حضرت میاں ماموں رحمتہ اﷲ علیہ

تحریر:شہبازاختر ساجد
نام۔ماموں
والد کا نام۔ جیون
نام مرشد۔ خواجہ پیرشاہ قلندر چشتی دربار گوہر بار موضع شیخو چشتیاں نزد قبولہ شہر

ابتدائی حالات۔
میاں ماموں کانجن رحمتہ اﷲ علیہ نے جن دو چاچوں کے پاس پروش پائی ہے وہ بھی درویش تھے ایک کا نام خان جوان جن کا دربار اس پختہ سڑک کے قریب واقعہ ہے جو پیر محل سے بھوسی کو جاتی ہے ۔پیر محل سے تھوڑے ہی فاصلہ پر ہے۔

دوسرے کا نام خان ستی ہے جس کا دربار چک نمبر ۵۵۸قتالے کے دلو نزدربار پیر صلاح الدین جنوب مغرب میں ہے۔

ان کا عرس ۵۔۶ بھادوں کو منایا جاتا ہے۔

ایک روایت یہ ہے کہ میاں ماموں کے چچا خان جوان کے مرشد حاجی نیامت اﷲ چشتی موضع شیخو شریف چشتیاں نزد قبولہ شہرمیں آباد تھے خان جوان نے میاں ماموں کو کہا کہ تم میرے مرشد کے بیٹے حضرت پیر شاہ قلندر کا مرید ہونا ہے کیونکہ میرے مرشد انتقال کر چکے ہیں اور میرا وقت بھی قریب ہے یہ لو میری گدڑی اور عصا میں اپنی ولائت کا وارث تجھے بناتا ہوں میاں خان جوان وصال فرماگئے۔تو میں ماموں چچا کے فرمان کے مطابق مرید ہونے کے لئے موضع شیخو چشتیاں کی طرف روانہ ہوئے۔ چچا کی نشانی گدڑی اور ڈھانگی ساتھ تھے۔

حضرت میاں ماموںؒ اس دور کے بزرگ ہیں جب مغل زوال پذیر ہو رہے تھے۔حضرت میاں ماموں ؒ کے بھی اپنے وقت کی بزرگ شخصیت تھے ۔ آپ کے دو چچا تھے۔ ایک کا نام میں خاں محمداور دوسرے چچا محترم کا نام ستی محمد تھا۔آپ بھی دونوں بزرگ تھے۔خصوصًامیاں خان محمد صاحب صاحب کشف و کرامت تھے۔حضرت میاں ماموں ہمیشہ آپ کی خدمت میں رہتے تھے کیونکہ میاں خان محمد کے دو صاحبزادگان حضور اور معمور شکار کے دلدادہ تھے اور عمومًا باہر رہتے تھے لیکن حضرت ماموں ؒ ہمیشہ آپ کی خدمت میں رہتے۔جب حضرت خان محمد صاحب نے داعی اجل کو لبیک کہا تو ان کے دونوں صاحبزادے شکار پر تھے۔لیکن میاں ماموں حسب معمول خدمت میں حاضر تھے لہذا آپ نے انہیں سینے سے لگایا اور کہا ہم سفر آخرت پر جا رہے ہیں میں نے تمہیں دودھ بنا دیا ہے اب جاگ حضرت خواجہ پیر شاہ جی دیوان لگا دیں گے اور دیکھنامیری یہ ڈھانگی ۔(جس سے آپ بکریاں چرایا کرتے تھے)یہ دو بکریاں اور میری یہ گدڑی سنبھالے رکھنا۔اتنا کہہ کر آپ وصال پا گئے۔جب حضرت میاں ماموں کفن دفن سے فارغ ہوئے تو ان کے صاحبزادے بھی پہنچ گئے۔انہوں نے اپنے والد محترم کی یادگار یں حضرت میاں ماموں سے چھیننا چاہیں لیکن جب وہ ایسا ارادہ کرتے تویاد گاریں پتھر ہو جاتیں بالاخر صاحبزادوں کو اپنے مطالبے سے دستبردارہونا پڑااور حضرت ماموںؒ حسب ارشاد میاں خان محمد حضرت خواجہ پیر شاہ جی دیوان کی طرف روانہ ہوئے حضرت میاں خان محمدؒ کا مزارپیر محل کے قریب واقع ہے۔جہاں دن رات رونق رہتی ہے۔

