کراچی:دسواں عالمی کتب میلہ....اسلامی کتب کی فروخت سب سے زیادہ
(عابد محمود عزام, karachi)
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے
کہ کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک ترقی کی منازل طے نہیں کر سکتا، جب تک وہ
تعلیم یافتہ نہ بن جائے اور تعلیم یافتہ بننے کے لیے معاشرے کا مجموعی مزاج
کتاب دوست ہونا ضروری ہے۔ کوئی بھی تعلیم یافتہ معاشرہ کسی صورت کتاب کی
ضرورت سے بے نیاز نہیں رہ سکتا، لیکن انٹرنیت کے اس تیز ترین جدید دور میں
انسان کی کتاب سے دوری ہوتی جا رہی ہے۔ انٹرنیٹ پر معلومات کا خزانہ موجود
ہے، جس کے باعث کتابو ں کی خرید و فروخت میں کمی آئی ہے اور انسان کتاب سے
دور ہوتا جا رہا ہے۔ جبکہ تعلیمی اداروں میں بھی کتاب دوستی صرف نصابی کتب
تک محدود ہوکر رہ گئی ہے، حالانکہ تمام علمی ضروریات محض نصابی کتابوں سے
پوری نہیں ہو سکتیں۔ تحقیقی ضروریات کے لیے اضافی کتابوں کا ہونا بہت ضروری
ہے۔ معاشرتی ترقی کا انحصار اس بات پر ہے کہ عوام مروجہ علوم اور زمانے کے
تقاضوں سے ہم آہنگ ہوں، ان کی علمی سطح جتنی بلند ہوگی۔ کہتے ہیں کتاب کا
انسان سے تعلق بہت پرانا ہے۔ کتاب نہ صرف انسان کی بہترین دوست ہے، بلکہ یہ
انسان کے علم و ہنر اور ذہنی استعداد میں بھی بے پناہ اضافہ کرتی ہے اورخود
آگاہی اور اپنے اردگرد کے حالات و واقعات کا ادراک کراتی ہیں۔ کچھ عرصے سے
ملک میں انسان اور کتاب کا یہ تعلق ماند پڑتا جارہا ہے۔ اس رشتے میں کمزوری
آتی جارہی ہے۔ انسان اور کتاب کے درمیان دوری جنم لے رہی ہے۔ انسان سے کتاب
کی دوری کو ختم کرنے کے لیے کراچی میں ہر سال پانچ روزہ عالمی کتب میلے کا
انعقاد کیا جاتا ہے۔ اس کتب میلے کی بنیاد 2005 میں رکھی گئی تھی اور اس
وقت سے یہ کتب میلہ مسلسل ہر سال منعقد ہوتا آرہا ہے اور اس کی مقبولیت و
کامیابی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ حسب سابق اس سال بھی کراچی ایکسپو سینٹر
میں 18 دسمبر سے 22 دسمبر تک پانچ روزہ عالمی کتب منعقد کیا گیا ہے۔ یہ کتب
میلہ امسال اپنا عشرہ مکمل کررہا ہے، اس طرح یہ دسواں عالمی کتب میلہ ہے۔
ایکسپو سینٹرکراچی میں جاری پانچ روزہ عالمی کتب میلہ ہر سال مزید شہرت اور
کامیابی حاصل کررہا ہے۔ کتب میلے میں ہر روز گہما گہمی بھی پہلے دن کی
بنسبت بڑھ رہی ہے۔ مدارس، اسکولوں، کالجوں اور جامعات کے ہزاروں طلبہ
وطالبات سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے تقریباً چار لاکھ
کے لگ بھگ افراد 18دسمبر سے اب تک کتب میلے میں شرکت کر چکے ہیں، مزید شرکا
جوق در جوق آرہے ہیں۔ ایکسپو سینٹر آنے والوں کے رش کے باعث اطراف کی سڑکوں
پر گاڑیوں کی طویل قطاریں لگ گئیں، عالمی کتب میلے میں شرکت کرنے والوں میں
مرد و خواتین اور بچوںکی بڑی تعداد شامل ہے۔ ایکسپو سینٹر میں تین ہالز ہیں،
تینوں ہالز شرکاسے بھر گئے ہیں۔ عالمی کتب میلے کی مقبولیت کا اندازہ اس
بات سے لگائیں کہ کتب میلے میں پہلی بار تین ہالوں میں اسٹالوں کی تعداد
330 تک جاپہنچی ہے۔ جبکہ گزشتہ سال کتب میلے میں315اسٹال لگائے گئے تھے۔
امسال ناشران اور کتب فروشوں کو زیادہ اسٹال دیے گئے ہیں، تاہم درجنوں کتب
فروشوں کو اسٹال دینے سے معذرت کرلی گئی۔ کتب میلے میں بھارت، سنگاپور،
ملائیشیا، برطانیہ، ایران، متحدہ عرب امارات اور دیگر عالمی پبلشرز نے اپنی
کتابیں اور شائع شدہ مواد پیش کیا ہے۔ ناشران اور کتب فروشوں کے اسٹالوں پر
