آج کے مضمون کے نیچے شاہ زیب صاحب نے کمنٹس میں بدعت والی
حدیث نقل کی کچھ قرآنی آیات کے ساتھ ان سے گذارش ہے کہ وہ احقر کا آرٹیکل
بعنوان میلاد منانا شرک ہے نہ بدعت پڑھیں ۔ دوسرا انھوں نے پوچھا ہے مستند
حوالوں کا جن سے ثابت ہو کہ میلاد منانا جائز ہے ۔ انکے الفاظ درج کرتا ہوں
-
Shah Zeb Usman Bhai plZ share some authentic references proving Mawlid
celebrations so we r guided to the right path ,..
میرا ویسے مزاج نہیں اسطرح جواب دینے کا مگر انکا سوال کا انداز اچھا لگا
اس لئیے اپنے ناقص علم کی روشنی میں عرض کرتا ہوں ۔ قرآن و حدیث سے دلائل
کی کمی نہیں مگر میں آج علمائے دیوبند اور علمائے اہلحدیث کے مشترکہ بزرگوں
کی کتب سے چند حوالے پیش کرنے کی جسارت کروں گا کیونکہ ہمارے دوستوں کو
قرآن و حدیث سے زیادہ اپنے بزرگوں کی بات سمجھ آتی ہے اور یہ وہ بزرگ ہیں
اگر انکو یہ لوگ نظر انداز کریں تو انکی علم حدیث کی سند منقطع ہوکر برصغیر
سے باہر نہیں نکل سکتی ۔ آپ یہ حوالہ بھی پڑھیں گے کہ آل سعود سے پہلے مکہ
مکرمہ میں بھی میلاد منایا جاتا تھا ۔ اب بلاتاخیر حوالہ جات ملاحظہ کریں ۔
حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی رحمتہ اﷲ علیہ اپنے والد شاہ عبدالرحیم رحمتہ
اﷲ علیہ کا واقعہ بیان فرماتے ہیں ’’میرے والد نے مجھے خبر دی کہ میں عید
میلاد النبیﷺ کے روز کھانا پکوایا کرتا تھا۔ ایک سال تنگدست تھا کہ میرے
پاس کچھ نہ تھا مگر صرف بھنے ہوئے چنے تھے۔ میں نے وہی چنے تقسیم کردیئے۔
رات کو سرکار دوعالمﷺ کی زیارت سے مشرف ہوا اور کیا دیکھتا ہوں کہ حضورﷺ کے
سامنے وہی چنے رکھے ہیں اور آپ خوش ہیں‘‘ (درثمین ص 8)
حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی رحمتہ اﷲ علیہ اور ان کے صاحبزادے شاہ
عبدالعزیز محدث دہلوی رحمتہ اﷲ علیہ کا معمول تھا کہ 12 ربیع الاول کو ان
کے ہاں لوگ جمع ہوتے، آپ ذکر ولادت فرماتے پھر کھانا اور مٹھائی تقسیم کرتے
(الدرالمنظم ص 89)
حضرت شاہ ولی اﷲ دہلوی رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں:
’حضرت ایشاں فرموند کہ دوازدہم ربیع الاول‘‘ بہ حسب دستور قدیم ’’قرآن
واندم و چیزے نیاز آں حضرتﷺ قسمت کردم وزیارت موئے شریف نمودم، در اثنائے
تلاوت ملاء اعلیٰ حاضر شدند وروح پرفتوح آن حضرتﷺ بہ جانب ایں فقیر و دست
واران ایں فقیر بہ غایت التفات فرموداراں ساعت کہ ملاء اعلیٰ و جماعت
مسلمین کہ بافقیر بود بہ ناز ونیائش صعودی کنندہ برکات ونفحات ازاں حال
نزول می فرماید‘‘ (ص 74، القول الجلی) (حضرت شاہ ولی اﷲ نے فرمایا کہ قدیم
طریقہ کے موافق بارہ ربیع الاول (یوم میلاد مصطفیﷺ) کو میں نے قرآن مجید کی
تلاوت کی اور آنحضرتﷺ کی نیاز کی چیز کھانا وغیرہ) تقسیم کی اور آپﷺ کے بال
مبارک کی زیارت کروائی۔ تلاوت کے دوران (مقرب فرشتے) ملاء اعلیٰ (محفل
میلاد میں) آئے اور رسول اﷲﷺ کی روح مبارک نے اس فقیر (شاہ ولی اﷲ) اور
میرے دوستوں پر نہایت التفات فرمائی۔ اس وقت میں نے دیکھا کہ ملاء اعلیٰ
(مقرب فرشتے) اور ان کے ساتھ مسلمانوں کی جماعت (التفات نبویﷺ کی برکت سے)
ناز ونیائش کے ساتھ بلند ہورہی ہے اور (محفل میلاد میں) اس کیفیت کی برکات
نازل ہورہی ہیں)- شیخ الدلائل مولانا شیخ عبدالحق محدث الہ آبادی نے میلاد
و قیام کے موضوع پر ایک تحقیقی کتاب لکھی جس کا نام ’’الدرالمنظم فی بیان
حکم مولد النبی الاعظم‘‘ﷺ ہے۔ اس کتاب کے بارے میں علمائے دیوبند کے
پیرحضرت حاجی امداد اﷲ مہاجر مکی فرماتے ہیں:مولف علامہ جامع الشریعہ
