وہ جو سر خروکر گئے

ننھے مُنے بچے اور خوبصورت حسین نوجوان جو ہنستے کھیلتے شرارتیں کرتے مسکراتے ایک دوسرے کو پکارتے آتے اور اپنے تعلیمی ماحول میں اپنے اساتذہ کی آنکھوں کا تارا۔ گھروں میں ماؤں کی گود کی گرمی اور اسکول میں اساتذہ کا شفقت کا ہاتھ۔ محبت سمیٹنے والے اور دلوں کو سکون دینے والے ۔ اب تو صرف اتنا سوچنا ہی شروع ہوئے تھے کہ ہم کیا بنیں گے ۔ ابھی تو مرحلے ہی طے ہو رہے تھے۔ خوشی اس بات کی ہم ایسا کچھ بنیں گے جس پر پوری قوم کو فخر ہو۔ گھر والوں کو اطمینان ہو۔

پھرمنظر بدلا۔ یہ اتنی سخت آواز کیسی ہے ۔ گولیاں چل رہی ہیں۔ میرے دوست زخمی ہو کر گر رہے ہیں۔ میرے اساتذہ ہمارے سامنے ڈھال بنے کھڑے ہیں۔ مجھے اپنے اساتذہ کو بچانا ہے۔ اپنے دوستوں کو بچانا ہے۔ یہ کون ہیں اورکیوں ہمیں مار رہے ہیں؟ میرے چہرے پر خون کے چھینٹے پڑے ہیں۔ میں یہ کیسے گر گیا ہوں۔ میرے جسم میں سنسنا ہٹ کیسی ہے۔ مجھے کچھ سمجھ کیوں نہیں آرہا ۔ مجھے انہیں روکنا ہے۔ یہ سُنتے کیوں نہیں؟ یہ میرے پاس کون گِرا ہے۔ میرے دوست تمہیں کیا ہوا ہے۔ میرا ہاتھ پکڑو اور اُٹھو۔ ہمیں حوصلہ کرنا ہے۔ دیکھنا ہے کیا ہو رہا ہے۔ سب کو بچانا ہے۔ باہرلے کر جانا ہے۔ اُٹھو یہاں سانس نہیں آرہا ۔ کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ اُٹھو مجھے بھی اُٹھاؤ۔ پتا نہیں کیوں میں اُٹھ نہیں پارہا۔

Anwar Parveen
About the Author: Anwar Parveen Read More Articles by Anwar Parveen: 59 Articles with 39963 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.