کتابوںکی فروخت غیرمعمولی رہی ہے، کئی پبلشرز نے اسٹالوں پر موجود کتب جلدی
بک جانے کی وجہ سے گوداموں سے مزیدکتابیں منگوائیں ہیں۔ کتب میلے کی
انتظامیہ کے مطابق عالمی کتب میلے میں ہر روز لاکھوں روپے کی کتب فروخت ہو
رہی ہیں۔
کتب میلے میں ہر طرح کی کتابیں رکھی گئیں ہیں، جن میں اسلامی کتب، ناول،
فکشن، سوانح، تاریخ، اردو اور انگریزی لٹریچر، ادب، ثقافت، شاعری، نثر
نگاری، ناول، سائنس، قانون، فلسفہ، طب اور شخصیات سے متعلق دیگر کتب بھی
عالمی میلے کا حصہ ہیں۔ ان کتابوں میں بچوں کی انگریزی اردو کہانیاں رنگ
برنگی تصویروں کے ساتھ، ڈرائنگ کی کتابیں اور بچوں کے حوالے سے ایکٹیوٹی
بکس شامل ہیں، جن میں بچوں کی دلچسپی دیدنی ہے۔ ان کے علاوہ مختلف سیاسی و
مذہبی تنظیموں کی جانب سے بھی اپنے سیاسی و مذہبی نظریات کے پرچار کے لیے
اپنی کتب کے اسٹالز لگائے گئے ہیں۔ میلے میں 15سے50 فیصد تک رعایتی نرخوں
پر کتابیں فراہم کی جارہی ہیں، جس کے باعث لوگوں نے ایک کی بجائے کئی کئی
کتابیں خریدیں۔ کتب میلے میں اسلامی کتب، افسانہ، ناول، ادب ، شاعری اور
سیاست کی کتابوں میں دلچسپی دیکھنے میں آئی اورطلبا و طالبات کارش میڈیکل،
اکاو ¿نٹس اور کمپیوٹر کی کتابوں میں زیادہ دیکھنے میں آیا۔ عالمی کتب میلے
میں مذہبی کتابوں کی بھرمار ہے۔ نقاب اوڑھے اور اسکارف میں ملبوس خواتین
اور لڑکیوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے بھی کتب میلے کا رخ کیا۔ ان کا مقصد
کسی اسٹال پر کھڑے ہوکر محض کسی کتاب کی ورق گردانی کرنا نہیں، بلکہ اسلامک
لٹریچر ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوا۔ ایک اسٹال ہولڈر حامد نے بتایا کہ ہمارے
اسٹال پر صرف اسلامی کتب ہیں، یہاں ہر طرح کے لوگ آکر دھڑا دھڑ اسلامی کتب
خرید رہے ہیں۔ ویسے تو تمام اسلامی کتب ہی زیادہ فروخت ہورہی ہیں، لیکن
لوگوں کا رجحان تفسیر کی خریدداری پر زیادہ ہے۔ ہر روز ہمارے اسٹال سے
تقریباً دو سے ڈھائی لاکھ روپے تک کی کتب فروخت ہورہی ہیں۔ ایک دوسرے اسٹال
ہولڈر امین اللہ نے بتایا کہ ہمارے دو اسٹال ہیں، جن میں سے ایک پر اسلامی
کتب ہیں، جبکہ دوسرے پر ادب و شاعری کی کتب ہیں، دونوں اسٹالز میں فروخت کا
واضح فرق ہے، اسلامی کتب بہت تیزی کے ساتھ بک رہی ہیں، جبکہ دوسری کتب کی
فروخت میں وہ تیزی نہیں ہے۔ اسلامی کتب کے اسٹال سے روز کی ڈیڑھ لاکھ تک،
جبکہ دوسرے اسٹال سے صرف پچاس ہزار کی کتب فروخت ہورہی ہیں، ان کا کہنا تھا
کہ کتب کی خریداری سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کراچی میں اسلامی کتب کے
مطالعے کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ایک اسٹال ہولڈر ضیاءالرحمن نے بتایا
کہ ہمارے اسٹال پر بیرون ملک کے مذہبی اسکالرز کی انگلش کتب ہیں اور انگلش
میں تفاسیر وغیرہ دستیاب ہےں، ہمارے پاس موجود تمام مذہبی کتب کی فروخت بہت
تیزی کے ساتھ ہورہی ہے۔ ایک اسٹال ہولڈر محمد نعیم نے بات کرتے ہوئے بتایا
کہ ہمارے اسٹال پر صرف ناول ہیں، جن میں سے اب صفی اور اشتیاق احمد کے ناول
زیادہ بک رہے ہیں، لیکن بچوں کی دلچسپی زیادہ اشتیاق احمد کے ناولوں میں ہے۔
کتب میلے میں نصابی کتب کے اسٹال ہولڈر سے بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ
ہمارے اسٹال سے کتب بہت زیادہ نہیں بک رہی ہیں، بس یہ سمجھیں کہ خرچہ نکل
رہا ہے۔ دوسرے کئی اسٹالز ہولڈرز نے بھی اس بات کا اعتراف کیا کہ کتب میلے