حضرت خواجہ پیر شاہ حاجی دیوان صاحب حضرت باوا فرید شکر گنج رحمتہ اﷲعلیہ کی اولاد سے ہیں۔میاں ماموں ؒ انکی خدمت میں پہنچ کر ان کی خدمت پر مامور ہو گئے۔یہاں تک کہ لنگر کے لئے لکڑیاں اٹھاتے اٹھاتے انکے سر کے بال اڑ گئے۔ایک دن حضرت ماموں سوئے ہوئے تھے کہ ایک مرغی نے آکر ان کے سر کی اوٹ میں انڈا دے دیا جب دوسرے درویشوں نے دیکھا تو خبر حضرت دیوان تک بھی پہنچائی کہ آج میاں ماموں ؒ کے سر نے انڈا دیا ہے۔حضرت دیوان صاحب دیکھنے کے لئے خود تشریف لائے اور یہ منظر دیکھ کر مسکرائے حضرت ماموں ؒ کو اٹھایا اور اپنے سینے سے لگا یا اور کہا کہ میاں ماموں ؒ اب جاؤاور علاقہ بار کو اپنی روحانیت سے آباد کرو اور ساتھ ہی تلقین فرمائی کہ شادی صرور کرنا۔حضرت میاں ماموں اپنا سر مایہ ڈھانگی ،دو بکریاں اور گدڑی لے کر روانہ ہوئے تو حضرت دیوان نے ریت کی ایک مٹھی بھی عطا کی ارو کہا جب سفر کرو تو اسے مٹھی میں رکھنا۔اور جب قیام کرو تو اسے آئندہ سفر کے لئے محفوظ کر لینا جہاں یہ ریت ختم ہو جائے وہاں اپنا ڈیراجما دینا حضرت میاں ماموں ؒ جب کمالیہ کے قریب پہنچے تو وہاں گھنے درختوں کے سائے میں ترنجن آباد تھا۔ ایک دو شیزہ نے میاں ماموں کو دیکھ کر دوسری دوشیزہ کو جو چچڑ قوم کے نمبر دار کی بیٹی تھی مذاق کیا کہ وہ دیکھ تیرا منگیتر آگیا ہے ۔حضرت ماموںؒ نے بھی سن لیا اور کہا چلومنگیتر ہی سہی یہ کہہ کر وہاں ڈیرا ڈال دیا۔ چچڑ قوم نے بڑی مخالفت کی اور حضرت کو اذیتیں بھی پہنچائیں لیکن حضرت میاں ماموں اپنی بات پر قائم رہے۔ ادھر چچڑقوم کے نمبردارنے اپنی لڑکی کا رشتہ ایک اور شخص سے کر دیا۔ جب وہ شخص بارات لے کر آیا تواسی ترنجن کے مقام پر بارات کے لئے چارپائیاں بچھا دی گئی۔حضرت میاں ماموںؒ بھی وہاں موجود تھے۔ تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ وہاں دو خوفناک سانڈ لڑتے لڑتے آنکلے۔متعدد باراتی کچلے گئے اور دولہا اتنا مضروب ہوا کہ وہیں جاں بحق ہو گیا۔یہ منظر دیکھ کر چچڑ قوم کے سربراہ نے حضرت میاں ماموں سے امان حاصل کر لی اور اپنی لڑکی ان کے ساتھ بیاہ دی میاں ماموں ؒ دلہن لے کر سفر پر روانہ ہو گئے اور آپ عمومًادن کے وقت اپنی بیوی کو اکیلے چھوڑ کر پیر کے حکم پر گدا گری کے لئے دوسری آبادیوں میں نکل جاتے اور انکی اہلیہ محترمہ حضرت میاں ماموں کی بکریاں چراتیں۔ایک دن ایک نا معلوم لٹیروں کا ریلہ آیا اور میاں ماموں کی ایک بکری لے کر آگے نکل گیا اسی دوران وہاں کا ٹھیہ قوم کا ایک قافلہ گزرا جس کے سر خیل قاسم ومرزا تھے۔ان پر جب یہ حقیقت آشکار ہوئی تو انہوں نے اجنبی لٹیروں کا تعاقب کر کے ان سے بکری چھین لی اور جب بکری دینے کے لئے حضرت میاں ماموں کے ڈیرے پر پہنچے تو میاں صاحب بھی واپس آچکے تھے۔

