پشاور پھر لہو لہو

 قلم ٹوٹ گیا،بستہ چھن گیا، کتاب جل گئی قوم کے مستقبل کا سینا گولیوں سے چھلنی ہوگیا۔ اے خدا یہ کیسی قیامت ہے، میری ماں نے تو مجھے سکول بھیجا تھا، اُس کی نم آنکھیں میری راہ تھک رہی ہونگی، اُس کی خالی آغوش میری آمد کی منتظر ہے۔ یا خدایا میں تو اپنی ماں کی نرم گداز ممتا کی چادر میں لپٹنے کے لئے بےتاب تھا یہ میں کہاں اندھیری کوٹھڑی کی ٹھنڈے فرش پر تنہائی میں لٹا دیا گیا ہوں؟

پشاور کی فضاء میں ایک عجیب سا ماتم ہے، چار سوایک جان لیوا خاموشی ہے گویا یہاں کبھی زندگی تھی ہی نہیں، لوگوں کی آمد و رفت تو ہے مگر چہل پہل نہیں ہے، ایک عجیب سی بے یقینی کا ماحول بنا ہوا ہے اور کیوں نہ ہو جب ایک ہی شہر میں ایک ہی وقت میں ایک سو بتیس ماؤں کی گودیں اُجڑجائیں، ایک سو بیالیس گھروں سے جنازے نکلیں، دوسو سے زیادہ پھول سکول کی ڈیسک کے بجائے ہسپتال کے بستر پر موت و زندگی کے کشمکش میں ہوں، جب ایک ہی دن کے چند گھنٹوں میں شہر کی فضاء بارود کی بو سے بوجھل ہوجائے، سڑکوں پر صرف اور صرف سائرن بجاتی ایمبولینسز کی گاڑیاں چنگاڑی ہوئی گزرے اور لوگ سہم کر گھروں میں بیٹھ جائیں تو کیسے اس شہر میں زندگی کی رمق نظر آئے گی؟

سولہ دسمبر کا دن جہاں پاکستان کی تاریخ میں ایک سیاہ دن تھا اس کو اور بھی سیاہ بنانےدہشتگردوں نے اس دفعہ مشرق کے بجائے ارضِ وطن کے مغربی حصے کا انتخاب کیا، مشرق میں جہاں خاندانوں کے خاندان اُجاڑ کر تین لاکھ سے زائد انسانوں کا قتل عام کیا اس دفعہ پاکستان کے پشاور میں ایک سو بیالیس سے زائد معماران وطن کو وطن کی مٹی کی زینت بنا دیا۔ وہی دشمن جو کل ہمارے مشرقی پاکستان کو ہم سے جدا کرکے اُن کے سینوں میں ہمارے خلاف آگ بھڑکا کر اپنے عزائم میں کامیاب ہوا تھا آج وہ اسلام کا لبادہ اُڑھے ہمارے درمیان موجود ہے اور عرض وطن کے جسم پر کاری ضربیں لگا رہا ہے۔ سولہ دسمبر تو تاریک دن تھا ہی اب اس کو تاریک ترین دن کے طور پر منایا جائے گا۔

کل جب ابتدائی اطلاعات موصول ہوئیں تو دل دہل سا گیا، ایک انجانے خوف نےوجود کو جیسے جھنجھوڑ کے رکھ دیا۔ گھر کی راہ لی، پشاور کی سڑکوں پر عجیب افراتفری مچی ہوئی تھی، کسی کو کچھ خبر نہیں تھی کہ کیا ہورہا ہے یوں لگ رہا تھا جیسے محشر پرپا ہونے والا ہو اور ہر ایک کو سرچھپانے کی جلدی ہو۔ ٹی وی سکرین کے سامنے پہنچ کر جب حالات کا تفصیلی جائزہ لیا تو دل ڈوبنے لگا، آرمی پبلک سکول ورسک روڈ پشاور پر دہشتگردوں کا حملہ، طلباء و طالبات کو یرغمال بنائے جانے کی خبریں، سیکیورٹی فورسز کی جوابی کارروائی اور غیر یقینی صورتحال۔ گھر والوں سے آنکھیں ملانے سے قاصر ہر ایک کی آنکھیں ٹی وی سکرین پر، کچھ کہنے کی جرات نہیں اور پھر چھوٹی بیٹی کا سوال کہ بابا یہ کیا ہورہا ہے، اُس کو میں کیسے بتاتا کہ پاکستان کے مستقبل کا قتل عام ہورہا ہے، ماؤں کی گودیں اُجڑ رہی ہیں، جن کو سکول کے لئے رخصت کیا تھا اُن کو قبر میں لٹانے کی تیاریاں ہورہی ہیں۔ اُس کے ننھے ننھے سوالوں کا میرے پاس نہ ہی اُس کے ماں کے پا س کوئی جواب تھا۔ٹی وی سکرین پر دیوانہ وار پھرتی ماؤں کو اپنے لخت جگروں کو تلاش کرتے ہوئے دیکھ کر عجیب سی بے چینی محسوس کی، جوتے پہن کر ہسپتال کی راہ لی۔ شہر کے تمام ہسپتالوں میں ایمرجینسی نافذ تھی، ہر طرف شور مچاتی ہوئی ایمبولینسز کے سائرن سنائے دے رہے تھے اور سائرنوں کے دل کودہلانے والی آوازوں پر پر بیہمانہ رقص کرتی ہوئی موت کے پنجے ننھی جانوں کو نگلنے کے لئے بیتاب تھے۔