میں سب سے زیادہ اسلامی کتابوں کی فروخت ہورہی ہے۔
کتب میلے میں 30کے قریب اسٹالز بچوں کی کتابوں سے متعلق ہیں، جہاں بچوں کا
کافی زیادہ رش دیکھنے میں آیا۔اس کتب میلے میں بچوں کی دلچسپی کی ہر طرح کی
کتابیں رکھی گئیں اور بچوں کی ایک کثیر تعداد اس میلے میں شریک ہوئی۔رنگ
برنگی خوبصورت تصاویر والی کتابیں، مختلف اینی میشن، کارٹونز اور بچوں کی
دلچسپی کے مختلف موضوعات سے سجے بچوں کی کتابوں کے اسٹالز ہر کسی کو اپنی
طرف کھینچ رہے تھے۔ بچوں نے ڈرائنگ بکس اور کہانیوں کی کتابوں میں گہری
دلچسپی دکھائی۔ بچے خود اپنی پسند کی کتابیں شوق سے خرید رہے ہیں۔ متعدد
اسٹالز کو بچوں کی دلچسپی کے لیے سجایا بھی گیا ہے۔ بچوں کی کتابوں کے
حوالے سے ایک اسٹال ہولڈر کا کہنا تھا کہ ہمارے اسٹال پر کتابیں تو موجود
ہیں، مگر اسٹال کی سجاوٹ خاص طور پر بچوں کے لیے کی گئی ہے، جسے دیکھ کر
بچے متاثر ہوں اور ان کی دلچسپی کتابوں میں بڑھے۔ کتب میلے میں کتابیں پسند
کرتے ہوئے ایک چھوٹے بچے نے بتایا کہ مجھے کہانیوں کی کتابیں پسند ہیں ۔
بچے کے والد کا کہنا تھا کہ میرے بیٹے کو جادوئی کہانیوں سے لگاؤ ہے۔ ایک
اور رنگارنگ بک اسٹال کے عہدیدار محمد احمد نے بچوں کی کتابوں کے حوالے سے
بتایا کہ بیرون ممالک میں ہم دیکھتے ہیں کہ وہاں لائبریری اور کتاب کلچر
بڑھ رہاہے، مگر افسوس کے ساتھ پاکستان میں کتاب کلچر کم ہوتا جا رہا ہے۔
ہمارے ہاں ڈرائنگ روم میں ٹی وی کا سائز تو بڑھ رہاہے، مگر کتابوں کے لیے
ہمارے گھروں میں جگہ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بچوں میں کتابوں کے پڑھنے کا
رجحان وہ نہیں ہے، جو کسی زمانے میں دیکھنے میں آتا تھا۔ اس لیے دیدہ ور
رنگوں والی کتابوں کو مناسب قیمتوں میں فروخت کرنا وقت کی ضرورت ہے، کیونکہ
ملک کا ایک بڑا طبقہ مڈل کلاس طبقہ ہے، جس کے لیے مہنگی کتابیں خریدنے کی
قوت نہیں ہے۔
پاکستان پبلشرز اینڈ بک سیلرز ایسوسی ایشن کے صدر عزیز خالد کا کہنا تھا کہ
اس بات نے ان کو بہت حوصلہ دیا ہے کہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد اس میلے
میں اپنی دلچسپی دکھا رہی ہے۔ کتب میلے نے بہت حد تک کراچی کے منفی تاثر کو
زائل کیا ہے۔ یہاں شہریوں کی علم دوستی کا براہ راست رشتہ امن کی خواہش سے
ملتا ہے۔ عالمی کتب میلے میں جو بات نہایت منفرد نظر آئی، وہ کتب میلے میں
مذہبی کتابوں کی بھرمار تھی۔ آدھے سے زیادہ اسٹال مذہبی کتابیں بیچنے والوں
کے ہیں۔عزیز خالد کے مطابق لاکھوں روپے کی کتابوں کی خریداری ابھی تک ہو
چکی ہے۔ لاکھوں لوگوں کی آمد اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ پاکستان اور
بالخصوص کراچی کے عوام کتاب دوست اور کتابو ں سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔
کتب میلے میں آنے والوں کا کہنا تھا کہ اس طرح کے کتب میلوں سے طالب علم
اورعوام فیض یاب ہوسکتے ہیں۔ ملکی سطح پر اس طرح کے کتب میلوں کا انعقاد
کرنا چاہیے، تاکہ کتب کے ذریعے علم کی روشنی پھیلانے میں مدد حاصل ہوسکے
اور ہماری نسلیں اس سے فیضیاب ہوکر دنیا بھر میں ایک اچھا مقام حاصل کرسکیں،
ہمارے ملک میں لائبریریوں کا کلچر ختم ہوتاجارہا ہے، جسے فروغ دینے کی
ضرورت ہے۔ کتب میلے میں شریک طلبہ وطالبات کا کہنا تھا کہ پانچ روزہ عالمی
کتب میلے سے کراچی میں کتاب دوستی زندہ ہوگئی ہے، کتب بینی کی روایت جو دم
توڑ رہی تھی دوبارہ زندہ ہورہی ہے۔اس طرح کے کب میلے ملک بھر میں لگائے
جانے چاہیے۔ |
|