ایک مدت کے بعد میری اُس کیساتھ
ملاقات ہوئی تھی۔ وہ پہلے سے بہت زیادہ بدل چکا تھا۔لمبے مگر بے ڈھنگے
بال۔گھٹنوں سے پھٹی اورکولہوں سے نیچے گرتی ہوئی جینز۔دونوں کلائیوں میں
بندھے ہوئے رنگ برنگے دھاگے ۔ سرخ رنگ کے جوگر پہنے ہوئے وہ مجھے سامنے سے
آتا ہوا دکھائی دیا تھا۔اتنی بڑی تبدیلی کے باوجود بھی میں نے اُسے پہچان
لیا تھا۔لیکن اُس کا نام میرے ذہن سے کھسک چکا تھا۔اسلام علیکم ۔۔۔! کیسے
ہو دوست ۔ ۔۔!!!میں نے بڑے خلوص کے ساتھ اپنا ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔ I
am fine and you? اُس کے بولنے کے انداز نے مجھے شش و پنج میں ڈال دیا تھا۔
شاید اُسے پہنچاننے میں مجھ سے غلطی ہوئی تھی۔ اس لیے تسلی کے لیے اُس کا
نام پوچھا ۔مجھے تمہار ا نام یاد نہیں آرہا۔ کیا آپ اپنا نام بتانا پسند
کرو گے؟ I am Jimmy. اُس نے اپنے ٹیڑھے منہ کو مزید ٹیڑھا کرتے ہوئے اپنا
نام بتایا۔ اوہ۔۔۔ یاد آگیا۔۔۔تم جمشید ہونا۔۔۔؟؟؟ مجھے فوراً اُس کا نام
یاد آیا اور یقین دہانی کے لیے بڑے یقین کے ساتھ اُس سے پوچھا۔ Yes I am
Jem-shad. (جیم شیڈ) اُس نے اپنی شکل کی طرح اپنے نام کو بھی بگاڑ کر رکھ
دیا تھا۔یہ تم جمشید سے جیم شیڈ کیسے بن گئے؟ میں نے حیرت سے پوچھا۔ Oh
man...You know I like advancement. وہ توتمہاری بات ٹھیک ہے ۔جدت پسند ی
اچھی بات ہے۔ لیکن تم اس وقت میرے ساتھ اردو میں بات کرو۔ تم جانتے ہو مجھے
یہ منہ بگاڑ کر بولی جانے والی زبان سے شروع ہی سے چڑ ہے۔میں نے اُسے اپنی
مجبوری سمجھاتے ہوئے کہا۔ Oh I know you don't speek english. You can
speek only URDU. اُس نے ایک دفعہ پھر ایک بیہودہ انداز سے اپنے خیالات کا
اظہار کیا تھا اور اسی اظہار کے دوران اردو کو بھی اڑدو بنا دیا تھا۔ ابے
او ڈھکن۔۔۔ ارڈو نہیں اردو ہوتا ہے۔اپنے ساتھ ساتھ اس خوبصورت زبان کا بھی
بیڑا غرق کر کے رکھ دیا ہے۔میں نے اُسے ڈانٹنے کے سے انداز میں کہا۔
What...??? You call me DHAKKAN...? You DHAKKAN. وہ سب کچھ بھول چکا تھا
لیکن لفظ ڈھکن ابھی تک نہیں بھولا تھا کیونکہ بچپن میں وہ اسی خوبصورت نام
سے پکارا جاتا تھا۔ اُسے اس نام سے بہت چڑ تھی۔ اور اکثر اس نام سے پکارے
جانے پر وہ جھگڑ پڑتا تھا۔تبھی تو وہ غصے سے لال پیلا ہو کر میرے گریبا ن
کو آنے لگا تھا ۔اچھا اچھا ۔۔۔!یہ اپنے منہ سے جھاگ مت نکالو۔ اور یہ بتاؤ
کہ آج کل کہاں ہوتے ہو اور کیا کرتے ہو۔ I settled in America and I am
cleaner there.وہ بڑے فخر سے اپنے کام کے بارے میں بتا کر مجھے مرعوب کرنے
کی کوشش کر رہا تھا۔ کیا ۔۔۔؟ تم وہاں صفائی کرنے کا کام کرتے ہو۔۔۔؟؟؟ میں
نے حیرت سے آنکھیں پھاڑ کر اُسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔ So what...? Job is
job...!!!وہ اپنی کیے پر شرمندہ ہونے کی بجائے فخر کر رہا تھا۔ ہاں تم سچ