اس موقع پر حضرت میاں ماموںؒ بہت خوش ہوئے اور ان سے ایک لکڑی کا کیلہ منگوایا اور اسے زمین میں گاڑ کر اپنی متاہر سے ضربیں لگائیں۔ آٹھویں ضرب سے لکڑی کا کیلہ پھٹ گیا۔آپ نے آہ بھر کر کہا کہ تمہاری سات پشتیں یہاں حکمرانی کریں گی تم اس علاقہ میں ڈیرا جما دو۔کاٹھیوں نے کہا حضور ہم دوردیش کاٹھیا واڑ کے رہنے والے ہیں یہاں ایک قدیم کھرل قوم پہلے ہی سے آباد ہے وہ ہمیں یہاں کیونکر رہنے دے گی۔اس پر حضرت میاں ماموں نے بار کی زبان میں دعا کی کہ ،کاٹھیاں دا کاٹھ ٹھرے : جتھاں مال تہاڈا چرے: کل بوے ویراں دے درے اﷲ تے فقیر توں ڈرے، کاٹھیاں دی پکھی : نہ گن نہ مکھی، اﷲ تے ماموں نے رکھی، چاہڑیا مرزا تے قاسم، قائم تہاڈا آسم، کھرلاں دی صف چا دتی ، تہاڈی وچھا دتی، کھرل گھاہ تے تسیں دا تریاں،

اس دعا کے بعد کاٹھیوں اور کھرلوں میں لڑائی ہوئی جس میں کھرلوں کو شکست ہوئی لہذا کاٹھیوں نے اس علاقہ پر قبضہ کر کے اپنا تسلط جما لیا۔ اس کے بعد پوری کاٹھیا قوم آپ کی مرید ہو گئی۔

ان حالات کے بعد حضرت میاں ماموںؒ نے وہاں سے اپنا ڈیرا اٹھایا باقی ریت کو مٹھی میں لیا۔جب آپ موجودہ مقام پر پینچے تو ریت ختم ہو گئی اور آپ نے یہاں مستقل ڈیرا جما دیا۔اس مقام پر آپ کے ہاں لڑکا پیدا ہواجس کا نام آپ نے قاسم رکھااور اس سے آپ کی نسل میں بتدریج اضافہ ہوتا گیا۔

حضرت پیرمیاں ماموں نے کب وصال پایا اس کے متعلق ابھی کوئی ثقہ دروائت سے معلوم نہیں ہو سکا۔
حضرت میاں ماموں ؒ کے ایک اور بھائی بھی تھے جنکا نام میاں ملی تھا۔ میاں ملی سے میاں ماموں کبھی خوش ہوتے اور کبھی ناراض، جب کبھی ناراض ہوتے تو کہتے جا ملی بیکانیرگھلی،اس کے بعد ایسا ہوتا کہ میاں ملی کسی نہ کسی طریقہ سے بیکانیر پہنچ جاتے، کبھی آپ اداس ہوتے تو دعا کرتے اور میاں ملی واپس آجاتے۔ ایک دفعہ بہت ناراض ہوئے اور کہا جا میاں ملی بیکانیر گھلی مڑ نہ کول ولی، بس اس کے بعد میاں ملی ایسے بیکانیر گئے کہ واپس نہ آ سکے۔ میاں ملی نے وہیں بیکانیر میں شادی کر لی اور اس سے اولاد بھی ہوئی جواب بھی بیکانیر میں کانجو قوم کے نام سے مشہور ہے۔

