوگوں کی بھی جہاد اور قیام پاکستان میں قربانیاں کسی سے چھپی نہیں اور پھر اسی راہ سے چلتے ہو ئے جماعت نے اپنا بڑا سفر شروع کیا تھا جس کی گونج آج چار دانگ عالم سنی اور دیکھی جا سکتی ہے۔اس وقت تو اس قافلے کے شرکاء میں کسی نے کبھی سوچا تھا کہ دیکھتے ہی دیکھتے اور چند ہی سالوں بعد 80افراد کا یہ قافلہ ایک ایسی تحریک اور موج بلاخیز میں بدلنے والا ہے کہ چہار دانگ عالم میں اس کے چرچے ہوں گے۔ اسلام کے دشمن اس کا نام لے کر دن رات کانپیں گے۔ اس کے خلاف منصوبہ بندیاں سوچیں گے۔ کرۂ ارضی پر ہر کونے، ہر عالمی طاقت کے مرکز میں اس کے تذکرے ہوں گے…… اس قافلے کے راہیوں کے تو کسی نہاں خانے اور وہم و گمان میں بھی نہیں ہو گا کہ وہ دن بھی جلد ہی آنے والا ہے جب شرق و غرب کے انچ انچ کے مالک و مختار ہونے کے دعویداران سے اس قدر بیزار ہوں گے کہ کبھی ان کے سروں کی قیمتیں لگائیں گے اثاثے منجمد کرنے کی مضحکہ خیز حرکتیں کریں گے ۔

آج جماعت کے ابتدا ئی مر کز، مرکز طیبہ مریدکے کا نام سال ہا سال سے ملک ملک، نگر نگر گونج رہا ہے کہ یہاں سالہا سال سے ایسے اجتماعات منعقد ہوتے رہے جن سے دنیا بھر کے مظلوم و مقہور مسلمانوں کونیا عزم، نیا حوصلہ ملا۔ آزادی پانے کیلئے جدوجہد کا نیا ولولہ پیدا ہوا…… پھریہ قافلہ جہاں سے گزرا…… دلوں میں ایک نئی جوت جگا گیا، اندھیری راہوں کو روشن کر گیا، جہاں پہنچا، رنگ و نسل، علاقائیت و صوبائیت، لسانیت و فرقہ واریت کے سارے بت اس نے پاش پاش کر دیئے۔ سب ایک امام کی اقتدا میں نماز کی مانند ایک امیر کی اطاعت میں ہر طرح کے طاغوتی حربے ناکام بنا کر کھڑے ہو گئے۔

مرکز طیبہ مریدکے کا نام آج بھی دین حق کے مخالفوں کے دلوں میں ایک ہلچل، ایک کپکپی پیدا کر دیتا ہے تو وہ سبھی یہاں کھنچے چلے آتے ہیں کہ ہم یہاں اپنی آنکھوں سے دیکھ تو لیں کہ یہاں سے ایسی کون سی روشنی پھوٹتی ہے جس کی کرنوں نے آج کے فرعونوں اور نمرودوں کی آنکھوں کو چندھیا رکھا ہے…… وہ یہاں آ کر ’’مایوس‘‘ ہو جاتے ہیں کہ جو امیدیں اور نیتیں لے کر وہ یہاں پہنچے تھے، ایسا تو یہاں کچھ نظر نہیں آتا۔ یہاں تو بس شریعت اسلامی سے آراستہ و پیراستہ عورتیں ہیں، مرد ہیں، بوڑھے ہیں، بچے ہیں…… پھر ایسی کیا سربستہ کہانی ہے جو ان سب کے لئے مشکلات کھڑی کئے ہوئے ہے…… وہ کون سا ایسا نہاں راز ہے جس کے پردے کسی کے سامنے وا نہیں ہو پاتے…… 1987ء کے 80 افراد کے قافلے کے سالار اور یہاں کے اجتماعات سے ہمیشہ مرکزی خطاب کرنے والے پروفیسر حافظ محمد سعید آج بھی حق سچ کی آواز سے گرجتے ہیں ’’ہمارے خلاف الزامات کے ثبوت دنیا کی کسی عدالت میں لے کر آؤ، ہم سامنا کرنے کو تیار ہیں‘‘ تو یہ سارے باطل ایوان لرز اٹھتے ہیں…… جن سے کوئی جواب بن نہیں پاتا، سو کوئی جواب کہیں سے نہیں آتا…… اقوام متحدہ کو یہاں سے خط جاتا ہے تو سالہا سال بعد بھی جواب بن نہیں پاتا…… ہاں البتہ بھارت یہ ضرور کہتا ہے کہ اس کے ملک کے بے شمار لوگ اب جماعۃ الدعوۃ کی آواز پر لبیک کہہ رہے ہیں۔ ان سے مظلوموں کو اس قدر امیدیں وابستہ ہیں کہ قائد کشمیر سید علی گیلانی برملا کہہ اٹھتے ہیں کہ ہمیں آزادی کیلئے حافظ محمد سعید سے مدد مانگنا پڑی تو دریغ نہیں کریں گے۔سرینگر میں جماعت کے پرچم لہرائے اور سجائے جاتے ہیں۔ فلسطین کے نوجوان کہہ اٹھتے ہیں کہ ہم اسرائیل سے آزادی اور مسجد اقصیٰ کی آزادی کیلئے قبلہ اول اور مسجد الحرام میں بیٹھ کر مناجات کرتے ہیں کہ اﷲ انہی کے ہاتھوں آزادی عطا فرمانا…… ان کو پاکستان کے اندر ہی لڑانے بھڑانے کی کتنی سازشیں، کاوشیں ہوئیں لیکن انہوں نے طے کیا کہ ’’جس نے کلمہ پڑھ لیا، وہ ہمارا بھائی ہے اور اس کی جان‘ اس کا مال ہمارے لئے حرام ہے‘‘ سو اتنی سادہ سی بات نے انہیں بہت کچھ سمجھا دیا اور یہ آفاقی سوچیں کو لئے بہت آگے کی پروازوں کیلئے پرتولے بیٹھے ہیں۔

