سیکولر دہشت گردی اور بھارت میں زبردستی تبدیلی مذہب
(Dr Sajid Khakwani, Islamabad)
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
بھارت سے مسلسل اس طرح کی خبریں آ رہی ہیں کہ اس سیکولرملک میں عوام الناسس
کو بڑی کثرت سے اور زبردستی ہندو دھرم میں داخل کیا جا رہا ہے۔دی ٹائمز آف
انڈیا کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ ایام کیرالہ کی ریاست میں چھوٹی ذات کے
انسٹھ(59)افرادکو زبردستی ہندو بنایاگیا جب کہ وہ مذہب عیسائیت کے پیروکار
تھے۔اس سے قبل بیالیس افراد کے بارے میں رپورٹ تھی ،وہ بھی مسیحی برادری سے
متعلق تھے لیکن انہیں بزورقوت ایک ہندو بت خانے میں لے جایا گیااور انہیں
ہندوبنالیاگیاجبکہ اس سے بھی قبل سترہ افراد کے زبردستی تبدیلی مذہب کی
رپورٹ بھی آ چکی ہے۔زبردستی تبدیلی مذہب کا یہ اہتمام
’’وشواہندوپرشاد‘‘نامی ہندوانتہاپسندتنظیم کی ضلعی قیادت نے ’’کانی
لناچور‘‘نامی ایک مقامی مندرمیں اتوارکے روزمنعقدکیا۔اسی طرح آگرہ میں ایک
اور ہندوانتہاپسند تنظیم ’’راشٹریہ سوام سیوک سنگRSS‘‘کے تحت گزشتہ ہفتے
ایک سو مسلمانوں کو زبردستی ہندودھرم میں داخل کیاگیا۔بھارتی گجرات میں
’’وشواہندوپرشاد‘‘کے سیکریٹری ’’رن شود بھروار‘‘کا کہناہے کہ گجرات میں ہر
سال پچیس سے تیس ہزار مسلمان ہندودھرم میں داخل ہو جاتے ہیں۔جبکہ گجرات میں
مسلم کش فسادات کے حقائق صاف طور پر بتاتے ہیں کہ اتنی تعدادمیں مسلمان خود
سے ہندو بن جاتے ہیں یا زبردستی بنادیے جاتے ہیں۔یہ تو ایسی خبریں ہیں جو
کسی بھی طرح سے باہر نکل آئیں اور دنیاکو خبرہو گئی،فی الاصل یہ سلسلہ کب
سے جاری ہو گا اور کتنے ہی افراد پر زبردستی کی گئی ہو گی،اس کا ادراک
بآسانی کیاجاسکتاہے۔بھارتی قیادت کی ہٹ دھرمی مشاہدہ ہو کہ جب ذمہ داران سے
چارہ گری کی درخواست کی گئی تو سیکولرازم کے ان نمائندوں نے بات کو یوں موڑ
دیا کہ ان خاندانوں کواصل میں ہندومت میں واپس لایا گیاہے
۔’’وشواہندوپرشاد‘‘کے جنرل سیکریٹری وی موہنان نے اخباری نمائندوں کے سامنے
یہ شاخصانہ پھوڑا کہ مذکورہ افراد تو ہندودھرم میں آناچاہتے تھے اور ہم نے
تو ان کی مدد کی ہے۔ دیدہ دلیری سے حقائق کوجھٹلاناتو کوئی سیکولرازم کے ان
کارپرداروں سے سیکھے،الامان و والحفیظ۔
’’وشواہندوپرشاد‘‘کے ایک اور بزرگ راہنما’’پراوین توگادیا‘‘نے پریس کے
سامنے تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کی اور کہا کہ ہندؤں کو بھی زبردستی
مسلمان اور عیسائی بنایا گیاتھا،انہوں نے موجودہ زبردستی ہندوبنانے کی مہم
کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ اس تحریک کانام ’’گھرواپسی‘‘پروگرام ہے ۔شدت
پسندبزرگ راہنمانے اس زبردستی کی مہم پر کسی طرح کی شرمندگی یا معذرت
خواہانہ رویہ اپنانے کی بجائے کھلی ڈھٹائی سے کام لیا اور ساتھ یہ بھی کہا
کہ عیسائی قبائل اپنے مذہب کے باعث مسیحی رفاہی اداروں سے ہرطرح کی معاونت
حاصل کرتے تھے جبکہ ہندو قبائل اس طرح کی مراعات سے محروم رہتے تھے۔بزرگ
ہندوراہنماکی اس بات سے ان کے عزائم کھل کر سامنے آتے ہیں کہ’’
سیکولر‘‘ریاست میں ہندواکثریت سے غیر ہندواقلیتوں کی خوشحالی برداشت نہیں