سنا تھا کہ پاکستان کی قوم میں انسانی ہمدردی ختم ہوچکی ہے لوگ ڈر کے مارے گھروں میں دبک کر بیٹھ گئے ہیں مگر ایسی باتوں کی تردید کے لئے ماضی قریب میں ہونے والے واقعات میں سے2008کا زلزلہ، 2009میں سوات آپریشن اور آئی ڈی پیز کی مشکلات، 2010کا سیلاب، حال ہی میں شمالی وزیرستان کے آئی ڈی پیز یا کل کے واقعات دنیا کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہیں جب قوم کے جوان بوڑھے اور خواتین اپنے بہن بھائیوں کی مدد اور خدمت کے لئے میدان میں آئے اوراپنے مال و جان کی قربانی بھی دینے سے گریز نہیں کیا۔ کل بھی ایک بہت بڑی تعداد نے خون کے عطیات دینے کے لئے ہسپتالوں کا رخ کیا، جن میں زیادہ تعداد سکول کالجز اور یونیورسٹیز کے طلباء و طالبات کی تھی، عوام بھی بہت بڑی تعداد میں ہسپتالوں میں عطیات دینے کیلئے پہنچ گئے تھےاور کچھ سیاسی رہنما بھی۔ ان کا جوش و جذبہ اس بات کی گواہی دے رہا تھا کہ باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم۔

ہر آنکھ پرنم تھی، ہر دل غمزدہ۔ جنازوں پر جنازے نکل رہے تھے۔ یہ صورتحال دیکھ کر ماضی کے جھروکوں میں سے ایک ایک اپنا دروازہ وا کرتی ہوئی کربناک حقیقتیں اپنے ہونےکا احساس دلا رہی تھی، ایک کے پیچھے ایک جنازہ دیکھ کر مجھےیکم اپریل2008کی سوات کی وہ غمزدہ صبح یاد آئی جب میں مینگورہ شہر کے مین بازار میں گم سم کھڑا تھا اور لوگ جنازےاُٹھا کر قطار در قطار قبرستانوں کی طرف محوسفر تھے، وہ بھی ایک تاریک دن تھا جب29فروری2008کو ڈی ایس پی کے جنازے میں ایک خودکش بمبار نے دھماکہ کیا اور42جنازے اُٹھے۔آج تو142اُٹھےاور دل پھر سے چھلنی چھلنی۔ بین کرتی ماؤں اور بہنوں کو دیکھ کرجنوری2013کا وہ دن یاد آیا جب باڑہ سے تعلق رکھنے والے افراد اپنے عزیزوں اور پیاروں کی لاشیں گورنرہاؤس کے سامنے سڑک پر رکھ کر احتجاج کررہے تھے اور اپنے پاکستانی ہونے کا حق مانگ رہے تھے۔ آئے روز فاٹا اور دیگر علاقوں میں غیر ملکی ڈرون سے ہونے والی بمباری میں معصوم لوگوں کا قتل عام اور ہر گھر سے اُٹھنے والے جنازے، دل کو چیرنے کے لئے کافی ہیں۔

