حیدر آباد میں’ الطاف حسین یونیورسٹی ‘کا قیام۔ایک مستحسن اقدام

گزشتہ دنوں گورنر ہاؤس میں گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد ، تعمیرات کی دنیا کی معروف شخصیت ملک ریاض جو سماجی و فلاحی خدمات کے والے سے بھی جانے جاتے ہیں نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کراچی اور حیدر آباد میں ایک ایک عالمی معیار کی جامعات بنانے کا اعلان کیا۔اس پریس کانفرنس کے بعد یہ شخصیات متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے مرکز نائن زیرو تشریف لے گئیں جہاں پر ایک پر وقار تقریب منعقد ہوئی جس سے جناب الطاف حسین نے بھی لندن سے ویڈیو لنک پر حاضرین سے خطاب کیا۔ کراچی خصوصاً حیدر آباد میں یونیورسٹی کے قیام کو سندھ بھر کے عوام نے با لعموم جب کہ حیدر آباد کے عوام نے با لخصوص نہ صرف سراہا بلکہ بحریہ ٹاؤن کے چیرٔ مین ملک ریاض کے اس اقدام کو ٧ندھ میں تعلیم کے فروغ کی جانب ایک مستحسن اقدام قرار دیا۔

اس موقع پر جناب الطاف حسین نے خطاب کرتے ہوئے کہا ’ ملک ریاض پاکستان کا سچا بیٹا اور کراچی اور حیدر آباد کی عوام کے لیے رحمت کافرشتہ ہے، ملک ریاض کو ملک کا وزیر اعظم بنا دیا جائے تو ملک سے نہ صرف مسائل ختم ہوجائیں گے بلکہ پاکستان کی طرف کوئی میلی آنکھ سے بھی نہیں دیکھ سکے گا، انہوں نے وہ کام کیا ہے جو بڑے بڑے دعوے کرنے والے حکمراں نہیں کرپائے‘۔ جناب الطاف حسین نے کہا کہ ملک ریاض نے کراچی اور حیدر آباد سے تعلق نہ ہونے کے باوجود وہ کام کیا کہ میں ان کو کراچی اور حیدر آباد کے لیے فرشتہ قرار دیتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ’ملک ریاض نے تعلیم کی روشنی پھیلانے کی جو کوشیش کی ہے اس سے سندھ میں وڈیرانہ اور جاگیردارانہ سوچ کے خاتمے میں مدد ملے گی‘۔ اس موقع پر ملک ریاض نے نائن زیرو پر اپنے شاندار استقبال پرایم کیو ایم کے قائد جناب الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی پوری قیادت کا شکریہ ادا کیا انہوں نے کہاکہ ’انہوں نے کراچی اور حیدر آباد کی عوام پر کوئی احسان نہیں کیا ان کو اس ملک نے جو کچھ دیا وہ اس ملک کو واپس لوٹانا چاہتے ہیں‘،اس موقع پر ملک ریاض نے اپنے ماضی کو بھی یاد کیا، یہ وہ موقع تھا جب ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے انہوں نے کہا’ ملک ریاض اس قابل نہیں جو اس کو ایم کیو ایم کے مرکز پر جو عزت ملی میں نے وہ تمام کام کیے ہیں جو مجھے کرنا چاہئے ‘۔ ملک ریاض کی یہ گفتگو اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ وہ ایک شریف اور نیک انسان ہیں، بے پناہ دولت ہونے کے باوجود وہ اپنے ماضی کو یاد رکھے ہوئے ہیں۔

حیدر آباد میں یونیورسٹی کی ضرورت طویل عرصہ سے محسوس کی جارہی تھی۔حیدر آباد سندھ کادوسرا بڑا شہر ہے اس شہر کے باسی گزشتہ ۶۷ سال سے یونیورسٹی کے قیام کے طالب تھے ۔ ان کی اس دیرانیہ اورجائز خواہش کی تکمیل ملک ریاض کے توسط سے پائے تکمیل کو پہنچنے جا رہی ہے۔ یہ یقینا ایک خوش آئند بات ہے۔ ملک میں تعلیم کے فروغ کی جانب ایک اہم قدم بھی۔اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ سندھ کی اہم سیاسی جماعت ایم کیو ایم بھی حیدر آباد سندھ میں یونیورسٹی کے قیام کی جدوجہد کرتی رہی ہے۔ لیکن متعدد بار اقتدار میں ہوتے ہوئے بھی حیدر آباد سندھ کے عوام کی اس ضرورت کو پائے تکمیل تک پہچانے سے قاصر رہی جس کی بے شمار سیاسی وجوہ ہیں۔ مخالفت اپنی جگہ ، سیاسی ہو ، لِسانی ہو، نسلی ہو، ذاتی ہو لیکن جہاں علم کے فروغ اور تعلیم کو عام کرنے کی بات آجائے وہاں پر تمام قسم کے تعصبات کو بالائے طاق رکھ دینا ملک و قوم کے مفاد میں ہوتا ہے۔ لیکن کیا کیا جائے ہمارے ملک کی سیاست ہی نرالی ہے یہاں سیاست داں مخالفت میں اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ جہاں سے واپسی ممکن نہیں ہوتی ۔ کسی دانا نے درست کہا کہ ’پہلے بولو پھر تولو‘ ہمارے سیاسی اکابرین پہلے بولتے ہیں پھر افسوس کرتے اگر بر ملا نہیں تو دل میں ضرور کرتے ہوں گے۔ جیسے کسی بھلی سیاسی شخصیت نے بغیر سوچے سمجھے کہہ دیا کہ ’حیدر آبااد میں یونیورسٹی ان کی لاش پر ہی بن سکتی ہے ‘ ۔ مخالفت کی یہ کون سی قسم قرار دی جائے گی۔ بقول ادریس بختیا ر’ تعلیم سے اتنا بغض ، اور اس کا بے محابہ اظہار ، ناطقہ سر بگریباں ہے اسے کیا کہیے‘۔پروفیسر سید اسرار بخاری نے اس عمل پر اپنا نقطہ نظر بیان کرتے ہوئے لکھا کہ ’ وزیر اعلیٰ سندھ نے ترپ کا پتہ پھینکا ہے جس کے اچھے نتائج بر آمد ہوں گے،سندھ میں جو بھی رہتے ہیں پاکستانی ہیں ، اور یہ وہ قدر مشترک ہے کہ اس کے علاوہ کوئی قدر ڈھونڈنا گویا شرک ہے، قومی وحدت کے لیے ، سندھی ، پٹھان ،پنجابی ار جن کی مادری زبان اردو ہے، یہ چاروں طبقے دراصل اردو بھی بولتے ہیں اور پکے کھرے پاکستانی ہیں، پھر فرق کیا رہ گیا تینوں میں شاید کوئی ، پانچواں ہے جو ان میں تفرقہ ڈال رہا ہے، کیا امریکہ برطانیہ میں مختلف طبقات نہیں لیکن ان کا ہر فرد خود کو امریکی کہتا ہے اسی طرح کوئی مسلمان کسی بھی مکتب فکر سے ہو اس کی اصل پہچان مسلم ہونا ہے‘۔

۹ دسمبر۲۰۱۴ء کو سندھ اسمبلی نے سندھ میں تین جامعات کے بل متفقہ طور پر منظور کر لیے۔ یہ جامعات کراچی اور حیدر آباد میں ’الطاف حسین یونیورسٹی‘کے نام سے اورتیسری یونیورسٹی بحریہ ٹاؤن نوابشاہ میں ’ بینطیر بھٹویونیورسٹی ‘قائم کی جائے گی۔ سندھ اسمبلی نے تین جامعات کی قرار داد منظور کرنے کے بعد ارکان نے بحث کے دوران بحریہ ٹاؤن کے سربراہ ملک ریاض ، سابق صدر آصف زردری، متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین ، گورنر سندھ ، وزیر اعلیٰ سندھ اور دیگر رہنماؤں کو یونیورسٹیوں کے قیام پر خراجِ عقیدت پیش کیا۔ سابق صدر آصف علی زرداری کی ہدایت پر لطیف آباد حیدر آباد میں حکومت سندھ کی جانب سے یونیورسٹی کے لیے ۵۰ ایکٹر زمین عطیہ کردی گئی۔اب اُس سیاسی رہنما کے اس بیان کی کیا حیثیت رہ گئی ۔ یقینا اب ان کو اپنے اس بیان پر شرمندگی نہ سہی افسوس ہورہا ہوگا۔ بزرگو نے اسی وقت کے لئے کہا تھا کہ ’پہلے تولو پھر بولا‘۔ لیکن ہمارے سیاسی رہنما پہلے بولتے ہیں بعد میں سوچتے ہیں۔ان کا یہ اقدام بے شمار قسم کی مشکلات اور بلاوجہ مسائل کا باعث ہوتے ہیں۔

