ڈاکٹرز، میڈیا ....اور مریض

اللہ تعالیٰ نے جب سے انسان کو زمین پر اپنے نائب کی حیثیت سے اتارا ہے تب سے طبیب اور مریض کا رشتہ قائم ہے جو تا ابد قائم رہے گا۔ کچھ عرصہ پیشتر تک طب اور مسیحائی کا پیشہ انتہائی متبرک اور قابل احترام ہونے کے ساتھ ساتھ انسانیت دوست بھی تھا لیکن جیسے جیسے مال و زر کی ہوس بڑھتی گئی مسیحائی کا پیشہ بھی اس سے متاثر ہوتا گیا۔ کوئی وقت تھا جب ڈاکٹرز اس پیشے کو دکھی انسانیت کی خدمت کے لئے چنتے تھے جس طرح فوج میں جانے والے جہاد کا جذبہ رکھا کرتے تھے۔ لیکن اب صورتحال یہ ہوچکی ہے کہ ایک طالب علم کے والدین جب اس کے مستقبل کو سامنے رکھتے ہیں تو یہ امر ان کے سامنے ہوتا ہے کہ مال و دولت کس پیشہ میں زیادہ ہے تاکہ ان کا بچہ بڑا ہوکر خوب دولت اور نام کمائے۔ اب تو لوگ فوج میں اس لئے بھرتی ہونا چاہتے ہیں کہ جب مارشل لگے گا تو ان کی چاندی بلکہ سونا ہوگا اور ڈاکٹری کا پیشہ اس لئے چنتے ہیں کہ وہ زیادہ سے زیادہ دولت اکٹھی کرسکیں گے۔ یقیناً مستثنیات بھی دور حاضر میں موجود ہیں اور پانچوں انگلیاں ایک جیسی نہیں ہیں لیکن کیا کہیں کہ ہمیشہ اکثریت اور اقلیت کی بات ہوتی ہے۔ پاکستان میں تقریباً ہر شعبہ تنزلی کی طرف رواں دواں ہے اور ایک ڈھلوان ہے جو ہمیں مزید نیچے کی طرف لے جارہی ہے اور کہیں کوئی ایسی رکاوٹ نظر نہیں آتی کہ نیچے کی طرف لڑھکنا بند ہوجائے اور ہم کہیں رک کر، اپنی سانس درست کرکے واپس ترقی کا سفر شروع کر سکیں۔

جیسے جیسے طب کے شعبہ میں ترقی ہورہی ہے ویسے ویسے مریض کی مشکلات میں نہ صرف اضافہ ہورہا ہے بلکہ اگر کوئی شفاء کی تلاش میں کسی ایسے معالج کے ہتھے چڑھ جائے جو آجکل کے معالجین کی اکثریت کے ساتھ تعلق رکھتا ہو یعنی اس کے پیش نظر صرف اور صرف اپنی ذات اور زیادہ سے زیادہ دولت اکٹھی کرنا ہو تو سمجھیں کہ نہ صرف وہ مریض بلکہ اس کا سارا خاندان ایک عجیب طرح کی کشمکش اور آزمائش میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ ہم اگر ماضی قریب کا جائزہ لیں تو مشرف دور میں شروع ہونے والے ٹی وی چینلز نے بڑی مشکل سے ایک آمرانہ حکومت سے آزادی حاصل کی لیکن شائد پاکستانی معاشرے میں افرا تفری اتنی زیادہ ہے کہ میڈیا جو ایک معاشرے کو بناتا ہے، جو معلومات بھی دیتا ہے اور رہنمائی بھی کرتا ہے، وہی میڈیا ایسی باتیں کر جاتا ہے کہ سوسائٹی میں بگاڑ کو مزید بڑھاوا مل جاتا ہے۔ کچھ روز قبل چند واقعات ایسے پیش آئے جن کو میڈیا نے بہت زیادہ اچھالا، حالانکہ ایسے واقعات بہت بڑی تعداد میں پہلے بھی پیش آتے رہتے تھے لیکن شائد اس وقت میڈیا اتنا طاقت ور اور تیز نہیں تھا اس لئے وہ منظر عام پر نہیں آتے تھے۔ موجودہ واقعات میں ایک معصوم بچی ”ایمانے“ کی لاہور کے ایک نجی ہسپتال میں ڈاکٹرز کی غفلت اور لاپروائی سے ہلاکت، مبینہ طور پر وسیم اکرم کی اہلیہ کی ہلاکت اور چند دیگر واقعات شامل ہیں جن کی میڈیا پر کوریج اتنی شدید طریقے سے کی گئی کہ پورا پاکستان بالعموم اور ڈاکٹر برادری بالخصوص شدید طریقہ سے متاثر ہوئی اور ایک ہیجان پیدا کردیا گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک ڈاکٹر کو انتہائی ذمہ دار اور چاک و چوبند ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے شعبہ کے متعلق مکمل با علم ہونا چاہئے لیکن ہمیں یقیناً یہ بات بھی سامنے رکھنی چاہئے کہ ڈاکٹرز بھی بہرحال انسان ہی ہوتے ہیں اور کسی بھی انسان کے اندر سے غلطی کا امکان نفی نہیں کیا جاسکتا۔ ایک اور اہم بات جو حکومتی اور عدالتی شخصیات اور میڈیا کو کسی بھی کارروائی سے قبل سامنے رکھنی چاہئے وہ یہ ہے کہ انسانی غلطی اور غفلت میں فرق روا رکھا جائے۔