والطریقہ نے جو کچھ رسالہ الدر المنظم فی بیان حکم مولد النبی الاعظم میں
تحریر کیا، وہ عین صواب ہے، فقیر کا بھی یہی اعتقاد ہے اور اکثر مشائخ عظام
کو اسی طریقہ پر پایا، خداوند تعالیٰ مولف کے علم و عمل میں برکت زیادہ عطا
فرماوے‘‘ (الدرالمنظم ص 146)
گیارہویں صدی کے مجدد حضرت محقق شاہ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ کی دعا
:-
اے اﷲ! میرا کوئی عمل ایسا نہیں جسے تیرے دربار میں پیش کرنے کے لائق
سمجھوں، میرے تمام اعمال فساد نیت کا شکار ہیں، البتہ مجھ فقیر کا ایک عمل
محض تیری ہی عنایت سے اس قابل ہے اور وہ یہ ہے کہ مجلس میلاد کے موقع پر
کھڑے ہوکر سلام پڑھتا ہوں اور نہایت عاجزی اور انکساری، محبت و خلوص کے
ساتھ تیرے حبیب پاکﷺ پر درود وسلام بھیجتا ہوں۔ اے اﷲ! وہ کون سا مقام ہے
جہاں میلاد پاک سے بڑھ کر تیری طرف سے خیروبرکت کا نزول ہوتا ہے، اس لئے
ارحم الرحمین! مجھے پکا یقین ہے کہ میرا یہ عمل کبھی رائیگاں نہیں جائے گا
بلکہ یقیناًتیری بارگاہ میں قبول ہوگا اور جو کوئی درود وسلام پڑھے اور اس
کے ذریعے سے دعا کرے وہ کبھی مسترد نہیں ہوگی (بحوالہ: اخبار الاخیار،
مصنف، شیخ محقق شاہ عبدالحق محدث دہلوی) ۔
شیخ وحید الزماں جوغیر مقلدین اہلحدیث کے امام ہیں، حضرت شاہ ولی اﷲ علیہ
الرحمہ کے حوالے سے اپنی کتاب ہدیۃ المہدی ص 117 میں لکھتے ہیں کہ بدعت
حسنہ (اچھی بدعت) کو دانتوں سے (مضبوطی سے) پکڑ لینا چاہئے کیونکہ سرکار
اعظمﷺ نے اس کو واجب کئے بغیر اس پر برانگیختہ کیا ہے جیسے نماز تراویح۔
(5) حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ نے ماہ رمضان میں نماز تراویح کی جماعت کا
اہتمام کیا تو کسی نے عرض کیا کہ یہ ’’بدعت‘‘ ہے تو حضرت عمر فاروق رضی اﷲ
عنہ نے جواب میں فرمایا ’’نعمت البدعۃ ہذہ‘‘ یہ کتنی اچھی بدعت ہے - امام
قطب الدین الحنفی علیہ الرحمہ اپنی معرکۃ الآراء کتاب ’’الاعلام باعلام بیت
اﷲ الحرام‘‘ کے صفحہ نمبر 196 پر تحریر کرتے ہیں کہ بارہ ربیع الاول کی رات
ہر سال باقاعدہ مسجد حرام میں اجتماع کا اعلان ہوجاتا ہے، تمام علاقوں کے
علماء، فقہاء، گورنر اور چاروں مسالک کے قاضی نماز مغرب کے بعد مسجد حرام
میں اکھٹے ہوجاتے ہیں، ادائیگی نماز کے بعد سوق اللیل سے گزرتے ہوئے مولد
النبیﷺ (ولادت گاہ رسول اﷲﷺ) کی زیارت کے لئے جاتے ہیں۔ وہ اپنے ہاتھوں میں
کثیر تعداد میں شمعیں، فانوس اور مشعلیں تھامے ہوتے ہیں۔ امام محمد بن جار
اﷲ ابن ظہیر علیہ الرحمہ اپنی معرکۃ الآراء کتاب ’’الجامع اللطیف‘‘ کے صفحہ
نمبر 201 پر لکھتے ہیں کہ ہر سال مکہ شریف میں بارہ ربیع الاول کی رات کو
اہل مکہ کا یہ معمول ہے کہ قاضی مکہ جوکہ شافعی ہیں، مغرب کی نماز کے بعد
لوگوں کے ایک جم غفیر کے ساتھ مولد شریف (جاء ولادت گاہ) کی زیارت کے لئے
جاتے ہیں۔ان لوگوں میں دیگر تینوں مذاہب فقہ کے ائمہ، اکثر فقہاء، فضلاء
اور اہل شہر ہوتے ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں فانوس اور بڑی بڑی شمعیں ہوتی ہیں
-
ماننے کے لئیے ایک حوالہ کافی ہوتا ہے نہ ماننے کو لائبریریاں کم پڑ جاتی
ہیں ۔ شاہ زیب بھائی تسلی رکھیں ابھی ربیع الاول کے کافی دن پڑے ہیں میلاد
النبی صلی الله علیہ وسلم پر ہی لکھوں گا سارا مہینہ پڑھتے رہئیے گا شائد
میرے دل سے نکلی کوئی بات اثر کرجائے کیونکہ
دل سے جو بات نکلتی ہے وہ اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقت پرواز وہ مگر رکھتی ہے |