کہہ رہے ہو ۔ پردیس میں جا کر ہر کوئی جاب ہی تو کرتا ہے۔ وہ جاب چاہے گٹر
صاف کرنے کی ہو یا گوروں کے کتے نہلانے کی۔میں نے اس المیے کا اظہا بڑے دکھ
بھرے لہجے میں کیاتھا۔ Ay Mr... Beheve yourself.اُسے میری بات بری لگی تھی۔
تبھی وہ اپنی Executive Job کی توہین برداشت نہ کر سکا ۔تم خود ہی تو کہہ
رہے ہو کہ تم وہاں صفائی کا کام کرتے ہو۔ تو صفائی کا کام کچھ اسی طرح کا
ہی تو ہوتا ہے جیسا میں نے کہا تھا No. no... I clean only vehicles
there... not any drainage and dogs ETC. understand...!!! اُس نے اپنا
شاہانہ کام واضح کرنے کوشش کرتے ہوئے کہا۔ ایک ہی بات ہے کام تو صفائی کرنا
ہی ہوا ناں۔ وہ کسی ہوٹل میں برتن ہوں یا گاڑیاں۔ اچھا چلو چھوڑو۔ یہ بتاؤ
کیا کھاؤ پیو گے۔ آخر تم کافی عرصہ کے بعد گاؤں آئے ہو۔ تمہاری خاطر تواضع
کرنا تو میرا فرض بنتا ہے۔چلو آؤ مولوی اشرف کے ہوٹل سے تمہیں ملائی والی
چائے پلاتا ہوں۔کیا یاد رکھو گے ۔ میں نے اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور
چلنے کا اشارہ کیا۔ What...? I don't like such a third class tea house.
اس نے پہلے ہوٹل اور پھر مجھے حقارت سے دیکھتے ہوئے کہا۔اؤئے ڈھکن یہ وہی
ہوٹل ہے جہاں تو بچپن میں چائے میں رس ڈبو ڈبو کر کھایا کرتا تھا۔اب تجھے
اس سے نفرت ہو گئی ہے۔میں نے اُسے اُس کا ماضی یاد کروایا۔ You are
insulting me. اُس نے مجھے غصے سے بھری ہوئی اور کھا جانے والی نظروں سے
دیکھا اور بے ڈھنگی سی چال چلتے ہوئے آگے بڑھ گیا۔
یہ صرف ایک جمشید یعنی جمی کی کہانی نہیں ہے۔بہت سے ایسے لوگ جو اس وطن کی
مٹی میں پیدا ہوتے ہیں۔ اسی آب و ہوا میں جوان ہوتے ہیں۔ مولوی اشرف جیسے
چائے کے ہوٹلوں سے چائے پیتے ہیں۔ انہی گندی گلیوں میں کھیلتے ہیں۔ بڑے سے
ڈنڈے کے آگے کانٹے دار جھاڑی باندھ کر پتنگیں لوٹتے ہیں۔ مرونڈہ، گچک،
ریوڑی، ٹانگر جیسی دیسی چیزیں کھا کر انجوئے کرتے ہیں۔ والدین پر بوجھ بھی
ہوتے اور عیاشی بھی کرنا چاہتے ہیں۔ اور جب کام کاج کی باری آتی ہے تو پورے
ملک میں اُن کے شایان شان کوئی نوکری نہیں ملتی۔ چھوٹی سی دکان بنا کر
کاروبار کرنے کو اپنی توہین سمجھتے ہیں۔باپ دادا کے پیشے کو اپنانے میں شرم
محسوس کرتے ہیں۔ پھر کسی نہ کسی طرح باپ کی عمر بھر کی جمع پونجی لگا کر
ملک سے باہر چلے جاتے ہیں۔ملک سے باہر کیا جاتے ہیں۔۔۔ اپنا ملک ہی بھول
جاتے ہیں۔ اپنے ملک کے لوگ۔ اپنا کلچر۔ اپنی زبان۔ اور وہ سب کچھ جہاں
اُنہوں نے زندگی گذاری ہوتی ہے۔ اُن کا بولنے کا انداز بدل جاتا ہے۔ چال
بدل جاتی ہے۔ کپڑوں کا اسٹائل بدل جاتا ہے۔ اور تو اور اپنی قومی زبان میں
بات کرنا توہین سمجھتے ہیں۔ایسے لوگ اپنے ملک میں کلرک کی نوکری کو نوکری
نہیں سمجھتے لیکن باہر جا کر صفائی کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ |