امام احمد رضاؔ اور گناہِ بے گناہی

جب کسی کے لیے دل میں بغض و عداوت ہو تو اس کی ہر بات میں عیب نظر آتا ہے۔ نظروں کا کھیل ہے۔نظریں بدلتی ہیں تو نظارے بھی بدل جاتے ہیں۔پھر وہ بھی سُنائی دیتا ہے جو نہیں کہا گیا۔ وہ بھی دکھائی دیتاہے جو نہیں کیا گیا۔ جب یہ کیفیت ہو جاتی ہے تو وہ بھی کہا جاتا ہے جس کا وجود نہیں۔ بے سَر و پا اعتراضات کیے جاتے ہیں۔الزام تراشیاں کی جاتی ہیں۔بہتان بھی لگتے ہیں اور باطل پروپیگنڈے بھی کیے جاتے ہیں۔

امام احمد ضاؔ محدث بریلوی علیہ الرحمہ کے خلاف بھی ایسا ہی ہوا۔طرح طرح کے الزامات لگائے گئے۔ ان کے مخالفین کے ذریعے ان کی دینی و علمی،سماجی و سیاسی، معاشی و تعلیمی اور ادبی و اصلاحی خدمات کو مسخ کرکے پیش کیا گیا۔ اَن کہی باتوں کو اُن سے منسوب کیا گیا۔ وہ جو نہیں تھے انہیں وہی بنا کر پیش کیا۔ عوام و خواص کے فکر و خیال میں ان کی غلط شبیہ بنائی گئی……مگریہ قانونِ فطرت ہے کہ خزاں کے بعد بہار اور تاریکی کے بعد اُجالا پھیلتا ہے تو موسم خوش گوار ہوجاتا ہے۔ حق و صداقت کی کرنوں نے پروپیگنڈے کے سینے چیر کر اپنے وجود کا لوہا منوایا اور اس طرح کہ آج تک ان کرنوں کی تابانی سے اہلِ علم و فکر کے قلوب و اذہان منور و مجلیٰ ہیں۔ اور یہ اجالا پھیلتا ہی چلا جارہا ہے۔