80افراد سے پہلا سفر شروع کرنے والے مینار پاکستان گراؤنڈ میں اترنے والے ہیں، جہاں ان کے ایک ایک فرد کو 74سال پرانا منظر یاد آ رہا ہے جب اس میدان میں اس پاک وطن کے بنانے کے عزم و ارادے کا سب سے بڑا اظہار ہوا تھا…… اس وقت بھی نعرہ تھا…… پاکستان کا مطلب کیا؟ لاالہ الا اﷲ…… آج بھی نعرہ یہی ہے…… نعرہ لگانے والے بدل چکے لیکن نعرہ نہ بدلا…… اس وقت نعرہ تھا ’’بٹ کے رہے گا ہندوستان، بن کے رہے گا پاکستان‘‘…… آج سوچ تو وہی ہے، الفاظ کچھ بدلے ہیں کہ …… بٹ کے رہے گا ہندوستان اور بچ کے رہے گا پاکستان…… اور پاکستان کو بچانے اور اس کے نظریہ اورعزم کو آگے بڑھانے والے یہاں 1940ء کی یادوں کو تازہ کرنے کے عزم کے ساتھ یہاں اس میدان کا سب سے بڑا اجتماع منعقد کرنے والے ہیں جو ان کے مخالفین کی نیندیں پہلے سے زیادہ بیزار کر دے گا…… وہ کہ جن کے خلاف سازشوں کے تانے بانے بنے بھی کفر کے سبھی ایوانوں میں…… آج وہ اسی تاریخی میدان میں ایک نئی تاریخ مرتب کرنے کے عزم کے ساتھ رخ کرنے والے ہیں…… گلی گلی، شہر شہر، قافلے تشکیل پا رہے ہیں…… ارادے باندھے جا رہے ہیں…… زاد سفر جمع کیا جا رہا ہے، عزم و حوصلے جوان تر کئے جا رہے ہیں، قدموں کی دھمک تیز تر ہو رہی ہے…… وہ کہ جنہیں روکنے کیلئے سارے شیطانی چیلے اپنے سبھی ظاہری و باطنی مال و اسباب کے ساتھ جمع کئے میدان میں لئے بیٹھے تھے، اب نامراد ہیں کہ لاہور کا میدان مینار پاکستان اس بار دنیا کو دفاع دین و وطن کا پیغام دینے والا ہے ،رب کی نصرت کے سائے میں…… سازشوں کے تانے ٹوٹنے بکھرنے والے ہیں…… سبھی ناپاک ارادے پھوٹنے والے ہیں…… ایک ہی پیغام…… ایک ہی دعوت…… ایک نعرہ…… ایک ہی نقارہ…… کٹتے بھی چلو، بڑھتے بھی چلو…… کہ ڈیرے اب منزل پر ہی ڈالے جائیں گے-
Ali Imran Shaheen
About the Author: Ali Imran Shaheen Read More Articles by Ali Imran Shaheen: 189 Articles with 136827 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.