آج میرے سامنے لگا ہو اجھنڈا سرنگوں ہے، ہر آنکھ اشک بار اور ہر دل غمزدہ، وطن اور وطن سے باہر تمام لوگ افسردہ، پختونخوا سمیت تمام ملک میں تین یوم کا سوگ، خیبر پختونخوا اور پنجاب میں تعلیمی ادارے تین دن کے لئے بند،دیگرممالک کے سربراہان مملکت کے تعزیتی پیغامات، برادر ملک ترکی میں آج17دسمبر کو یوم سوگ، بھارت کے تمام تعلیمی اداروں میں 1منٹ کی خاموشی،نیوزی لینڈ میں کرکٹ میچ کے شروع میں دو منٹ کی خاموشی، کوئٹہ و کراچی کی حکومتوں کا جان بحق ہونے والے افراد کے لئے تعزیتی دعائیں اور غائبانہ جنازوں کا انعقاد، ملک کے چرچ و مندروں میں دعائیہ تقریبات۔ یہ سب انسانیت سے ہمدردی رکھنے والے لوگوں کے احساسات ہیں۔ یہ ایک قومی سانحہ ہے، پاکستان کا سب سے بڑا د ہشتگردی کا واقعہ۔ جس پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے۔ اُن ماؤں کی گودیں دوبارہ بھر نہیں سکتی جو یہ جان لیوا خبر سننے کے بعد پاگلوں کی طرح دوڑتی پھرتی اپنے لخت جگروں کو ڈھونڈنے نکل پڑی، اس باپ کی آنکھوں کے آنسو خشک نہیں ہوسکیں گے جس نے اپنے لخت جگر کو اپنے ہاتھوں سے قبر کی گود میں لٹا دیا، اُس بہن کا سہارا کون بنے گا جس نے اپنے بھائی کو اپنی آنکھوں کے سامنے مرتے دیکھا۔ یہ غم کبھی بھلائے نہیں بھولے گا۔ آج جب سکول کے اندر پیش آنے والے واقعات ایک دوسرے سے سن رہے ہیں تو یقین نہیں آتا کہ کوئی انسان اتنی بربریت کا مظاہر کرسکتا ہے، جس انداز سے معصوم بچوں اور معماران وطن اذیت ناک موت سے دوچار کیا گیا وہ قابل بیان نہیں۔

میں جب بھی سوات جاتا ہوں یوں لگتا ہے جیسے میں کسی غیرملک میں داخل ہورہا ہوں، سخت سے سخت سیکیورٹی ، ایک لپ سٹک ایک سردرد کی گولی کی چیکنگ کے لئے پوری کی پوری مسافر گاڑیوں کی تلاشی، شناختی کارڈ کے بغیر سفر ناممکن، اپنے ملک میں سیکنڈ کلا شہری کی طرح حیثیت ۔ شاید یہ ہماری نااہلی و کوتاہیوں کے اثرات ہیں کہ آج ہم ایک دوسرے پربھروسہ نہیں کرسکتے بلکہ یہ لفظ اور اس کی اہمیت تو سرے سے ختم ہی ہوچکی ہے۔ شہر کے اندربھی سفر کریں تو کافی دیر تک چیک پوسٹوں پر اذیت کا شکار ہونا پڑتا ہے ، صوبے میں خیبر پختونخوا2014رینٹڈ ایکٹ کے اطلاق کے بعد گھر گھر مالک و کرایہ دار کی تفصیلات اور دیگر سیکیورٹی اقدامات کے باوجود اتنے بڑے سانحے کارونما ہونا ایک بہت بڑا سوال ہے۔ اُمید ہے کہ ہماری پاک افواج و دیگر سیکیورٹی ادارے اس سوال کا جواز ڈھونڈ کر اس کا تدارک جلد کریں گے اور مستقبل میں ایسے ناخوشگوار واقعات کی روک تھام کے لئے ٹھوس اقدامات اُٹھائے جائیں گے لیکن اُس ماں کے جگر کے گھاو بھرنے کون آئے گا، اُس کی ممتا کو چین کیسے ملے گا، شاید اس سوال کا جواب نہ مل سکے۔ مجھ سمیت تمام والدین اپنے بچوں کی مستقبل کے بارے میں سوال لئے پریشان پھر رہے ہیں اور بے یقینی و بے چینی کا شکار پوری قوم ایک پراَمن پاکستان کی خواہش لئےکوئی انہونی ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔
Naeem Khan
About the Author: Naeem Khan Read More Articles by Naeem Khan: 15 Articles with 19212 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.