عالم مذاہب میں اسلام وہ واحد
مذہب ہے جیسے دین یعنی راستہ کہا جاتا ہے کیونکہ باقی مذاہب تو مخصوص خطوں
اور وقتوں میں اُتارے گئے جبکہ اسلام کو رہتی دنیا تک کے لیے راہ ہدایت
قرار دیا گیا۔اسی لیے اسلام کو دین کہا جاتا ہے یعنی ایک ایسا راستہ جس پر
چل کر کوئی بھی انسان فلاح پا سکتا ہے۔ قران مجید کا مطالعہ کیا جائے تو
پتا چلتا ہے کہ قرآن کا موضوع تو انسان ہے جبکہ حکامات ایمان لانے والوں
کے لیے ہیں۔ قرآن انسانی حرمت کا تحفظ ان الفاظ میں قرار دیتا ہے کہ ،ترجمہ’’
جس نے ایک انسان کا قتل کیا گویا اُ س نے پوری انسانیت کا قتل کیا‘‘۔اور
قرآن پاک نے یہاں تک کہا ہے کہ ترجمہ ’’اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے
لگو تو انصاف سے کرو‘‘۔ان دونوں آیات ِ مبارکہ میں انسان کا ذکر ہوا ہے نا
کہ ایمان والوں کا۔دوسری جانب حصول پاکستان کی جد و جہد اور کاوش کے دوران
یہ اصول کار فرما تھا کہ ایسی اسلام ریادت قائم کی جائے جس میں اسلام کا
مجلسی انصاف ترقی پائے اور تمام افرادِ معاشرہ کوکسی کو بھی طرح کی
مذہبی،لسانی اور قومی تفریق کے بغیر اپنی شخصیت کی تکمیل کے لیے یکساں
مواقع حاصل ہوں۔ اسلا می نظریے کے مطابق معاشرے کے تمام افراد حکومت میں
حصہ دار ہیں اور کسی بھی مخصوص فرد اور گروہ کو اجارہ داری نہیں بلکہ
حکومتی کاروبار کو چلانے کے لیے تمام کی مشترکہ ذمہ داری ہوتی ہے۔ اسلام نے
ایک پاکیزہ اور مثالی معاشرے کے قیام کے لیے انتہائی اعلیٰ و ارفع اصول پیش
کئے ہیں اور جو ان کی پیروی نہیں کرتا اس کے رویے سے دیگر افراد معاشرہ
متاثر ہو رہے ہیں تو اسلام اس کی نفی کرتا ہے ۔ اسلامی عدل کی روح کے مطابق
قانون کی نظر میں تمام لوگ برابر اور یکساں ہو جاتے ہیں اور قانون شکنی پر
برابر کی سزا ملتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔ ترجمہ ’’ بے شک اللہ تعالیٰ
عدل اور انصاف کا حکم دیتا ہے‘‘۔
اسلام چونکہ وحدت نسل انسانی کا داعی ہے اسی لیے قومی،لسانی،نسلی اور دیگر
ہر طرح کے امتیازات کی نفی کرتا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے : ترجمہ ’’
دین میں کوئی جبر نہیں ہے‘‘۔جس کے بعد اسلام ایک اسلامی ریاست میں موجود
تمام غیر مسلموں کو مکمل تحفظ فراہم کرتا ہے ۔اسلام شرف انسانیت کا
علمبردار دین ہے اور ہر فرد سے حسن سلوک کی تعلیم دینے والے دین میں کوئی
ایسا اصول یا ضابطہ روا نہیں رکھا گیا جو شرف انسانیت کے منافی ہو
۔دیگرطبقات معاشرہ کی طرح اسلامی ریاست میں اقلیتوں کو بھی اُن تمام حقوق
کا مستحق قرار دیا گیا ہے جن کا ایک اسلامی معاشرے میں تصور کیا جاسکتا
ہے۔اقلیتوں کے حقوق کی اساس معاملات دین میں جبرواکراہ کے عنصر کی نفی کر
کے فراہم کی گئی، فرمایا گیا:’’ دین میں کوئی زبردستی نہیں‘‘۔ البقرہ آیت
