پاکستانی ایک بہادر قوم

دنیا کی ہر قوم کی ایک تاریخ ہے اس کا کردار اور اس کے خواص ہیں ۔کوئی بھی قوم اپنے مخصوص حالات میں ایک منفرد اور نمایاں کردار ادا کرتی ہے کسی بھی قوم کے بدلتے ہوئے حالات میں اس کے افعال تاریخ میں اس کا ایک مقام بنا دیتے ہیں جب بھی کسی قوم پر سخت اور مشکل وقت آتا ہے تو اس کی صلاحیتیں اور حوصلے نکھر کر سامنے آتے ہیں۔بہادر،دلیر اور زندہ قومیں مشکل اور نا مسائد حالات میں نہ صرف اپنے وجود کو قائم رکھتی ہیں بلکہ ایسے حالات پر قابو پا کر اپنی آنے والی نسلوں کے لیے تاریخ میں ایک بلند مقام چھوڑ جاتی ہیں۔یہ بات درست ہے کہ ہر قوم کو اپنی روایات اور اپنے کردار پر فخر ہوتا ہے مگر وقت کا مورخ صرف اسی قوم کو باقی اقوام سے ممتاز اور منفرد تحریر کرتا ہے جو پے پنا ہ صلاحیتوں اور خوبیوں کی مالک ہواور یہ امر طے ہے کہ تاریخ میں صرف بہادر اور دلیر قوموں کو یہ مقام حاصل ہوتا ہے۔بہادر ی دلیری اور ہمت جس قوم کا خاصہ ہو اسے دنیا کی نہ تو کوئی طاقت شکست دے سکتی ہے اور نہ ہی تاریخ اپنے اوراق میں سے اسے مٹا سکتی ہے۔ پاکستانی قوم بلاشبہ ایک ایسی ہی قوم ہے جو 1947سے لے کر آج تک نامسائد حالات،امتحانوں اور آزمائشوں کا مردانہ وار مقابلہ کر رہی ہے۔اس کی تاریخ بھی بڑی المناک ہے اسے دشمنوں نے اپنے حربوں میں مصروف رکھا ہی ہے مگر اپنوں نے بھی اسے خوب زخم دیے ہیں قائداعظم کے بعد اسے ایک مخلص اور بہادر رہنماء کی ضرورت تھی مگر قیادت کے روپ میں مصلحت کے شکار مفاد پرست اقتدار کے پجاری حکمران اس کا مقدر ٹھرے۔ناقص منصوبہ بندی،حکمت عملی کے فقدان ،بدعنوانی اور اقربا پروری کی بدولت ان لوگوں نے اس قوم کو خوب دھوکا دیے رکھا۔اس قوم نے جمہوریت اور آمریت کے دوپاٹوں میں پسنے کے باوجود اپنے تشخص کو برقرار رکھا ہوا تھا کہ دہشت گردی کے ہولناک طوفان نے اسے آلیا۔گزشتہ کم وبیش پندرہ سالوں سے یہ قوم دہشت گردی کا سینہ تان کا مقابلہ کر رہی ہے حکمرانوں اور اداروں کی نااہلی اور بزدلی کی بدولت اسے اس جنگ کی قیمت کئی گنا زیادہ چکانا پڑ رہی ہے دہشت گردی کا عذاب جب سے اس قوم پر مسلط کیا گیا ہے اس وقت سے ہی ایک منظم سازش کے تحت اس کے نظریات کو بھی تباہ کیا جانے لگا ہے۔ملک کے اندر اغیار کے لے پالکوں کی ایک ایسی فوج بھی موجود ہے جو دہشت گردوں کے لیے ایک نرم گوشہ رکھتی ہے ان کے پالتوں مختلف حکومتی ، نجی اورذرائع ابلاغ کے اداروں میں بیٹھ کر ان دہشت گردوں کے لیے نرم اور ہمدردانہ رائے عامہ ہموار کرنے میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں ۔پوری قوم اس بات پر متفق رہی ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف سختی سے نمٹا جائے مگر ان طالبانی مفکروں نے مذاکرات اور افہام و تفہیم کا راگ الاپنا شروع کر دیا اور قوم کو نظریاتی طور پر تقسیم کرنے کی کوشش کی ملک میں جو لوگ طالبان کے حمایتی ہیں ان کو اب اپنے ارادوں سے باز آجانا چاہیے اور کچھ سادہ لوح لوگوں کو بھی اپنے نظریے اور سوچ پر نظر ثانی کرنی چاہیے جو ناسمجھی میں ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں ۔