شیطان کے دربار میں
(Muhammad Jabran, Lahore )
نیکی وبدی کا کھیل آج سے
نہیں بلکہ صددیوں سے چلا آرہا ہے ، انسان پہلے بھی بھٹکتا تھا اور آج بھی
بھٹک رہا ہے کبھی جا ن بھوج کر تو کبھی انجانے میں۔ بس یہی وترہ اسے شیطان
کے دربار میں لے جاتا ہے اور ایسا کیوں نہ ہو آخر انسان ، انسان ہے کو ئی
فرشتہ تو نہیں۔ لیکن انسان جب بہک کر توبہ کرلے تو واپسی کی گنجائش ہے۔
ہم کئی بار توبہ کرتے ہیں اور اپنی توبہ کو توڑتے ہیں،شیطان بُلاتا ہے اسکی
طرف منہ موڑتے ہیں اور اسی کے ہو جا تے ہیں۔کیا کریں اسکے دربارکی لذت ہی
ایسی ہے اپنے حقیقی رب کا خوف ہی نہیں رہتا ، نہ جہنم کا ڈر نہ آخرت کی فکر
، ہو بھی کیوں؟جس مزے کی طرف وہ بلاتا ہے جا نا پڑتا ہے۔وہ دلکش نظارہ نظر
آتا ہےخواہ وہ گند کا ڈھیر ہی کیوں نہ ہو۔گنا ہوں کا پلندہ ہی کیوں نہ
ہواللّٰہ کے غضب کی نیشانی ہی کیوں نہ ہو۔
بے شک انسان مجبور ہے، سہاروں کی تلاش میں ہے اور جب وہی سہارا اسے شیطان
کے دربا ر سے ملتا ہے تو وہ اس جھوٹھے سہارے کو سچا جا ن کر اپنی زندگی کو
اسکے حوالے کردیتا ہے۔ وہ جادوئی سحر وہ طلسما تی دنیا اسکے رگ رگ میں گھس
جا تی ہے اسکو مزہ اور سکون دیتی ہے ۔ وہ زہر بن کر دماغوں میں سوار ہوجاتی
ہے اور پھر آہستہ آہستہ اسکے وجود کو کھوکھلا کرنا شروع کردیتی ہے۔پھر اسکے
جسم کو پگلاتی ہے انسان کو تڑپاتی ہے اور پھر جوڑ جوڑ الگ ہونا شروع ہوتا
ہے۔یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب انسان بلکل بے بس ہوچکا ہوتا ہے۔ طاغوتی طاقتیں
اسکو مکمل طور پر اپنا غلام بناچکی ہوتی ہیں۔اب وہ شیطانی دربا ر کا اسیر
ہوچکا ہوتا ہے۔واپسی کے دروازے تو کھلے ہوتے ہیں پر انسان حقیر تنکا بن چکا
ہو تا ہے۔
پھر اسکو احساس ہوتا ہے کہ اس نے کس جھوٹھے سہارے کو اپنا سہارا سمجھ لیا
تھا ۔ وہ سکون نہیں تھا ، نہ آرام تھا بلکہ وہ تو اک عجیب و غریب سانشئہ
تھا۔شیطانی فریب تھا اک خواب تھا جو اب حقیقت بن گیا۔تیز ہوا کے جھونکے اسے
اُڑاتے ہوئے کہیں دور لے آئے۔ بس وہ اب اک حقیر تنکا ہے واپسی تو دور تو بہ
کرتے بھی زبان لڑکھڑاتی ہے۔شیطان نے اس سے خوب کھیلا اور کھیل کر سمندر کی
بے رحم موجوں کے حوالے کر دیا ۔ وہ بہتا جا رہا ہے اور اندر ہی اندر بھیگتا
چلا جارہا ہے۔شیطانی دربار میں جانے کا یہی انجام اور یہی مقدر اس کا۔۔۔! |
|