ہو پاتی،یہ اصل حقیت ہے سیکولرازم اور برہمن راج کی۔’’وشواہندوپرشاد‘‘اور
اس کے انتہاپسندہندوراہنما محض سیاسی ومذہبی بنیادوں پر ہی اس مہم کو نہیں
چلا رہے بلکہ حکومتی مشینری اورریاستی ادارے بھی ان کے ساتھ اس متعصبانہ
مہم میں برابرکے شریک ہیں،جس کا ثبوت یہ ہے کہ ’’پراوین توگادیا‘‘نے دو
ہیلپ لائن نمبر وں کا بھی اعلان کیاہے جو خالصتاَ ہندو مذہب کی اشاعت کے
لیے کام کریں گے اور ہندوؤں کے جملہ مسائل کا ان نمبروں پر حل بھی پیش
کیاجائے گا۔یہ نمبر تمام تر مدیہ پردیش کے علاقوں کے لیے اپنی خدمات پیش
کریں گے۔ایک سیکولر ریاست میں صرف ہندومقاصد کے لیے اور صرف ہندؤں کی
تعلیم،صحت،قانونی معاونت،ہندوتہذیب اور دیگرہندومسائل کے لیے اور ہندومذہب
کی ترویج و اشاعت کے لیے ریاستی کل پرزوں کا استعمال سیکولرازم کا ننگ
انسانیت کردارہے۔ ’’پراوین توگادیا‘‘سے جب یوپی کے مسلمان وزیر،جناب اعظم
خان کے بارے میں سوال کیاگیا جنہوں نے اس مہم کی مخالفت کی تھی توانہوں نے
جواب دیاکہ اعظم خان دنیاکوپاگل بنارہے ہیں اور وہ اعظم خان کے بارے میں
بات کرکے اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہتے۔جبکہ اعظم خان اس وقت وزیر کی
حیثیت سے ریاست کے سرکاری منصب پر فائز ہیں۔سیکولربھارت کی غیرہندواکثریت
پر اتنا سب کچھ گزرجانے کے بعد اب حکمران سوچ رہے ہیں کہ اس کے خلاف کوئی
قانون سازی ہونی چاہیے۔وزیرخارجہ سشماسوراج نے جمعرات 25دسمبرکو بھوپال میں
صحافیوں سے گفتگوکرتے ہوئے کہااگرزبردستی تبدیلی مذہب کے خلاف قانون
بنادیاجائے تو’’گھر واپسی‘‘جیسے پروگرامزکا خاتمہ ہو سکتاہے۔سیکولرریاست کی
قیادت آج جن مسائل کے بارے میں ابھی سوچ رہے ہیں،وحی پر مبنی دین اسلام نے
آج سے صدیوں پہلے اس مسئلے پر قابل عمل قانون سازی مکمل بھی کر لی ہے۔
مختلف ذرائع سے حاصل ہونی والی معلومات کے مطابق سیکولر بھارت میں برہن راج
کی ناک کے نیچے ’’راشٹریہ سوام سیوک سنگRSS‘‘کی اعل ترین قیادت نے ناگ
پورمیں7تا9نومبر2014ء ایک اہم اجلاس منعقد کیاتھا،اس اجلاس میں موہن
بھگوت،سرکاریہ بھیجائی جوشی اور کرشنہ گوپال جیسے مرکزی راہنماؤں نے بھی
شرکت کی تھی۔اس اجلاس میں مکنڈپرشیکرکی قیادت میں اٹھاون
پرچارکر(مبلغین)کاایک موثرگروہ تیارکیاگیا جسے زبردستی تبدیلی مذہب کا
منصوبہ سونپاگیا۔اس منصوبے کانام ’’دھرم جاگران مانک‘‘رکھاگیاجس کا مطلب
تفہیم مذہب ہے۔معلومات کے مطابق کسی ایک مہم کے لیے اتنی بڑی تعدادمیں
افرادکی تعیناتی’’راشٹریہ سوام سیوک سنگRSS‘‘کی تاریخ میں پہلی دفعہ عمل
میں لائی گئی ہے۔منصوبے کے مطابق اسی ضلع میں مزید ایک سو پچاس گھرانوں کو
زبردستی ہندودھرم میں داخل کیاجائے گاجبکہ اگلے اگست(2015)تک مزید پچاس
ہزار افراد کے ساتھ اسی طرح کی زبردستی کا ہدف بھی مقرر کیاگیاہے۔چنانچہ
جہاں جہاں زبردستی تبدیلی مذہب کی کاروائی بڑے پیمانے پر ہوچکی تو خبروں
میں آگیااور جہاں کہیں درون خانہ سازشیں تیارہورہی ہیں وہاں کے بارے میں
ابھی کسی کو خبر نہیں۔علی گڑھ میں بھی ایک ایسی کاروائی ہونا تھی لیکن وہاں
کی مقامی پولیس نے ابھی اس کی اجازت نہیں دی۔نچلی ذات کے لوگوں اور ملیجھ