امام موصوف کی حیات میں اور بعد از وصال جو پروپیگنڈے کیے گئے اور کئے جارہے ہیں وہ علم و تحقیق اور مطالعہ و مشاہدہ کے بعد تارِ عنکبوت کی طرح بکھرتے جارہے ہیں اور تعصب و تنگ نظری کے مذموم قلعے مسمار ہوئے جاتے ہیں۔منصف مزاج افراد نے جب امام موصوف کی کتب کا مطالعہ کیا تو وہ ان ہی ہوکر رہ گئے۔ حق آشنائی کے بعد اہلِ علم و انصاف نے اس بات کا برملا اعتراف کیاکہ امام موصوف کے خلاف جو پروپیگنڈے کیے جاتے ہیں ان کی کوئی حیثیت اور حقیقت نہیں بلکہ بدعات و خرافات کا رد اپنے دور میں سب سے زیادہ اسی امامِ وقت نے کیاہے۔ آپ نے ایک ایک معاشرتی بُرائی اور فکری آوارگی کے خلاف لکھا۔فتاوے اور مستقل تصانیف کے ذریعے قلمی جہاد کیا۔’’الزبدۃ الزکیۃ‘‘ لکھی ، غیرِ خدا کے سجدۂ عبادت کو کفر اورسجدۂ تعظیمی کی حرمت ثابت کی۔ ’’جلی الصوت‘‘ میں ہندوانہ دعوتِ میّت کا رد کیاجو مسلم معاشرے میں جڑ پکڑ چکی تھی۔’’ہادی الناس‘‘ میں شادی کی غلط رسومات کی نشان دہی کی اور اسلامی راہ بتائی۔ ’’ جُمَل النور‘‘ میں عورتو ں کو مزارات پر حاضری سے روکا۔’’مروج النجا‘‘ میں اسلامی پردہ کی اہمیت کو اجاگر کیا اورعفت و ناموس کی حفاظت کا اسلامی نظریہ واضح کیا۔’’تدبیر فلاح و نجات و اصلاح‘‘ لکھ کر مسلمانوں کی معاشی و اقصادی آسودگی کے لیے آج سے تقریباً ایک صدی قبل چار نکاتی منصوبہ پیش کیا اور اسلامی بینکاری کا نظریہ سب سے پہلے پیش کیا۔ ’’عطایا القدیر فی حکم التصویر‘‘ میں جاندار کی تصویر سازی کی حرمت پر دلائل و براہین کے انبار لگادیے نیز بزرگانِ دین و پیرانِ کرام کی تصویروں کو عقیدتاً رکھنے کو عقیدے کی تباہی کی طرف پیش قدمی بتایا۔محرم الحرام میں رائج ہوجانے والی بدعات و خرافات کے رد میں ’’اعالی الافادۃ‘‘ کے نام سے رسالہ لکھا۔جاہل اور خام صوفیوں کی خام خیالی و مکاری و عیاری کا ردّ ’’مقالِ عرفاء‘‘ میں کیانیزشریعت اور طریقت کو لازم و ملزوم بتایا۔اسی طرح ’’نقاء السلافہ‘‘ میں بیعت و خلافت کے احکام بیان کیے۔ ’’ازکی الاھلال‘‘ میں ثبوتِ ہلال یعنی چاند کے ثبوت کی غلطیاں واضح کیں اور’’طرق اثبات الہلال‘‘ اور ’’البدروالاجلہ‘‘ میں رویتِ ہلال کے طریقے اور مسائل کتبِ فقہ کے حوالے سے بیان کیے۔’’انوارالبشارۃ‘‘ میں حج و زیارت کے مسائل تحریر کیے نیز مکۂ مکرمہ کے مفتیِ شافعیہ شیخ حسین بن صالح جمل اللیل شافعی نے اپنی تصنیف جو مذہبِ شافعی کے مطابق مسائلِ حج پر مشتمل عربی قصیدہ بنام ’’الجوہرۃ المضیۃ‘‘ کی شرح لکھنے کی فرمائش کی تو آپ نے’’النیرۃالوضیۃ‘‘کے نام سے شرح لکھی اور بعد میں اسی پر ’’ الطرۃ الرضیۃ‘‘ کے نام سے حاشیہ بھی لکھا جس میں عربی قصیدہ کا ترجمہ و شرح کے ساتھ ساتھ فقہ حنفی کے مسائل کی بھی وضاحت کردی۔’’السوء والعقاب‘‘، ’’قہرالدیان‘‘، ’’ الجرازالدیانی‘‘ اور’’ المبین‘‘نام سے مستقل چار کتابیں مرزا قادیانی کے رد میں لکھیں اسی طرح ایک اور تصنیف عقیدۂ ختمِ نبوت سے متعلق ’’جزاء اللّٰہ عدوہ باباۂٖ ختم النبوۃ‘‘ تحریر فرمائی اور مدعیانِ نبوت و حامیانِ امکانِ نبوت کا ردِ بلیغ کیا۔ ’’غایۃالتحقیق‘‘ میں افضلیتِ سیدنا صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ پر احادیث جمع کرکے تفضیلیت کا قلع قمع کیا۔اسی طرح سیاسی میدان میں مسلمانوں کی رہنمائی کی اور ترک موالات اور تحریکِ خلافت کے مضر نتائج اور دینی خسارے نیز مشرکینِ ہند کے شرور سے محفوظ رکھنے کے لیے ’’المحجۃالمؤتمنۃ‘‘ لکھی……

ان کے علاوہ دیگر دینی و علمی، سائنسی و تعلیمی، سماجی و سیاسی، معاشی و معاشرتی اور اعتقادی و عملی ہر شعبہ ہائے حیات سے متعلق عنوان پر ایک ہزار کے قریب کتب و رسائل لکھے۔ہزاروں فتاوے تحریر فرمائے۔ جو شائع ہوتے رہتے ہیں۔بہت ساری تصانیف اردو، عربی اورانگلش میں مسلسل شائع ہو رہی ہیں۔ مگر افسوس صد افسوس! بُرا ہو تعصب و عناد کا! کہ اس عبقری امام کی مخلصانہ کوششوں اور خدمات کو محض مسلکی عناد کی بناء پر عوام کے سامنے نہیں آنے دیا جاتا۔ غلط پروپیگنڈوں کے ذریعے ان کی شخصیت کو مسخ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔اور عوام بھی ان سُنی سُنائی باتوں کو سچ سمجھنے لگتے ہیں جب کہ کسی بھی شخصیت پر رائے قائم کرنے سے پہلے دیانت داری اور غیر جانب داری کا تقاضہ یہ ہے کہ اس کے خلاف لکھی اور کہی جانے والی باتوں پر بغیر تحقیق ایمان لانے کی بجائے براہِ راست اس کی شخصیت اور تحریر کا مطالعہ کیا جائے۔اور حقائق جاننے کی جستجو کی جائے۔ اﷲ کریم قبولِ حق کا جذبۂ صادق عطا فرمائے۔ آمین! بجاہٖ سید المرسلین علیہ افضل الصلوٰۃ و اکمل التسلیم!
Waseem Ahmad Razvi
About the Author: Waseem Ahmad Razvi Read More Articles by Waseem Ahmad Razvi: 86 Articles with 134746 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.