کم علمی، معاشرے کے انحطاط کا سبب

کائنات میں تمام تعریفیں صرف اﷲ ہی کیلئے ہیں جو تمام جہانوں کا خالق اور مالک ہے ، وہ واحد ہے ، لاشریک ہے ، نہ اس سے کوئی ہے اور نہ ہی وہ کسی کے باعث ہے کائنات کی ہر شے کو زوال پزیری ہے لیکن وہ ایسی ذات ہے جس کو کبھی زوال نہیں یعنی کائنات کی ہر شے کو اپنے وقت مقررہ پر فنا ہوجانا ہے جبکہ اﷲ ابتداء سے ہے اور انتہا تک رہنے والاہے ۔ کائنات میں اﷲ کی عظمت کے بعد جو ہستیاں معتبر ہیں وہ بنی ، پیغمبر اور رسول ہیں جو اﷲ کی جناب سے مبعوث ہوئے ہیں ۔ یہ مبارک ہستیاں بے داغ ہیں اور جو کچھ بھی ان کی جانب سے عوامل کئے گئے وہ رب کائنات کے حکم کے سوا کچھ نہیں تھے۔ دنیا کے توازن کو برقرار رکھنے کیلئے ایک لاکھ چوبیس ہزار کے قریب نبی، پیغمبر اور رسول لوگوں کی رہنمائی کیلئے اﷲ کی جانب سے بھیجے گئے جن کا مقام سب سے اعلیٰ و عرفیٰ ہے اور ان کا شجرہ نسب بھی کسی بھی طرح سے متنازع نہیں رہا ہے ، انہوں نے کوئی لمحہ بھی مشعیت الہی کے بغیر گزارہ اور نہ ہی کبھی اﷲ کے احکامات سے روگردانی کی ۔ جان ومال سے لیکر اہل و عیال کی قربانیاں دین تاکہ اﷲ کا نظام دینا بھر میں قائم ہوجائے ، انکی قربانیوں کو اس قدر پسند کیا گیا کہ وہ قیامت تک کیلئے رشدو ہدایت کا ذریعہ بن گیا۔ مثال کے طور پر حضرت ابراہیم ؑ کا اپنے بیٹے حضرت اسماعیل ؑ کو اﷲ کی راہ میں قربانی کیلئے پیش کردینا رب کائنات کو اس قدر پسند آیا کہ آج تک مسلمان اس کی یاد 10ذوالحجہ کو تازہ کرتے ہیں اور اس عزم کا اعادہ کرتے ہیں کہ ہماراجان اور ہمارا مال اﷲ کیلئے ہی ہے یعنی ہر بنی ، پیغمبر یا رسول نے کوئی نہ کوئی ایسا معجزہ دینا کے سامنے پیش ضرور کیا جس نے دینا میں اﷲ کی وحدانیت کا پرچار کیا ہے ۔ حضرت موسیٰ ؑ کے پاس جادو ، حضرت یوسف ؑ کے پاس خوابوں کی تعبیر اور حضرت عیسیٰ روح اﷲ ؑکے پاس صحت کا معجزہ تھا جو کسی اور کے پاس موجود نہ تھا۔ نبی آخرالزماں ﷺ کی آمد سے قبل عرب خطابت اور قصہ گوئی میں اپنا ثانی نہیں رکھتا تھا لیکن حضور ﷺ کی بنوت کے اعلان کے بعد نزول قرآن مجید نے عربوں کے بڑے بڑے خطیب گونگے کرڈالے ، گویا کہا جاسکتا ہے کہ قرآن کی تعلیمات نے علم کے وہ دروزے کھول ڈالے جن سے دنیا میں حکمرانی کی جاسکتی ہے ۔اﷲ تعالی ٰ کی جانب سے اس قبل تورات ، زبور اور انجیل بھی نازل ہوئیں لیکن لوگوں نے اپنی مرضی و منشاء کی خاطر ان میں تحریف کی جس کی وجہ سے عدم استحکام کی فضاء پیدا ہوئی ، اس کیفیت کے پیش نظررب عظیم نے قرآن کے تحفظ کی ذمہ داری خود اٹھائی ہے اور علم کے اس سرچشمہ میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی آئی ہے اور نہ ہی تاقیامت کسی تبدیلی کی توقع کی جاسکتی ہے ۔ اﷲ تعالی ٰ نے علم ہی کو دنیا کی حکمرانی کا حق دیا ہے یہی وجہ ہے کہ نبی ﷺ پر سب سے پہلی وحی بھی علم کی بڑائی کے مطابق فرائی گئی اور آپ ﷺ کو پڑھنے کا حکم دیا حالانکہ آپ ﷺپڑھے لکھے نہیں تھے ، گویا سب سے پہلے آپ ﷺکو علم سے روشناس کروایا اس کا مقصد یقینا یہی تھا کہ اﷲ تعالیٰ حضور ﷺ سے کوئی ایسا کام لینا چاہتے تھے جو دنیا کی بہتری کا باعث تھا۔ آپ ﷺ سے فرمایا گیا کہ ً پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا ، پڑھ اپنے رب کے نام سے جو بڑا کریم ہے ، جس نے انسان کو قلم سے سکھایا، جو وہ نہیں جانتا تھا ً۔ علم کے حصول کیلئے نبی مہربان ﷺ بھی بہت زیادہ تاکید کی ہے اور معیاری علم کی خاطر دشواریوں اور سفر کرنے کو عبادت سے تعبیر کیا ہے ۔ اگرتاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو علم اور تحقیق کو ہر دور میں تمام چیزوں پر فوقیت دی گئی ہے۔ اساتذہ کو قوم کا سرمایہ تسلیم کیا گیا اور ان کی تکریم والدین سے کرنے کی تاکیدکی گئی ہے ۔ قفال شاشی جو ایک ہنر مند تھاجس کا کوئی ثانی نہیں تھا اور بادشاہ کے دربارمیں اسے خاص مقام بھی حاصل تھی لیکن صاحب علم کے سامنے اس کا ہنر ماندپڑ گیا تھا جس کے باعث اس نے علم کے حصول کو اپنے ہنر پر ترجیح دی حدیث مبارکہ ﷺمیں علم کا حصول جہاد کرنے کے مترادف ہے اور طالب علم ایک مجاہد کی مانند ہوتا ہے جو تاریکی کے اندھیروں کے خاتمہ کیلئے لڑتے ہوئے اپنا کرداد ادا کرتا ہے ۔موجودہ دور بھی علم کا دور کہا جاتا ہے ۔ ہمیں یہ بات زہن نشین کرلینی چاہئے کہ ایک بہترین معلم وہ ہے جو بغیر تحقیق کوئی بات کرتا ہے ، نہ ہی اسے شاگردوں تک پہنچاتا ہے اور نہ ہی اپنے علم سے معاشرہ میں کوئی تنازع کو جنم دینے کا باعث بنتا ہے ۔ امام بخاری جو حدیث نبوی ﷺ کے ایک مستند راوی ہیں ، انہوں نے جتنی بھی روایات رقم کیں وہ مستند ہیں اور تحقیق کی چھنی سے چھن کر ہم تک پہنچی ہیں ۔ ایک بار انہیں اطلاع ملی کہ ایک دور افتادہ مقام پر کسی کے پاس نبی ﷺ کی حدیث موجود ہے ، آپ اس کی تلاش میں نکلے اور ایک طویل سفر کے بعد اس کے گھر پہنچے ، وہ گھر میں موجود نہیں تھا ، قریب کے جنگل میں مرغیوں کو دانا ڈال رہا تھا ، آپ وہاں گئے ، قبل اس کے کہ وہ حدیث کے حوالے سے بات کرتے ، امام بخاری نے اس کو شخص ایک مرغی پکڑنے کیلئے خالی جھولی پھیلائے ہوئے دیکھا تو واپسی کی راہ لی ۔ لوگوں کے استفسار پر انہوں نے بتایا کہ جو شخص جانوروں سے دھوکا کرتا ہے اس سے کسی بھی مستند بات بات کی توقع رکھنا نادانی ہے ۔پس ثابت ہوا کہ ایک بہترین معلم ہی اس مسند کا لائق ہے جس سے معاشرہ میں اقدار کی پاسداری ہوسکے ۔ ہمارا ملک عرصہ دراز سے طبقاتی نظام میں جکڑا ہوا ہے جس کی وجہ سے علم کاروبا ر کی شکل اختیار کرچکا ہے اور بجائے شخصیت سازی پورا معاشرہ زوال پذیری کا شکار ہے ، بدقسمتی سے ہم نے جس طرح ترقی کی منازل چھونے کی کوششیں تیز کردی ہیں اس سے علم ومعلم کی بے توقیری میں انتہائی حد تک اضافہ ہوا ہے ۔ عرصہ قبل ہم مسائل کے حل اور علم کے حصول کیلئے اساتذہ کا مرتبہ و مقام سمجھتے تھے ، عزت کرتے تھے ، انکی محفلوں میں بیٹھنا باعث سعادت اور انہیں اپنی محفلوں میں شرکت کو اعزاز سمجھتے تھے لیکن اب تو شاید ہم ان کی عزت کرنا ہی بھول گئے ہیں ، وہ جن سے ملنے ، بات کرنے کیلئے قطاریں لگاتے تھے اب انہیں کبھی آن لائن کردیا ہے اور کبھی آن ائر کردیا ہے ، ساتھ ہی ایک اور المیہ نے جنم لے لیا ہے کہ اب کم علم افراد اپنی دیگر خوبیوں کے باعث خود کو عالم سمجھنے لگے ہیں ۔ماہ رمضان ایسا مہینہ ہے جس میں مسلمانوں کا ایمانی جذبہ عام دنوں کی نسبت بہت زیادہ ہوتا ہے ، ان دنوں میڈیا پر بہت سے کم علم لوگ عالم بن کر سامنے آجاتے ہیں اور مسلمانوں کی بجائے رہنمائی کے انہیں غیر مستند معلومات کے ساتھ ساتھ کھیل تماشوں میں مصروف کردیتے ہیں ۔تبلیغ دین تمام مسلمانوں کا جزو ایمانی ہے جس کیلئے دینا بھر کی طرح پاکستان میں بھی کئی مذہبی جماعتیں اور مختلف مکاتب فکر کام کررہے ہیں اور بہت حد تک معاشرے کو اسلامی شرع کی جانب ترغیب میں کامیاب بھی ہورہی ہیں ، ان جماعتوں میں قابل ذکرتبلیغی جماعت ہے جو تمام تر سیاسی اختلافات سے بالاتر ہوکر دنیا بھر میں عمومی جبکہ ملک بھر میں بالخصوص اپنا حلقہ اثر رکھتی ہے ۔ اس جماعت نے جہاں عام افراد کی دینی معاملات میں رہنمائی اور تربیت کی ہے وہیں بعض اہم شخصیات پر بھی دین مبین کی خصوصیات کو آشکار کیا ہے جس نے انکی زندگی کو یکسر بدل دیا ہے لیکن سب سے اہم خوبی اس جماعت کی یہ ہے کہ اس نے کبھی بھی اپنے کسی فرد کو مسائل پر گفتگو کرنے کی اس وقت تک اجازت نہیں دی جب تک کہ اس کا معیار دینی تقاضوں کے مطابق نہ ہوجائے ، تبلیغی جماعت کا یہ شعار ہے کہ اس کا ہر فرد بنیادی طور پر طالب علم ہے اور مسائل پر بات چیت کرنے کا حق سوائے عالم کے کسی اور غیر مستند فردکو نہیں ، یہی وجہ ہے کہ جب تبلیغی جماعت کے افراد اپنی دعوتی مہم پر جاتے ہیں تو ان کا امیر صاحب علم ہوتا ہے جو نہ صرف قافلہ کی رہنمائی کرتا ہے بلکہ دوران تبلیغ لوگوں کے دینی مسائل پر مفید و مستند معلومات فراہم کرتاہے ۔

مسلمانوں کیلئے کی ہدایت کیلئے نبی کریم ﷺنے اپنے بعددو اہم اورمضبوط ذرائع چھوڑے ہیں جن سے رہنمائی حاصل کرکے مسائل کا حل اور ممکن ہے ۔ نبی ﷺ نے فرمایا کہ ً میں تمہاری ہدایت کیلئے دو چیزیں چھوڑکر جارہاہوں ، ایک کتا ب ( قرآن مجید) دوسری اہل بیت ۔ ً قرآن جو سرچشمہ ہدایت ہے اور اس کے سمجھنے کیلئے اہل بیت کے علاوہ اور کوئی بہتر ذریعہ ہے ہی نہیں جو مسلمانوں کی درست رہنمائی کرسکتا ہے ۔ نبی مہربان ﷺ کے وصال کے بعد مسلمان اپنے مسائل کے حل کیلئے اہل بیت یعنی آل نبی ﷺ یا امہات المومنین ؓ سے رابطہ کرتے تھے جہاں سے انہیں مکمل تشفی حاصل ہوتی تھی۔

جنید جمشید جو کسی زمانہ میں ملک کے ایک معروف گلوکار کی حیثیت سے جانے جاتے تھے لیکن عرصہ ہوا وہ اس پیشہ سے تائب ہوکر تبلیغ دین کے قافلہ کا حصہ بن چکے ہیں البتہ میڈیا پر مقبولیت کے باعث وہ کسی نہ کسی طرح اب بھی میڈیا پرسینیلٹی ہیں ۔ ان کی عمر ، تعلیم اور تبلیغ کیلئے دیا گیا وقت اس بات کی انہیں قطعی اجازت نہیں دیتا کہ وہ کسی بھی طرح ایک عالم کی حیثیت سے کہیں کوئی لیکچر دیں یا کوئی درس دینے کیلئے کھڑے ہوجائیں کیونکہ تبلیغی جماعت کے قواعد کے خلاف ہے ۔ وہ کم علم ہیں اس کا انہیں قطعی اندازہ نہیں ورنہ جس طرح انہوں نے چند روز قبل ایک نجی ٹی وی چینل کے پرگرام میں انہوں غیر محتاط رویہ اختیار کیا وہ قابل مذمت سے قابل سزا بن گیا ہے گویا ایک طرح سے اہل اسلام پر خود کش حملہ ہے جس کی آج تک کسی بڑے سے بڑے عالم نے بھی جرات کی ہے اور نہ ہی حاضرین نے ایسا انداز اپنایا ہے ۔ پرگرام میں جس طرح کے الفاظ استعمال کئے گئے اور جو کچھ کہا گیا ہے وہ کسی بھی غیرت مند مسلمان کیلئے قابل برداشت نہیں ۔ اہل بیت ہمارے سب سے زیادہ محترم ہیں اور امہات المومینین جن پر ہماری زندگیاں نچھاور ہیں ان کی گستاخی کسے برداشت ہوسکتی ہے ۔ اسی حوالے سے چند ماہ پہلے ایک ممتاز میڈیا چینل میں صبح کے پروگرام سے بھی غیر محتاط رویہ اختیار کیا گیا جس سے اہل ایمان آج تک معذرت کے باوجود سراپااحتجاج ہیں اور پروگرام کی میزبان،اس کے مہمانوں سمیت چینل کے مالک کیخلاف ملک کی کئی عدالتوں میں مقدمات زیرسماعت ہیں ۔ اب ایکبار پھر ایسی حرکت ہوجانا اس بات کی غمازی ہے کہ ملک میں کوئی اپنے مذہب سے سنجیدہ نہیں ہے ورنہ تسلسل سے اس طرح کے واقعات ہونا کسی بڑے خطرے کی نشاندہی ہے ۔

ہم ایک شے سے زمانہ ہوا نابلد ہوگئے ہیں کہ اب میڈیا جس طرح سے بے لگام ہوگیا ہے اس کی جانب اہل علم توجہ نہیں دے رہے۔ اخبارات میں باقاعدہ ایڈیٹر نہیں جو خبروں میں شر انگیزی یا غلط تاثر کو جانے سے روک سکے، ٹی وی چینلز میں بریکنگ نیوز نے ہیجان کو کم کرنے کیلئے اور مذہبی جذبات کو بڑکانے والے پروگرامات کو سنسر کرے گوکہ اس سے بولنے والے کو سزا تو نہیں مل سکتی البتہ یہ ضرور ممکن ہے کہ معاشرہ میں غلط معلومات یا غیر محتاط رویوں کی روک تھا ہوسکتی ہے ۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ یہ اقدام کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ ہمارے میڈیا پر سیکیولر اور لبرل قوتوں کی اجارہ داری ہے جو اس جانب کوئی اقدام تو کجا توجہ دینے سے بھی منع کرتی ہیں ۔ ظاہری طور پر تو ان کا کہنا ہے کہ اس طرح سے آزادی اظہار پر قدغن لگتی ہے لیکن پس پردہ ان کے مقاصد یہی ہیں کہ اسلامی ملک میں مسلمان آپس میں دست و گریبان رہیں اور وہ اپنی حکمرانی قائم رکھیں
ٍ--
Mujahid Hussain
About the Author: Mujahid Hussain Read More Articles by Mujahid Hussain: 60 Articles with 49119 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.