شائد یہی زندگی ہے

زندگی کیا ہے؟ مختلف شعبہ ہاۓ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد ، حیات کی مختلف انداز میں تعریف کرتے ہیں - بیالوجی سائنس کا وہ علم ہے جو زندگی یعنی حیات سے متعلق ہے اسے حیاتیات بھی کہتے ہیں اور بیالوجی کے نقطہ نظر سے زندگی، حیوی vital مظاہر کے ایک جسم میں جمع ہوجانے کا نام ہے۔ اور چونکہ تمام جانداروں کی بنیادی اکائی خلیہ ہوتی ہے لہذا یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ وہ تمام افعال جو کہ ایک خلیہ انجام دیتا ہے ، ملکر حـیـات کہلاتے ہیں۔ بات کو مزید گہرائی میں لے جایا جاۓ تو حیاتی کیمیاء یہ بتاتی ہے کہ تمام خلیات بھی مزید چھوٹے سالمات یا molecules سے ملکر بنتے ہیں جو کہ ایک خاص ترتیب میں آجائیں تو وہ افعال انجام دیتے ہیں- سادہ الفاظ میں یوں کہ سکتے ہیں کہ کوئی جسم جو کہ روزمرہ زندگی کے ایسے افعال انجام دیتا ہے کہ جو وہ اجسام جنکو غیرجاندار کہا جاتا ہے انجام نہیں دے سکتے ، مثلا حرکت، غذا کھانا ، اپنی نسل پیدا کرنا ، نشونما وغیرہ ، تو وہ زندہ کہلاتا ہے۔

مابعدالطبیعیات یا metaphysics میں زندگی کی تعریف یوں کی جاتی ہے کہ ؛ حیات، دراصل عمل اخصاب fertilization سے کسی جسم میں پڑنے والی روح کے واقع ہونے سے لیکر موت پر اس روح کے اس جسم سے نکل جانے تک کا وقفہ ہوتا ہے۔ اخصاب ، نر اور مادہ کے تولیدی خلیات کے ملاپ کو کہا جاتا ہے۔
زندگی بنیادی طور پر جوہروں (باالفاظ دیگر عناصر) سے ملکر بنی ہے اور یہ بات عیاں ہے کہ مٹی یعنی گِل اور پانی ، خواہ وہ سمندر میں ہو ، پہاڑوں پر یا خشکی پر تمام عناصر اسی میں پاۓ جاتے ہیں (گو انکا تناسب مختلف جگہوں پر مختلف ہوسکتا ہے)۔ اور مٹی اور پانی میں ان عناصر یا جوہروں کی موجودگی ، مٹی کو اس قابل بناتی ہے کہ اگر مناسب حالات مہیا کیۓ جائیں تو اس سے نیکلیوٹائیڈ اور RNA کی تخلیق کے عمل کو تحریک کیا جاسکتا ہے -قرآن میں متعدد آیات میں زندگی کی بناوٹ میں مٹی اور پانی کے شامل ہونے کا ذکر وضاحت سے آیا ہے -

هُوَ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن طِينٍ ثُمَّ قَضَى أَجَلاً وَأَجَلٌ مُّسمًّى عِندَهُ ثُمَّ أَنتُمْ تَمْتَرُونَ- وہی تو ہے جس نے پیدا کیا تم کو مٹی سے پھر مقرر کردی (زندگی کی) ایک مدت اور ایک (دوسری) مدت (قیامت) اور بھی ہے جو مقرر ہے اللہ کے نزدیک اسکے باوجود تم شک میں مبتلا ہو-

آسان الفاظ میں روح اور جسم کے ناطے کو زندگی کہتے ہیں جسم تو مٹی اور پانی سے بنا مگر روح کیا ہے ؟ ھذا امر ربی ، رب کا حکم اور امر ہے -

کبھی سب کچھ پاکر بھی انسان خوشی کو ترستا ہے - خوشی کا ناطہ صرف روح سے جڑا ہے خاک کے پتلے جسم سے نہیں، تمام آسائش ہونے کے باوجود انسان خوشی کا اصل چہرہ نہیں دیکھ پاتا - کچھ کمی محسوس کرتا ہے اس کمی کو کھوجنے کی کوشیش کرتا ہے - مگر کھوج نہیں پاتا ، شائد یہی زندگی ہے ۔

ایسے میں انسان روح اور جسم کا ناطہ تو برقرار رکھتا ہے لیکن حقیقی زندگی کا لمس نہیں پاتا ، زندگی کو صرف جھیلا جاتا ہے ، برتا نہیں جاتا - زندگی کبھی تو مجبوری کی زنجیروں میں جکڑی ہوتی ہے اور کبھی خود یہ زنجیریں شوق سے پہن لیتے ہیں - وطن عزیز میں تو زندگی اتنی ارازاں ہے کہ دن رآت لوگ کسی نہ کسی مجبوری کی زنجیر کو گلے کا پھندہ بناکر کسی نہ کسی بہانے موت کے منہ میں دھکیلے جاتے ہیں - لیکن کبھی کبھی بعض لوگ موت کی کنڈی کھڑکا کر وآپس لوٹ آتے ہیں ، دوست احباب خوشی مناتے ہیں اور شکر بجا لاتے ہیں کہ الله کا شکر ہے بچ گیا ۔ مگر موت دور کھڑی مسکراتی ہے کہ بچ بچ کر مرو گے ۔ کبھی تو زندگی بڑے بڑے طوفانوں کا رخ موڑ دیتی ہے اور کبھی زندگی کی کشتی بیچ منجدھار کے ڈوب جاتی ہے ۔ کبھی انسان بند گلی سے رستہ نکال لیتا ہے کبھی لق ودق صحرا اور کھلے میدان میں محصور ہوجاتا ہے۔ کبھی بپھری ہوئی لہروں کے مخالف سینہ سپر ہوجاتا ہے تو کبھی ٹہرے ہوئے پانی میں ڈوب جاتا ہے ۔
جب ساری راہیں مسدود ہوجاتی ہیں تو کوئی ان دیکھی طاقت انگلی تھام کر نئی راہوں پر ڈال دیتی ہے زندگی زخم دیتی ہے تو مرحم کا ساماں بھی کرہی لیتی ہے ۔ سب سے بڑا مرحم و دوا وقت ہے جو سارے زخم مندمل کرکے زندگی کو دوبارہ پٹڑی پہ ڈال دیتا ہے - مگر کچھ زخم وقت بھی نہیں بھر سکتا اور جو ہمیشہ رستے رہتے ہیں - شائد اسی کا نام زندگی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زندگی کے وہ زخم جنھیں وقت کا مرحم بھی نہیں بھر سکتا جب دوا کارگر نہیں ہوتی تو دعا ڈھارس دینے آجاتی ہے سر سجدے میں ہوتا ہے انگ انگ کو قوت گویائی ملتی ہے آنکھوں سے سیلاب امڈ آتا ہے اور انسان روح اور جسم کا ناطہ جوڑ کر زندگی کو وجود بخشنے والے رب العالمین کو پکارتا ہے - پھر گر قبولیت کی گھڑی آجائے تو بڑے سے بڑے زخم پر صبر کا مرحم لگ جاتا ہے ، زندگی کا مسئلہ فیثاغورث منٹوں میں حل ہوتا ہوا نظر آتا ہے اور سب سے بڑھ کر جہاں عقل انسانی عاجز آکر ہاتھ کھڑے کردے جواب دے جائے ، زندگی ریت بن کر ہاتھوں سے سرکنے لگے تو وہاں الله اپنی رحمت کی چادر تان کر اپنی شفقت کے سائے تلے زندگی کی نئی راہیں بچھا بھی دیتا ہے اور سجھا بھی دیتا ہے ۔
ہم تو مائل با کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے کوئی راہرو منزل ہی نہیں

یہ زندگی آخر ہے کیا ؟ دکھ اور سکھ کے مکسچر کا نام زندگی ہے - دکھ کو ہم اس مکسچر سے کیسے جدا کرسکتے ہیں ؟ سائنس پانی H2O سے آکسیجن اور ہائیڈروجن کو تو جدا کرسکتی ہے مگر زندگی کے دکھ اور سکھ کے combination کو توڑ کر دکھ اور سکھ کو الگ الگ نہیں کرسکتی ۔ زندگی دکھوں سے نبٹنے کا ہی تو نام ہے ۔ اس وقت تک زندگی کو گلے سے لگائے رکھو جب تک فرشتئہ اجل اسے تم سے لینے نہ آجائے ۔ شائد یہی زندگی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟؟؟؟؟؟

Usman Ahsan
About the Author: Usman Ahsan Read More Articles by Usman Ahsan: 140 Articles with 173216 views System analyst, writer. .. View More