قبائل کے کمشن کے سابقہ چئرمین ’’بزے شونکرشاستی‘‘نے زبردستی مذہب تبدیل
کرنے کی ’’گھرواپسی‘‘مہم پر تبصرہ کرتے ہوئے کہاہے کہ اس مہم کا یہ جواز
پیش کیاجاتاہے کہ صدیوں پہلے نیچ ذات والوں نے عزت کی تلاش میں ہندودھرم
چھوڑاتھااور اب انہیں کہاجارہاہے کہ تم ہندودھرم قبول کرلو تمہیں دوبارہ
عزت دے دی جائے گی،ان کا کہنا تھا کہ دوسرے مذہب کے لوگوں کوعزت کی لالچ
میں ہندودھرم میں داخل کیاجارہا ہے تو کیاجو پہلے سے ہندودھرم کے پیروکار
ہیں اور ابھی تک نیچ اور ملیجھ ہیں،کیاان کاکچھ حق نہیں کہ انہیں عزت دی
جائے؟؟؟لیکن ہندؤں کے مقتدرطبقوں نے ان کا یہ موقت سختی سے مسترد کر
دیاہے۔نچلی ذات کے لوگوں اور ملیجھ قبائل کے کمشن کے سابقہ چئرمین ’’بزے
شونکرشاستی‘‘نے سینکڑوں کانفرنسوں اور سیمینارز میں یہ بات اجاگر کی ہے کہ
آخر نچلی ذات کے ہندؤں کا کیاقصور ہے کہ ان پر سیاسی و معاشرتی عزت افزائی
کے دورازے مطلقاََ بندہیں اورنچلی ذات کے نوجوان محض اپنامذہب بچانے کے لیے
اعلی تعلیم کے باوجود نچلے درجے کی نوکریاں کرنے پر مجبورہیں۔سیکولربھارت
کا یہ المیہ ہے کہ ہندوہونے کے ناطے ویسے ہی انسانیت کی تذلیل ان کے
معاشرتی نظام کا حصہ تھی جبکہ رہی سہی کسرسیکولرازم نے پوری کر دی اور اب
اس ملک میں انسانیت نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔
سیکولربھارت کے یہ حالات دیکھ کر اگر اب بھی ان لوگوں کی آنکھیں نہیں
کھلتیں جوقیام پاکستان کے جواز کو غلط سمجھتے ہیں توان کے بارے میں یہ قلم
کچھ بھی کہنے سے قاصر ہے۔بس جنہیں چمکتے دن کی روشنی میں سورج کی حقیقت سے
انکار ہے تو ایسے اندھے ،گونگے اوربہرے چمگادڑوں کے لیے کسی طرح کی روشنی
کوئی معنی نہیں رکھتی۔حقیقت یہ ہے کہ نہ صرف پاکستان ناگزیرتھا بلکہ ناگزیر
ہے اور اس زمین کے سینے پرہمیشہ ناگزیر رہے گا،انشاء اﷲ تعالی۔بھارت کا
تجربہ پورے جنوبی ایشیاء کے لیے ایک سخت ترین آزمائش کا تجربہ ثابت ہوا
ہے،مملکت خداداداسلامی جمہوریہ پاکستان کا وجود نہ ہوتاتوبرہمن راج کو
دنیاکی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے سیکولرازم کے نعرے کی بھی ضرورت پیش
نہ آتی اور یہ طبقہ دوسروں کوحق زندگی سے بھی کلیۃََمحروم رکھتاجیسا کہ
ہندودھرم کی کتب میں تحریر ہے جہاں تمام حقوق،تمام مراعات اور رعایات صرف
برہمن کے لیے ہی مخصوص و محدود ہیں۔دنیامیں تاشرق و غرب جیسے جیسے
سیکولرازم کے پردہ ہائے کذب و نفاق اٹھتے چلے جارہے ہیں انسانیت دن بدن اور
جوق در جوق آفاقی و الہامی حقیقتوں کی طرف رجوع کرتی چلی جارہی
ہے۔سیکولرازم کااستبداداوربرہمن کا ڈھونگ ڈرامہ اب اپنے انجام کو
پہنچاچاہتے ہیں،کچھ بعید نہیں اسی بھارت کے کلمہ گواور نورتوحید کے امانت
دارایک بار پھرانگڑائی لیں کہ تاریخ ہمیشہ اپنے آپ کو دہراتی ہے ۔آج
انسانیت بدامنی و کسادبازاری کے جس مقام پر آن پہنچی ہے صرف حاملین قرآن ہی
یہاں سے نجات کے ضامن ہیں اور امت مسلمہ کا صرف فرض ہی نہیں اس پر انسانیت
کا یہ قرض بھی ہے کہ ظالم کو ظلم سے روکنے کے لیے اس کا ہاتھ تھام لے اور
اینٹ کا جواب پتھر سے دے۔ |
|