یہ جو ز ند گی ہمیں بڑی خو بصو
رت دکھا ئی دیتی ہے جس کیلئے ہم ساری صو بتیں اٹھا تے ہیں بس اس ظا ہری تما
شے کو حق جان لیتے ہیں اس کی کوئی حقیقت نہیں میرے سا منے عز یز احمد رضوی
کے البم کی خو بصورت یا دیں بکھری پڑی ہیں وہ واقعی سب کا عز یز تھا پکا ر
نے والے نے اسے نہ جا نے عز یز آ خری بار کب پکا را البتہ میری آ خری ملا
قا ت عید قر بان کے دو سرے دن اس درویش سے جیل کے سا منے ہو ئی تھی وہ اپنی
سما جی خد مت میں مشعول تھے ہم دو نوں ہی قر با نی کا گو شت تقسیم کر نے
گھر سے نکلے تھے فر ق یہ تھاکہ میں رسم دنیا نبھا رہا تھا وہ قید یوں میں
گو شت تقسیم کر نے آئے تھے انسان د نیا میں ر ہنے کیلئے نہیں بلکہ وا پس جا
نے کیلئے آ تا ہے اس سے کسی کو نجا ت نہیں ارشاد ربا نی ہے ـــ’’آ خر کا ر
ہر شخص کو مر نا ہے اور تم سب ا پنے اپنے پو رے اجر قیا مت کے روز پا نے
والے ہو ۔کا میاب درا صل وہ ہے جو وہاں آ تش دوزخ سے بچ جا ئے اور جنت میں
دا خل کر دیا جائے رہی دنیا تو یہ محض ایک ظا ہر ی فر یب کی چیز ہے ‘‘(آل
عمران)یہ بات کا فی حد تک درست ہے کہ انسان اپنے علم و ہنر سے پہچا نا جا
تا ہے مگر میرے نز دیک انسان کی شنا خت کا بنیا دی حوالہ اس کا علم و فن
نہیں بلکہ اخلا ق اور کر دار ہے انسان کی حقیقی عظمت کا تعین اس کے معا
ملات ،طور طر یقے اور ز ند گی کی خا رجی کیفیتوں اور عملی مظا ہرے سے ہو تا
ہے۔ عز یز احمد رضوی علم اور اخلاق دو نوں میں یکسان تھے انہوں نے اپنے
اخلاق سے وہ وہ کام لیا جو محض درس گا ہوں سے کبھی بھی نہیں لیا جا سکتا
تھا رضوی مر حوم کے بیسیوں حوا لے ہو سکتے ہیں وہ ایک بہتر ین دوست ،محبت
کر نے والے بھا ئی فرما بر دار اولاد ،کینہ مشق صحا فی اور دکھی انسا نیت
کی خد مت کا عبد الستار اید ھی وہ جہاں بھی کھڑے تھے اپنے بلند اخلاق کی
بنیاد پر ہی پہچا نے جا تے تھے ۔عز یز احمد رضوی کیلئے کو ئی کون ہے یہ اہم
نہیں تھا بلکہ یہ اہم تھا کہ اپنے لو گوں تک پہنچاکیسے جائے ۔حکمت اور
مصلحت ان کی میراث تھی ان کا تعلق ایک دین دار گھرا نے سے تھا لیکن انہوں
نے دین کو صرف عبا دات میں محصور نہیں کیا بلکہ معا ملات کو بھی عبا دات کا
ہم پلہ بنا یا ہما رے ہاں یہ عنصر دین دار گھرا نوں میں کا فی غا لب رہتا
ہے کہ اپنے آپ کو حقوق اﷲ تک محدود کر دیا جا تا ہے حقوق العباد یعنی معا
ملات اور اخلاق جیسے کو ئی دین سے با ہر کی چیز ہو لیکن عز یز احمد رضوی
خدمت کی اعلی مثال تھے۔راولا کوٹ کے چوک اور چورائے اس با ت کے گواہ ہیں کہ
وہ ہمیشہ حق سچ،خد مت،عظمت اور محنت کے سا تھ کھڑے رہے ہما رے ہاں شا ہد
کسی کو یاد رکھنے کے پیما نے مختلف ہوں کسی کو قدر کی نگاہ سے دیکھنے کا
معیار بھی مختلف ہولیکن لو گ غیر شعوری طور پر با اخلاق انسان کے اسیر بن
جا تے ہیں ۔بس عز یز احمد رضوی کو آپ جس طور پر خراج عقید ت پیش کر یں کر
سکتے ہیں لیکن ان کا اخلاق اور حسن سلوک ہمیں زندگی بھر انکا قصیدہ خواہ
بنائے رکھے گا۔موت ایک اٹل حقیقت ہے ہمیں اس سے انکارنہیں لیکن میں عزیز
رضوی کی موت کو ایک حادثہ نہیں بلکہ قتل سمجھتاہوں جس کی ذمہ دار ضلعی
انتظامیہ ہے انتظامیہ اپنے شہریوں کی مشکلات دور کرنے میں ہمیشہ ناکام رہی
میں خود پاکستان اس پریشانی سے کئی بار گزرا سڑک کے دونوں اطراف
بجری،پتھراورریت اس کی وجہ سے کئی حادثے میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے آ پ
بھلے احتجاج کرتے رہیں چیخ چیخ کر پکارتے رہیں آپ کی سننے والا کوئی نہیں
سرکار کی سڑکیں ،پل،کالج،یونیورسٹیاں کبھی ہمیں مکمل حالت میں نہیں ملی
لیکن ہمارے کئی عزیز رضوی ان کی نذر ہو چکے مجھے ساتھی بتا رہے تھے کہ صرف
شہر راولاکوٹ میں ہی گزشتہ کچھ عرصے میں اسی طرح کے حادثات سے دس کے زاہد
اموات ہو چکی لیکن اس پر نہ ضلعی انتظامیہ نے نوٹس لیا نہ محکمہ شاہرات
حرکت میں آئی اور نہ ہی ٹریفک کے افسران کو اثر ہوا جوہماری جان ومال کے
محافظ ہیں ان سے تو شہر کی بے جان سڑکیں نہیں سمبھالی جاتی جن پر ر وز ان
کی گاڑیاں ہنٹر بجاتی گزرتی ہیں وہ ہماری کیا حفاظت کریں گے ۔موت جب کسی
اپنے پیا رے کو لے جا تی ہے تو ایک مو قع بھی فراہم کر تی ہے کہ جہاں ہم جا
نے والے کے کردار اور اس کی اچھا ئیوں پر بات کر یں وہا ں اپنی ذات کا بھی
جا ئزہ لیں ہمارے در میان بد مز گیاں اور نا اتفا قیاں اس لئے پیدا ہو چکی
ہیں کہ ہم دیکھ اور برداشت کرکے فارمولے پر عمل کر رہے ہیں ہما رے اپنے ہی
لوگ ایک دوسرے کی اصلاح کے بجا ئے ایک دوسرے کے خلاف ہو چکے یہ و ہی لو گ
ہیں جو با علم ہو نے کا دعوی کر تے ہیں ان سے یہ بات ڈھکی چھپی تو نہیں کہ
دل علم سے نہیں اخلاق سے جیتے جا تے ہیں مگر یہاں اخلاق ہی نہیں تو دل کیسے
جیتے جا ئیں بڑے درد اور اضطراب کی بات ہے کہ ہمارا وہ طبقہ جو مذہبی
کہلاتا ہے جس دین کے حوا لے دے کر بات کر تا ہے وہ عملا ان کی زند گیوں میں
نا فذ نہیں ۔اسلام دینی عبا دتوں سے زیا دہ معا ملات اور اخلاق سے پھیلا ہے
ہم اپنی مذ ہبی پستی میں گرے جا رہے ہیں ہمیں بہترین ز ندگی گزا رنے کے جو
اصول ،تہذ یبی اقدار،اخلا قی روایات،بہترین متوا زن نظام آپ صلی اﷲ علیہ
وسلم نے تعمیر کر کے دکھا یا ۔آپ صلی اﷲ علیہ وسلم غر یبوں کی اعا نت کر تے
تھے حق اور سچ کے حا می تھے مصا ئب میں لو گوں کی مدد کر تے تھے بڑے ہی
فیاض اور اپنے اخلاق اور اعمال میں بڑے پختہ اور مستحکم تھے لیکن ہم نے
کونسا دین اور کون سے اصول اپنا رکھے ہیں ۔آج ہماری محبت اپنے گرد ہی گھو
متی ہے عز یز احمد رضوی اور نہ جانے کتنے خو بصورت لوگ اٹھتے بیٹھتے ہمارے
درمیان سے غا ئب ہو گے لیکن ہم نے ان کی موت سے بھی کو ئی سبق نہیں سیکھا
کسی مفکر نے کہا تھا کہ بڑا آدمی وہ نہیں کہ جس کے پاس چھو ٹا یا اس سے کم
ترسطح کا انسان پہنچ جائے تو وہ ان سے تحفظات کے ساتھ گفتگو کرے اس کا رویہ
اسے ما یوسی اور احساس کمتری کے عمیق غار میں دھکیل دے بلکہ بڑا آدمی وہ ہے
جس سے ملنے والے کو اپنی ذات کا عر فان حا صل ہو اور وہ اس کے اخلاق و کر
دار کی ڈورمیں مضبو طی سے بندھ جا ئے ۔عز یز احمد رضوی اخلاق کی ایسی ہی
معراج پر فا ئز تھے کہ ان سے جو بھی ملا بس انہی کا ہو کر رہ گیا عز یز
احمد رضوی کی یوں اچا نک جد ائی نے جہاں انکے گھر والوں پر صدمات کا ایک طو
فان گرایاوہاں ان کے دوستوں اوررشتے داروں کو بھی دکھی کر دیا اﷲ سب کو صبر
عطا کرے اﷲ انکے درجات بلند کرے پتہ نہیں ہمارے لئے کو ئی دعا خیر کرے گا
بھی کہ نہیں کو ئی چار لوگ کندھا دینے والے ہوں گے بھی کہ نہیں اور ہمیں
کفن اور اپنی مٹی میں دفن ہو نا نصیب ہو گا بھی کہ نہیں عز یز احمد رضوی آپ
خوش نصیب تھے آپ جتنا جیے لو گوں نے آپ کو اپنے درمیان اچھا ہی پایاآپ 21دن
تک موت سے لڑتے رہے آپ کے دوست آپ کے لیے دعائیں بھی کرتے رہے اور آ نسوبھی
بہا تے رہے آپ کو چار کند ھا دینے والے بھی مو جود تھے اخبا رات اور شو شل
میڈیا آپ کے تعز یتی پیغا مات سے بھرا پڑا ہے اور سب سے بڑھ کرآپ کا ہر چا
ہنے والا اپنی عقیدت کی جبیں آپ کیلئے خم کیے ہو ئے ہے اور یہ اعزازکسی کسی
کو نصیب ہو تا ہے کہ زندگی اس پر رشک کرے اور موت بھی پوچھے کون مرا۔۔۔۔ــ |