شہید بچوں کے نام۔۔۔!
(Ahmed Raza Mian, Lahore)
جو لکھا نام میں نے بچوں کا
سیاہی کے بدلے قلم سے خون اُترا
انسان کتنا ہی بہادر کیوں نہ ہو، ہر قسم کے خوف کا مقابلہ کرنے والا ہو،
دشمن سے لڑنے والا ہو۔لیکن وہ بچوں کو مرتا ہوا نہیں دیکھ سکتا۔وہ بچے اُس
کے اپنے ہوں یا کسی اور کے۔ اور موت بھی ایسی ہو کہ موت بھی کانپ جائے۔ موت
کا فرشتہ بھی اُن کی روح قبض کرنے سے پہلے اﷲ سے سوال کرے۔ کہ اے اﷲ کیا تو
ان معصوم بچوں کو مارنے والوں کے ہاتھ نہیں روک سکتا۔ ۔۔؟؟؟کیا تو ان ننھے
پھولوں کو مسلنے سے نہیں بچا سکتا۔۔۔؟؟؟ موت کا فرشتہ جب ان ننھے فرشتوں کی
روحیں لے کر آسمان پر پہنچا ہو گا تو سب فرشتوں نے یک زبان ہو کر اﷲ سے عرض
کی ہو گی کہ اے رب العزت کیا ہم نہیں کہتے تھے کہ یہ انسان جس کی تو تخلیق
کرنے والا ہے وہ زمین پر فساد برپا کرے گا۔ اپنے ہی لوگوں کا خون بہائے گا۔
تو آج ہماری بات سچ ثابت ہو گئی ہے۔ زمین پر فساد ہو رہا ہے۔ معصوم لوگوں
کا خون بہایا جا رہا ہے۔ جنت کے ٹھیکیدار اس دنیا کو جہنم بنا رہے ہیں۔۔۔۔
انسان کتنا ہی سنگدل کیوں نہ ہو۔ معصوم بچوں کے چہرو ں پر چھائی ہوئی
اُداسی انہیں نرم دل بنا دیتی ہے۔ معصوم بچوں کی آنکھوں میں آئے ہوئے آنسو
پتھروں کو بھی پگھلا دیتے ہیں۔ تو پھر وہ کون لوگ تھے ۔۔۔؟ وہ کس مٹی سے
بنے تھے۔ ۔۔؟کیا اُن کے سینوں میں دل نہیں تھے۔۔۔؟ جن کے معصوم بچوں پر ظلم
کرتے ہوئے ہاتھ نہیں کانپے۔ جو ان معصوم بچوں کی آنکھوں میں آئے ہوئے خوف
کو نہیں دیکھ پائے۔جو ان مظلوموں کی چیخوں کو نہیں سن سکے۔جن کے دلوں پر
معصوم بچیوں کی التجائیں اثر نہ کر سکیں۔"انکل مجھے مت مارو" کی فریاد بھی
کام نہ آسکی۔لہو میں ڈوبے ہوئے لاشے ان ظالموں کو مزید ظلم کرنے پر نہ روک
سکے۔ آخر یہ درندہ صفت لوگ کون ہیں؟ کیا ان کے اپنے بچے نہیں ہیں؟ کیا ان
کا کوئی گھر بار نہیں ہے؟ یہ وحشی درندے کس دنیا سے تعلق رکھتے ہیں؟ خود
کوسچا اور پکا مسلمان کہنے والے مسلمانوں کے خون کے پیاسوں کا اصل مقصد کیا
ہے۔۔۔؟؟؟ ان کا مقصد صرف اور صرف بد امنی ہے۔ ہمارے پیارے وطن کے دشمن اس
ملک کو آگ لگانا چاہتے ہیں۔ ہمیں آپس میں لڑا کر اس ملک پر اپنا قبضہ جمانا
چاہتے ہیں۔خود کو مسلمان کہنے والے نہ تو مسلمان ہیں اور نہ ہی انسان۔
آج پوری پاکستانی قوم سانحہ پشاور کے غم میں ڈوبی ہوئی ہے۔ سیاسی ،
مذہبی،سماجی اور دیگر جماعتیں سب متحد ہو کر ظالموں کو یہ پیغام پہنچا رہی
ہیں کہ ہم اس مشکل گھڑی میں ایک ساتھ ہیں اور اپنی بہادر فوج کے شانہ بشانہ
کھڑے ہیں ۔ اﷲ کرے یہ اتحاد ، اتفاق اور یکجہتی ہمیشہ قائم رہے ۔تاکہ دشمن
ہم پر حملہ کرنے سے پہلے سو دفع سوچنے پر مجبور ہو جائے۔لیکن یہ سلسلہ تبھی
رک پائے گا جب تک ہم اپنے اندر چھپے ہوئے دشمنوں کا خاتمہ نہیں کر دیتے۔ان
سب کاروائیوں کے پیچھے نظر آنے والے ہاتھ ہمارے اپنے ہی لوگوں کے ہیں لیکن