سانحہ پشاور کے بعد آنے والے ایک مخصوص رد عمل نے مولانا فضل الرحمان ،سمیع الحق،مولوی عزیز ،منورحسن،مولانا لدھیانوی ،مولوی اسحاق،حمید گل،اوریا مقبول جان،انصار عباسی اور ان جیسے کئی ایک کے اصل چہرے بے نقاب کر کے رکھ دیے ہیں۔ جماعت اسلامی کے منور حسن قتال کے دلدادہ اور سراج الحق مذاکرات کے علمبردار بنے پھرتے ہیں اور وہ ظالموں سے بھی محبت کا دم بھرتے ہیں اور مظلوموں کو بھی صبر کی تلقین کرتے ہوئے مصلحت سے کام لینے کا کہتے ہیں اسامہ کو شہید مانتے ہیں اور وطن کی خاطر جان دینے والوں کی شہادت پر سوال اٹھاتے ہیں کیا نظریہ مودودیت یہی ہے اگر ایسا ہے تو ان سب کی منافقت کو ان معصوموں کی قربانی نے بے نقاب کر کے رکھ دیا ہے 16 دسمبر کے پشاور کے سانحے نے ان کے تمام عزائم کو خاک میں ملا دیا اس المناک دہشت گردی کے واقعے نے پوری قوم کو ایک نیا جذبہِ یگانگت عطا کیا ہے پوری قوم نے جس طرح اس کاروائی کے خلاف ردِ عمل دیا ہے اس نے اس قوم کے بہادر اور دلیر ہونے پر مہر ثبت کر دی ہے ۔معصوم شہدوں کے والدین نے جس عزم اور حوصلے سے اس صدمے کو برداشت کیا ہے اس کی مثال انسانی تاریخ میں مشکل سے ہی ملے گی خاصانِ خدا کا یہی طرزِعمل ہوا کرتا ہے ایک شخص جس کا اکلوتا بیٹا اس حادثے میں شہید ہوا یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ اسے اپنے بیٹے کی شہادت پر فخر ہے ۔وہ ٹیلی وژن پر بتا رہا تھا کہ اس کامعصوم بیٹا بڑے ہو کر فوج میں بھرتی ہونے کا خواہش مند تھا اور وہ اپنے ملک کے لیے کچھ کر گزرنے کو بیتاب تھا اس شخص نے بڑے حوصلے سے بتایا کہ جو لاش اس نے اٹھارہ سال بعد اٹھانی تھی وہ آج اٹھائی ہے اس کے شہید بیٹے نے اسے بہت جلد قوم کے سامنے سرخرو کر دیا ہے وہ اپنے بیٹے کا شکریہ ادا کر رہا تھادوسری طرف جب آرمی چیف زخمی بچوں کی عیادت کے لیے گئے تو ایک زخمی بچے نے ان سے کہا کہ انکل ہم پر عزم ہیں اور ہمیں دہشت گردی کے خلاف اس جنگ کا ایک سپاہی سمجھیں جس قوم کے بچے اپنے سپہ سالار کو حوصلہ دیتے اور ہمت بندھاتے ہوئے نظر آئیں اس قوم کو دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی ہے یہ قوم بیرونی دشمنوں سے جنگ جیت چکی ہے اب اس نے اندرونی دشمن پر بھی کاری ضرب لگائی ہے۔اس نے جس ہمت ،طاقت، بہادری،شجاعت اور دلیری سے ان مشکل ترین حالات کا مقابلہ کیا ہے اس کی کوئی مثال دینا آج کے دور میں ناممکن ہے بلا شبہ پاکستانی قوم کو تاریخ میں ایک بہادر اور دلیر قوم کے طور پر تادم قیات یاد رکھا جائے گا۔
 
hur saqlain
About the Author: hur saqlain Read More Articles by hur saqlain: 77 Articles with 55846 views i am columnist and write on national and international issues... View More