حیدر آباد کو سندھ کے دوسرے بڑے شہر کی حیثیت حاصل ہے۔ یہاں کبھی سندھ یونیورسٹی ہوا کرتی تھی جسے حیدر آباد سے دور جام شورو منتقل کردیا گیا۔ حیدر آباد کے طلباء و طالبات طویل سفر کر کے جامشورہ ہی جارہے ہیں۔ شہر کی وسعت اور تعلیمی ضرورت کو دیکھتے ہوئے یہاں ایک یونیورسٹی نہیں بلکہ ایک سے زیادہ جامعات قائم ہو جانی چاہیے تھیں۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ حیدر آباد کی آبادی ۲۰۱۲ء کی مردم شماری کے مطابق 4.5ملین ہے ان میں 60.07 فیصد شہری آبادی ہے ۔ کراچی کے بعد یہ سندھ کا سب سے بڑا شہر ہے۔ با وجود اس کے کہ یہاں کئی اہم سیاسی شخصیات کا تعلق اس شہر سے رہا اس کے باوجود یہ شہر سرکاری جامعہ سے محروم رہاہے۔

حیدر آباد شہر ایک قدیم اور تاریخی شہر ہے۔ اس کا ماضی بڑا دلکش ہے کبھی اسے ’سندھ کا پیرس ‘Paris of Sindhکہا جاتا تھا۔ جب یہاں کی شاہراہوں کو خوشبو سے دھویا جاتا تھا اور روشنی کے لیے لگے ہوئے لیمپ جو شہر کے مختلف جگہ لگے ہوئے تھے خالص گھی سے جلائے جاتے تھے۔ لیکن سب کچھ اس وقت ختم ہوگیا جب ۱۸۴۳ء میں برطانوی راج یہاں قائم ہوا۔پکہ قلعہ حیدر آباد کی شناخت ہے، سندھ یونیورسٹی کے اولڈ کیمپس کی بلڈنگ ۱۹۱۲ء میں قائم ہوئی، گورنمنٹ ہائی اسکول ، سابقہ رائے ہیرانند اکیڈمی ۱۹۰۰ء میں قائم ہوئی، سول اسپتال برطانوی راج میں ۱۸۹۴ء میں قائم ہوا، یہاں کا ریلوے اسٹیشن ۱۸۹۰ء میں قائم ہوا، کینٹونمنٹ (صدر) ۱۸۵۱ء سے ۱۸۵۶ء کے درمیان قائم ہوا، نور محمد ہائی اسکول کی عمارت ۱۹۳۳ء میں قائم ہوئی، سرکٹ ہاس ۱۹۱۲ء میں اور ٹھنڈی سڑک شہر کی اہم شاہرہ ہے جس کے دونوں جانب بڑے بڑے درخت ہیں جن کی بنیاد پر اسے ٹھنڈی سڑک کہا جاتا ہے۔ حیدر آباد بعض باتوں کے لیے اپنا ثانی نہیں رکھتا۔دن میں یہاں جس قدر بھی گرمی ہو اور گرم ہوائیں چلیں یہاں کی راتیں ٹھنڈی تیز ہواؤں کے حوالے سے اپنا ثانی نہیں رکھتیں۔ ایشیا کا طویل ترین بازار ’شاہی بازار‘ جو کلہوڑا حکمرانوں نے قائم کیا 4.5کلومیٹر لمبا ہے جو مارکیٹ چوک سے شروع ہوکر قلعہ حیدر آباد پر ختم ہوتا ہے ۔ چوڑیوں کی تیاری کے حوالے سے یہ یہاں دنیا کا سب سے بڑا بازار ہے۔ پورے پاکستان ہی میں نہیں بلکہ بیرون ممالک بھی یہاں سے چوڑیاں درآمد کی جاتی ہیں۔ سندھ کا تحفہ اجرک بھی یہاں کی پہچان ہے۔ یہاں پر قائم بمبئی بیکری کا کیک بہت مشہور ہے، پلہ مچھلی یہاں کی خاص سوغات ہے۔ ایشیا کا سب سے بڑا ذہنی مریضوں کا اسپتال ’گدو‘ میں قائم ہے۔ یہ تمام چیزیں حیدر آباد شہر کی تاریخی حیثیت کو نمایاں کرنے کے لیے کافی ہیں۔اس کے باوجود یہ تاریخی اور آبادی کے لحاظ سے وسیع شہرطویل عرصے سے جامعہ سے محروم ہے۔

