تعلیمی بورڈز اور طلباء کا مستقبل

علم شعور اور آگہی کا دوسرا نام ہے۔ یہ ظلمت سے نور کی طرف ایک تبدیلی ہے۔ کسی بھی تہذیب یافتہ ملک یا طبقہ کی حقیقی قوت تعلیم ہواکرتی ہے ۔زندگی کے کسی بھی شعبہ میں اس کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں مگر بدقسمتی سے قیام پاکستان سے لے کر اب تک جتنے تجربات ہم نے شعبہ تعلیم کے ساتھ کیے ہیں اگر یہی تجربات سائنس کے کسی شعبہ میں کرتے تو کئی ایجادات اوردریافتیں منظر عام پر آچکی ہوتیں۔ وطن عزیز میں تعلیمی پالیسیاں بنانے والے ادارے (پارلیمنٹ) کے ممبران کیلئے تعلیم کی شرط ضروری نہیں یعنی کہ ایک ان پڑھ ممبر قومی اسمبلی ملک کے پی ۔ایچ۔ ڈی سکالرز کے نصاب کو مرتب کرنے میں اپنی تجاویز دیتاہے۔ دنیا میں شاید اس سے بڑا مذاق کہیں اور ہوتا ہو۔

ملک میں ثانوی اور اعلیٰ ثانوی امتحانات کے انعقاد کیلئےء 1959ء کی تعلیمی پالیسی میں تعلیمی بورڈز کے قیام کی منظوری دی گئی ۔ساہیوال سمیت اس وقت پنجاب میں 9 بورڈز یہ فریضہ سرانجا م دے رہے ہیں ۔ مشترکہ حکمت عملی اختیار کرنے کی غرض سے پی ۔بی ۔سی ۔سی کا قیام عمل میں لایا گیا تاکہ پورے پنجاب میں ایک ہی دن امتحانات شروع کیے جاسکیں اور ایک ہی دن نتائج کا اعلان کیا جاسکے ۔ اس کے چئیر مین کا تقرر تمام بورڈز کے چئیر مین کے نام کے پہلے لفظ سے حروف تہجی کے مطابق کیا جاتاہے ۔پچھلی دو دہائیوں سے نت نئے تجربات کی روایت ڈالی گئی ، سب سے پہلے نہم اور دہم اور فرسٹ ائیر اور سیکنڈ ائیر کے علیحدہ علیحدہ امتحانات کا فیصلہ کیا گیا ۔ جب سب کچھ ہوگیا تو یاد آیا کہ مضامین کی تقسیم کا کیا کریں؟ ابتدا میں بیالوجی اور کیمسٹری کو نہم میں اور فزکس اور ریاضی کو دہم میں شامل کیا گیا اب مسئلہ یہ پیدا ہوا کہ جس بچے یا بچی نے میڈیکل میں جانا ہو وہ تو ایک سال سے بیالوجی جیسے مضمون سے دور ہے۔ اب چاروں مضامین کے نصف نصاب کو نہم اور نصف نصاب کو دہم میں شامل کرنے کا فیصلہ ہوا۔ سننے میں آ رہا ہے کہ اگلے سال سے پھر نہم اور فرسٹ ائیر کے امتحانات ختم کیے جارہے ہیں اور کمبائنڈ کا پرانا نظام دوبارہ بحال کیا جارہاہے۔یعنی جہاں سے چلے تھے وہیں پرواپس۔

ہماری یہ بدقسمتی رہی ہے کہ ہم نے فیصلہ کرلینے کے بعد اس کے بعد از اثرات کا جائزہ لیا ۔اب ایک نیا چیلنج آگیا ۔پریکٹیکل کا کیاکیا جائے اور بالاآخر انہیں دھم کے بعد لینے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہی کہانی فرسٹ ائیر اور سیکنڈ ائیر کے ساتھ دھرائی گئی۔ ایک اور فیصلہ جس کی منطق مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کہ جو پرائیویٹ طلباء و طالبات فرسٹ ائیریا نہم میں فیل ہوجائیں وہ نہم یا فرسٹ ائیر کا کبھی بھی دوبارہ امتحان نہیں دے سکتے اب وہ نہم اور دہم کا اکٹھا امتحان دیں گے۔ یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ جو بچہ یا بچی ایک کلاس کو پاس نہیں کرسکا یا کرسکی وہ دونوں کلاسز کو اکٹھے کیسے پاس کریگا یا کریگی۔ اور تو اور شروع میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ ریگولر طلباء جس ادارہ میں فیل ہوئے ہوں دوبارہ صرف اسی ادارہ میں داخلہ لے سکتے ہیں یعنی پاس ہونے کیلئے وہ طلباء کسی اور اچھے ادارہ کا انتخاب کا حق بھی نہیں رکھتے۔
انٹری ٹیسٹ ایک علیحدہ موضوع ہے کہ اسکی ضرورت کیوں پیش آئی ۔آیا کہ بورڈز کے نصاب یا طرز امتحانی پر اعتماد کی کمی تھی ۔بحر کیفیت اس کہانی میں ہزاروں طلباوطالبات نظام کی بھینٹ چڑھ گئے۔تعلیم کے کسی وزیر کو بیٹھے بیٹھے میٹرک میں نمبروں کی تعداد بڑھانے کا خیال آگیا تو یہ 850 سے بڑھا کر 1050 کردیے گئے۔ کسی اور وزیر کو یہ نمبر پسند نہ آئے تو اس نے 1100 کر دیے ۔بات ابھی ختم نہیں ہوئی تجربات ابھی باقی ہیں سائنس کے تجربات (پریکٹیکل ) کو ختم کرنے کا تجربہ کیاگیا۔ اگلے ہی سال فیصلہ میں ترمیم ہوئی اور پریکٹیکل کے نمبروں کو ختم کرکے صر ف گریڈنگ کی حد تک محدود کردیاگیا۔
آئیے آپ کو داخلہ بھجوانے کی دلچسپ کہانیاں سناتے ہیں ۔کمپیوٹرائزڈ نظام متعارف کروایا گیا ناجانے کمپیوٹر کو شرارت سوجھی یا آپریٹر کو کہ لڑکے کی سلپ پر لڑکی کی تصویر لگا دی اور لڑکی کی سلپ پر لڑکے کی۔ لڑکیوں کے سنٹر میں لڑکو ں کے رولنمبر ڈال دیے تو لڑکوں کے سنٹر پر لڑکیوں کے اور حتیٰ کہ کمپیوٹر نے حد بندیوں کو تبدیل کرتے ہوئے ضلع تک تبدیل کردیے اورہوایوں کہ ابتدائی تین پرچہ جات دوبارہ لینے پڑ گئے اور جس کے ہاتھ میں فیس کی سلپ تھی امتحان دینے کا اہل تھا ۔اچانک فیصلہ آگیا خادم اعلیٰ پنجاب کا کہ کمپیوٹرائزڈ فارم کے ساتھ ساتھ مینوئل فارم بھی بھیجا جائے ۔مطلب ہے پیاز کے ساتھ ساتھ جوتے بھی کھائے جائیں ۔ آن لائن داخلہ بھجنے کا یہ تماشا اب تک جاری ہے اور طلباوطالبات مارے مارے پھر رہے ہیں انہیں سہولت سنٹر نہیں مل رہے سہولت سنٹر وں کو بروقت معاوضہ ملے تو وہ بورڈ کے شانہ بشانہ چلیں۔

خدا نہ کرے کسی بھی طالب علم کی تاریخ پیدائش یا والد کے نام میں غلطی ہوجائے تو اسے پیدائش سے لیکر ابتک کی جانے والی تمام خطاؤں اور غلطیوں کا حساب بورڈ کو دینا پڑتاہے تب جا کر کہیں تاریخ پیدائش میں درستگی کا عمل وقوع پذیر ہوتاہے ۔اور اگر خدا نخوستہ کسی طالب علم کی ولدیت میں غلطی ہوجائے تو وہ طالب علم اسی غلط نام کا کوئی اور ابا ڈھونڈ لے یہ آسان ہے ۔ولدیت کے نام میں درستگی اتنی آسان نہیں ۔مجھے تو یہاں تک معلوم ہوا ہے کہ ایک طالب علم سے ولدیت کی درستگی کیلئے اسکے باپ کی جائیداد کے کاغذات ،نکاح نامہ ، فرد ملکیت ، شناختی کارڈ ،برتھ سرٹیفیکیٹ ،اصل رجسٹر داخل خارج ،یونین کونسل کا اصل رجسٹر اور اس کے متعلقہ صفحہ پر ڈی۔ او ۔سی کے دستخط اور شجرہ نصب تک طلب کیا گیا اور 5650 روپے فیس اس خواری کے علاوہ ہے ۔سند فیس کا دردایک اور دردہے جسے طلباء بار بار سہہ رہے ہیں فیل ہوںیا پاس سند کی فیس ایڈوانس ۔ایمپروو کریں تو سند کی فیس دوبارہ ۔فیس جمع ہونے کے باوجود بھی سند لینے کیلئے بورڈ کا طواف کرنا پڑتا ہے۔

مستقبل کے معماروں کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے اسکی داستان ابھی بہت طویل ہے۔ ان الفاطوں کے ساتھ اس طوالت کو سمیٹنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کم از کم تعلیمی پالیسیاں مرتب کرنے والے لوگ تعلیم یافتہ ہوں ۔ اس وزارت کا کلمدان خدارا اہل اور تجربہ کار لوگوں کو ملنا چاہیے ۔ تعلیم کے حوالہ سے ایک واضح اور جامع پالیسی بنانی ہوگی ، یونیورسٹی اور کالجز کے ریٹائرڈ پروفیسرحضرات پر مشتمل ایک ایسی کمیٹی بنائی جائے جو تمام مسائل کو سامنے رکھ کر طلبا وطالبات کی ازیتوں کو کم کرے اور روز روز کے تجربات کی بجائے ٹھوس حکمت عملی اختیار کرے اور تعلیمی بورڈ ز کو بھی چاہیے کہ کسی بھی فیصلہ کو حتمی شکل دینے سے پہلے اس سے پیدا ہونیوالی پیچیدگیوں کا پہلے تدارک کریں اور طلبا و طالبات میں اعتماد کی فضا کو دوبارہ بحال کریں۔

Mushtaq Ahmad kharal
About the Author: Mushtaq Ahmad kharal Read More Articles by Mushtaq Ahmad kharal: 58 Articles with 114709 views Director princeton Group of Colleges Jatoi Distt. M.Garh and a columnist.. View More