اُن کے پیچھے کون سی قوتیں کار فرما ہیں یہ بھی ہم جانتے ہیں۔ وہ قوتیں آج
سے نہیں بلکہ ہمارے ملک کے وجود میں آنے سے ہی اس ملک کو ٹکروں میں بانٹنے
کے در پے ہیں۔ اپنے اس مقصد میں وہ کسی حد تک 16 دسمبر 1971 میں سقوط ڈھاکہ
کے نام پر کام یاب بھی ہوچکے ہیں ۔اور اب یہ بلوچستان کو ہم سے الگ کرنا
چاہتے ہیں۔ہماری معیشت کو تباہ کرکے ہمیں دنیا میں بالکل الگ کر دینا چاہتے
ہیں۔لیکن اب یہ اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہو پائیں گے۔ کیونکہ اب ساری
قوم جاگ چکی ہے۔ ہمارے فوج کے چاک وچوبند دستے ہماری سرزمین کی حفاطت کے
لیے جانیں اپنی ہتھیلیوں پر رکھے دشمن کے آگے ڈھال بن کر کھڑے ہیں۔
ہم نے بہت قربانیاں دے چکے۔ بہت خون بہا لیا۔ بہت سے بچے یتیم کروا لیے۔
بہت سے سہاگ اجڑ گئے۔ بہت سی مائیں اپنے بچوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔ اب ان
قربانیوں کے رنگ لانے کا وقت ہے۔ ہمیں امید کرنی چاہیے کہ آرمی پبلک سکول
پشاور کے شہید بچوں کی قربانی آخری قربانی تھی۔ کیونکہ اس سے پہلے اس قوم
اور تمام سیاسی جماعتوں نے اس قدر متحد ہونے کا عزم ظاہر نہیں کیا۔ہم امید
کرتے ہیں کہ آج کے بعد کسی ماں کا لخت جگر اس سے جدا نہیں ہو گا۔ ہم امید
کرتے ہیں کہ آج کے بعد کوئی باپ بے سہارا نہیں ہو گا۔کیونکہ ہم جان چکے ہیں
جب تک ہم ایک نہیں ہو جاتے اُس وقت تک آخری دہشت گرد کا خاتمہ نہیں کر
سکتے۔انشااﷲ ایک دن آئے گا کہ ہم اس ملک کو جنت بنتا دیکھ سکیں گے۔ کیونکہ
ان بچوں کی قربانی سے بڑی قربانی کوئی نہیں ہو سکتی۔ جنت کے دعوے داروں نے
معصوم بچوں کو جنت میں پہنچا کر خود اپنے لیے دوزخ خرید لی۔وہ دنیا میں
ذلیل ہوئے اور آخرت میں بھی رسوائی اُن کا مقدر ہے۔ اﷲ اُن والدین کو صبر
عطا فرمائے اور انہیں جینے میں آسانی پیدا فرمائے جنہوں نے اپنے معصوم جگر
گوشوں کراپنے ہاتھوں سے قبر میں اُتارا جو کہ دنیا کا سب سے مشکل کام ہے۔
وہ بچے مرے نہیں زندہ ہیں۔ کیونکہ شہید مرتے نہیں۔ معصوم شہیدوں کو خراج
تحسین پیش کرنے کے لیے افتخار احمد افی صاحب کی ایک نظم پیش خدمت ہے۔
آج جنت میں بہت شور بپا ہے یارو!
فرشتے دید کے مشتاق نظر آتے ہیں
حوریں ہاتھوں میں گلدستے لیے پھولوں کے
بڑی مسرورنگاہوں سے اُنہیں تکتی ہیں
تخت طاؤس کے اطراف میں اہل جنت
بڑے تپاک سے نظریں جمائے بیٹھے ہیں
جو اپنے دیس پہ قرباں ہوئے تھے یارو!
سروں پہ تاج سجائے خوشی سے بیٹھے تھے
اتنے خوش تو وہ زمیں پر بھی نہیں رہتے تھے
حوض کوثر کے اُنہیں جام دیے جاتے تھے
اسی اثناء میں اعلان ہوا اے لوگو!
رسول ﷺپاک کی آمد کی گھڑی آ پہنچی
بڑے ادب سے متانت سے کھڑے ہو جاؤ
ہر طرف نور کی برسات کی روانی تھی
میرے خیال کی اتنی سی بس کہانی تھی
میرے خیال پہ یہ وقت کڑا ہے لوگو!
اک مفتی میری راہوں میں کھڑا ہے لوگو!
|
|