سندھ کے اس تاریخی شہر نے کئی اہم اور معروف شخصیات کو جنم دیا ان میں ڈاکٹر، انجینئر، ماہر قانون ، پروفیسر، شاعر، ادیب، محقق، براڈ کاسٹر،سی ایس پی آفیسر ،صحافی شامل ہیں۔ان اہم شخصیات میں ڈاکٹر غلام مصطفی خان، ڈاکٹر عشرت حسین، سابق چیف جسٹس ناظم الدین صدیقی، ڈاکٹر الیاس عشقی، حیدر بخش جتوئی، علامہ آئی آئی قاضی، قاضی محمد اکبر، قاضی عبدالمجید عابد، غلام محمد گرامی، نواب مظفر حسین، میر علی احمد تالپور، میر رسول بخش تالپور، مرزا خلیج بیگ، میراں شاہ، حکیم شمس الدین شامل ہیں۔گورنمنٹ کالج فار مین ناظم آباد کے میرے کلیک پروفیسر سراج الدین قاضی نے اپنی کتاب’ تذکرہ احباب حیدرآباد (سندھ) ‘میں حیدر آباد سے تعلق رکھنے والے ۱۵۴ احباب کا مختصر تذکر ہ دلچسپ انداز میں تحریر کیا ہے۔ ان میں پروفیسر ڈاکٹراحسن فاروقی،سفر نامہ نگار و براڈ کاسٹر قمر علی عباسی،شفیق پراچہ سابق کمشنر کراچی، اظہر نقوی، جمال نقوی، معروف شاعر پروفیسر عنایت علی، ڈاکٹر نعیم نقوی، ڈاکٹر نظر کامرانی سابق ڈائریکٹر علامہ اقبال اوپن یونیوورسٹی کراچی ریجن، پروفیسر امجد علی، پروفیسر برجیس سلطانہ صدیقی، خالد وہاب، رضوان صدیقی، پروفیسر فیروزہ نثار، پروفیسر نثار حسین، پروفیسر محمد صالحین خان لودھی، پروفیسرمحمد محسن اتاکے علاوہ گورنمنٹ کالج برائے طلباء ناظم میں خدمات انجام دینے والے اساتذہ جن میں سے چندمیرے دور میں بھی رہے شامل ہیں ان میں پروفیسر احمدالدین شیخ،  ڈاکٹر حسن محمد خان، پروفیسر خالد محی الدین، پروفیسر عبدالرشید ملک ، پروفیسر ابو حازم، اور خود سراج الدین قاضی شامل ہیں۔

حیدر آبادسندھ کے حوالے سے میری اپنی یادیں بڑی گہری اور یاد گار ہیں۔ ۲۰ دسمبر ۱۹۷۵ء کی بات ہے میں لطیف آباد نمبر ۱۱ اور ۹ کے درمیان قائم گورنمنٹ غزالی کالج جو گورنمنٹ سائنس کالج لطیف آباد نمبر ۹ کے برابر قائم ہے کے مرکزی دروازے کے سامنے ایک ٹینٹ میں دوپہر ایک بجے دولھا بنا بیٹھا تھا اور قاضی صاحب مجھ سے حجاب و قبول کرا رہے تھے۔بارات کراچی سے حیدر آباد گئی تھی۔ میری سسرال لطیف آباد نمبر ۱۱ میں تھی جو رفتہ رفتہ مجسم طور پر کراچی منتقل ہوچکی ہے۔ جب تک سسرالی حیدر آباد میں رہی میں نے حیدرآباد کی سڑکوں کی خوب خوب دھول کھائی ساتھ ہی اس شہر کی ٹھنڈی اور حسین ہواؤں سے لطف اندوز بھی ہوا۔آخرکار میرے سسرالیوں کو مجھ غریب پر ترس آہی گیا اور انہوں نے حیدر آباد کو ہمیسہ ہمیشہ کے لیے خدا حافظ کہہ دیا۔ یہ راز بھی افشاں کررہا ہوں کہ میں نے خاموشی کے ساتھ اس بات کی بھر پور کوشش کی کہ میرے تینوں سالے حیدرآباد چھوڑ دیں، سالیوں کی شادی کراچی ہی میں ہوجائے تاکے کراچی سے حیدر آباد لگنے والی میری دوڑ اختتام کو پہنچے اور یہی ہوا میں اس مقصد میں  کامیاب ہوا،ایک ایک کرکے میرے تینوں سالے حیدر آباد سے کراچی منتقل ہوگئے ، سالیوں کی شادی بھی کراچی میں ہوگئی، اس طرح کراچی سے حیدر آباد میری دوڑ اختتام کو پہنچی۔