بتایا گیا ہے کہ حضرت میاں ماموں ؒ کا موجودہ مزار ۱۹۲۷ء میں تعمیر کرایا گیا تھا۔ اس سے پہلے آپ کی قبر کچی تھی۔حضرت میاں ماموں ؒ کے مزار کی یہ کرامت بڑی مشہور ہے کہ دورحاضر میں ایک عرصہ دربار کے ونوں پر کلیاں کھلتی رہی ہیں اور سینکڑوں لوگ ان کلیوں کو عقیدتًا اور تبرکًا لے جاتے رہے ہیں۔ دربار کے ونوں پر کلیاں کھلیں یا پیلوں نمودار ہوں اصل بات اس جذبہ عقیدت کی ہے جو ایک عقیدت مند کے سینے میں ہمیشہ موجزن رہتا ہے۔عقیدت کے جلوے میں اسے ہر طرف کلیاں مسکراتی نظرآتی ہیں ۔موسم خزاں بھی ہو تو اسے بہار کی رعنائیاں نظر آتی ہیں۔ (ماخوذ از مضمون اختر سدیدی)
دربار ہو یا پیر کی سرکار اسے مرادوں کے شگوفے کھلے نظر آتے ہیں۔

مال کا روکنا:
یہ بات عوام الناس میں مشہور ہے کہ شاہ گلشیر علاقہ چناب یعنی دریائے چناب کے کنارے سے دریائے راوی کی طرف سفر کے لئے روانہ ہوئے چلتے چلتے دھوپ محسوس ہونے لگی سایہ کی تلاش کے لئے نظر دوڑائی تو ایک گوڑھی چھاں یعنی گھنے سایہ والا درخت جس کو پنجابی میں ون یا مال کہتے ہیں نظر آیا۔جس کے نیچے پنجاب کے رواج کے مطابق چند سہلیاں مل کر چرخے کات رہی تھیں۔شاہ گل شیر اس کے نیچے کچھ وقت کے لیے ٹھہرے چلتے وقت ٹھنڈا سانس بھرا اور کہا اے اﷲتیرا شکر ہے کہ تو نے مجھے سستانے کے لئے ایسا ٹھنڈا سایہ عطا فرمایا عورتیں بولیں اے درویش تجھے اس کا سایہ بہت پسند ہے تو اس کو ساتھ لے لو۔شاہ گلشیر نے درخت کو فرمایا اگر یہ عورتیں کہتی ہیں تو آؤ میرے ساتھ چلو کہتے ہیں کہ وہ اسی وقت ساتھ ہو لیا۔جب اس جگہ پہنچے جہاں اب وہ درخت موجود ہے میاں ماموں کانجن بکریاں چرا رہا تھا دونوں درویشوں کی ملاقات ہوئی میاں ماموں نے کہا اے شاہ گل شیر یہ سایہ مجھے دیدو کہا شاہ گل شیر نے کہا اگر طاقت ہے تو روک لو اپنے ہاں رکھ لو میاں ماموں نے ڈھانگہ ون کو پایا اور کھینچا بس وہ وہیں کھڑا رہا شاہ گل شیر آگے چلے گئے۔
موئے موئے لیلے ماموں دیاروح

یہ کہاوت اس طرح مشہور ہوئی کہ ایک چروا ہے نے ماموں کے نام ایک لیلا پال رکھا تھااتفاق سے وہ لیلامر گیا اور ساتھ ہی تین چار اور بھی مر گئے چرواہا غصے میںآکر واڑے سے لیلے باہر پھینکنے لگا اور کہا یہ مردہ لیلاماموں کانجن ؒ کے نام ہے یہ مردہ لیلا ماموں کے نام یہ مردہ لیلا ماموں کے نام یہ مردہ لیلا ماموںؒ کے نام۔ جتنے لیلے مردہ اس نے باہر پھینکے تھے سب زندہ ہو گئے۔
اس دن سے یہ کہاوت مشہور ہو گئی۔
shahbaz akhtar sajid
About the Author: shahbaz akhtar sajid Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.