نمبر 256
اسلامی معاشرے میں مسلمانوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اقلیتوں سے
نیکی،انصاف اور حسن سلوک پر مبنی رویہ اختیار کریں۔قرآن پاک میں ارشاد
ہوتا ہے۔’’اللہ تمہیں اس بات سے منع نہیں فرماتا کہ جن لوگوں نے تم سے دین
(کے بارے ) میں جنگ نہیں کی اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے (یعنی وطن سے )
نکالا ہے کہ تم ان سے بھلائی کا سلوک کرو اور اُن سے عدل و انصاف کا برتاؤ
کرو، بیشک اللہ عدل و انصاف کر نے والوں کو پسند فرماتا ہے ‘‘۔اسلامی
معاشرے میں اقلیتوں کے حقو ق کو کتنی زیادہ اہمیت دی گئی ہے اس کا اندازہ
حضوربنی اکرمﷺ کے اس فرمان سے بھی ہوتا ہے:’’ خبردار! جس کسی نے کسی
معاہد(اقلیتی فرد) پر ظلم کیا یا اس کا حق غصب کیا یا اس کو اس کی استطاعت
سے زیادہ تکلیف دی یااس کی رضا کے بغیر اس سے کوئی چیز لی تو روز قیامت میں
اس کی طرف سے ( مسلمان کے خلاف ) جھگڑوں گا ‘‘۔اُبو داود السنن، کتاب
الخراج،باب فی تشعیر۔جبکہ نبی اکرم ﷺ کے عہد میں ایک دفعہ ایک مسلمان نے
ایک غیر مسلم کو قتل کر دیا تو نبی کریم ﷺ نے قصاص کے طور پر اس مسلمان کے
قتل کئے جانے کا حکم دیا اور فرمایا’’ غیر مسلموں کے حقوق کی حفاظت میرا سب
سے اہم فرض ہے‘‘۔ابن ابی شیتہ المصنف۔ لہذٰا یہ بات تو ثابت ہو چکی ہے کہ
اسلام اور عرب کے چاندﷺ کی نظر میں انسان خواہ وہ دین اسلام سے تعلق ہی نہ
رکھتا ہوکی حرمت کا کیا مقام ہے۔ پاکستان کا آئین بھی اقلیتوں کو تحفظ
فراہم کرتا ہے تاہم کیا ہمارا معاشرہ ایسا کر رہا ہے؟ پاکستانی معاشرہ
ملائیت کا شکا ر ہے اور مذہبی طور پر چند مفاد پرستوں کے ہاتھوں میں ایک
ایسا خطرناک ہتھیار بنتا جا رہا ہے جس سے کسی کی مال و جان محفوظ نہیں
ہے۔مفاد پرستوں کا یہ ٹولہ جو دین کے ٹھیکدار بن بیٹھے ہیں کب کیا کر
بیٹھیں کوئی نہیں جانتا۔ اسلام کے نام پر لوگوں کو مشتعل کر کے کسی کی جان
لے لینا ان کے نزدیک جنت کمانے کا آسان ترین ذریعہ ہے جب کے اندر کی کہانی
کچھ اور ہی ہوتی ہے۔
پا کستان میں اس وقت نا صرف ایک کمزور جبکہ ایک اقلیتی فرقے سے تعلق رکھنے
والوں کو بھی جن مسائل کا سامنا ہے وہ ہم سب کے سامنے ہیں۔ ان مذہب کے
ٹھیکداروں نے دین کے بنیادی نکات تو بھلا ہی دئیے ہیں تاہم ان لوگوں نے ایک
عام مسلمان کو بھی دین سے دور کر دیا ہے۔ یہ ریاست کے ساتھ ساتھ ہر باشعور
مسلمان کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے عناصر کا کھل کر خاتمہ کرے اور انہیں
بے نقاب بھی کرے جو دین کے نام پر انتشار اور قتل و جدل کوہوا دے رہے ہیں۔
یہ وقت کی وہ اہم ترین ضرورت ہے جس پر اگر سختی سے عمل نہ کیا گیا تو
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وقار پر ایک اور داغ کا اضافہ ہو جائے گا۔ |