سندھ میں ترقی کی صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضع ہوتی ہے کہ یہاں تعلیم کو کسی بھی حکومت نے اپنی ترجیحات میں نہیں رکھا۔ ویسے تو پاکستان بھر میں یہی صورت حال ہے۔ ہمارا تعلیمی بجٹ 2.7ہے جب کے دفاع پر 3.4فیصد خرچ ہوتا ہے ۔تعلیم کو فوقیت دینے والی قومیں ترقی کے سفر میں آگے نکل چکی ہیں ۔ جن ممالک نے تعلیم کے مقابلے میں دیگر شعبوں کو فوقیت دی وہ طاقت ور ہونے کے باوجود ترقی یافتہ مما لک کی صف میں شامل نہیں۔ صوبہ سندھ کے بعض سیاست داں ملک کے حاکم بھی رہے لیکن انہوں نے بھی سندھ دھرتی کو تعلیم کے میدان میں ترقی دینے کی خاطر خواہ سعئی نہیں کی۔ ذوالفقار علی بھٹو کا دور سنہری موقع تھا کہ سندھ میں تعلیم کے فروغ کے لیے اقدامات کیے جاسکتے تھے لیکن خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوئی۔ بے نظیربھٹو شہید اور جناب آصف علی زرداری کے دورِ اقتداربھی حکمراں سندھ کے عوام کو تعلیم کے میدان میں خاطر خواہ اضافہ دینے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ حیدر آباد جیسے شہر کو تعلیم کے حوالے سے نظر انداز کرنے کا سبب کیا ہوسکتا ہے۔ کہ یہاں ۶۷ سال میں ایک بھی سرکاری سطح پر جامعہ قائم نہیں کی گئی۔ سیاست دان اور کالم نگار نفیس صدیقی نے اپنے کالم ’یونیورسٹیوں کا قیام ۔ملک ریاض کا بڑا کام‘ میں درست کہا ہے کہ ’پاکستان ایک بڑا اسٹرییجک پوزیش والا ملک ہے لیکن یہاں کی لیڈر شب کا وژن نہیں ہے۔ ۷۰ کی دیہائی میں تعلیم کا معیار ٹھیک تھا ۔ تعلیمی اداروں کی نیشنلائزیشن کا عمل درست نہیں تھا۔ اس سے تعلیم میں انحطاط شروع ہوا اور آج انتہا یہ ہے کہ کالجوں اوور یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہونے والے بچوں میں لکھنے پڑھنے کی بنیادی صلاحیت بھی نہیں ہے‘۔ صوبہ سندھ کے جن شہروں میں سرکاری جامعات موجود ہیں ان میں کراچی، نواب شاہ، خیر پور، لاڑکانہ اور ٹنڈو جام شامل ہیں۔ یہاں حیدر آباد کو کیوں اگنور کیا گیا ؟ صوبہ پنجاب اس حوالے سے بہت آگے نظر آتا ہے۔یہاں لاہور کے علاوہ سر گودھا، فیصل آباد، ملتان، گجرات،بہاولپور اور راولپنڈی میں سرکاری جامعات موجود ہیں۔ خیبر پختون خواہ میں پشاور کے علاوہ مردان ، ڈی آئی خان، مانسہرہ، کوہاٹ، دیر، مالا کنڈ ، بنو اور سوات میں سرکاری جامعات موجود ہیں۔ بلوچستان میں کوئٹہ اور خضدار میں جب کہ آزاد کشمیر میں میر پور اور مظفر آباد میں سرکاری جامعات موجود ہیں۔ اب جب کے ملک ریاض نے اس شہر میں عالمی معیار کی جامعہ قائم کرنا کا اعلان کیا ہے تو ضروری ہے کہ یہ جامعہ ہر اعتبار سے سرکاری جامعہ کے مساوی ہو۔ کیونکہ حیدر آباد شہر میں میڈیکل یونیورسٹی بھی نہیں ما سوائے ایک پرائیویٹ میڈیکل یونیورسٹی کے اس لیے مجوزہ یونیورسٹی میں ابتدا ہی سے شعبہ میڈیکل یا میڈیکل کالج کی منصوبہ بندی کر لی جائے اور ساتھ ہی اسپتال کی منصوبہ سازی بھی ضروری ہے۔ ملک ریاض از خود اس بات کا اعلان پہلے ہی کرچکے ہیں کہ ان جامعات میں طلباء سے سرکاری جامعات کی فیس سے بھی کم وصول کی جائے گی۔ یہ اعلان بھی قابل تعریف ہے۔ (۱۷ دسمبر ۲۰۱۴ء)
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 865 Articles with 1437523 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More