بلا شبہ اگر کوئی ڈاکٹر ایسی غفلت کا مظاہرہ کرے جو جان لیوا ہو تو اسے اس غفلت کی قانون کے مطابق سخت سے سخت سزا دی جانی ضروری ہوتی ہے۔ لیکن اگر غفلت ایسی بھیانک اور مجرمانہ نہ ہو تو بھی قانون کے مطابق ہی کارروائی ہونی چاہئے ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہئے کہ بے قصور لوگوں کو صرف اس جرم میں رگڑا لگا دیا جائے کہ وہ بھی اسی شعبہ زندگی سے تعلق رکھتا ہے جس کے کسی شخص نے کوئی انفرادی غلطی کی ہو یا کسی مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ معصوم بچی ”ایمانے“ کی وفات شہادت کے برابر ہے اور اس کے لواحقین کا غم و غصہ بھی جائز لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ پورے پاکستان کے تمام ڈاکٹرز کو مجرم قرار دے دیا جائے اور پاکستان کے سینئر ترین ڈاکٹرز اور پروفیسرز کو مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کر دیا جائے۔ انہی حالات اور ڈاکٹرز کے خلاف میڈیا پراپیگنڈہ کی وجہ سے میرے علم کے مطابق اب اکثر پرائیویٹ ہسپتالوں میں ڈاکٹرز نے ڈرتے ہوئے ایمرجنسی مریضوں کو ہاتھ بھی لگانا چھوڑ دیا ہے کہ کہیں کوئی مسئلہ ہی پیدا نہ ہوجائے اور وہ کہیں عدالتی اور پولیس کی کارروائیوں کا شکارنہ ہوجائیں۔ ایک ایسا ملک جہاں سرکاری ہسپتالوں میں علاج معالجہ کی سہولتوں کا فقدان ہو، جہاں ڈاکٹرز کو انتہائی کم اجرت دی جاتی ہو اور کسی قسم کی سہولتیں دستیاب نہ ہوں وہاں اگر پرائیویٹ ہسپتالوں کا بھی یہی حال ہوجائے گا تو اس ملک کے بیچارے مریضوں کا کیا بنے گا؟ ڈاکٹرز کا قبلہ بھی درست ہونا چاہئے اور انہیں صرف دولت سے نہیں بلکہ انسانی جان سے بھی غرض ہونی چاہئے۔ کہتے ہیں کہ کسی مریض کا آدھا مرض اس وقت ختم ہوجاتا ہے جب ایک معالج پوری توجہ، اخلاص اور حسن اخلاق سے اس کا مرض پوچھتا ہے اور اسے تسلی دیتا ہے۔

راقم کو پوری صورتحال کا صحیح ادراک اس وقت ہوا جب اپنی ہمشیرہ کے آپریشن کے لئے لاہور کے ایک ٹرسٹ ہسپتال سے واسطہ پڑا۔ تقریباً پندرہ یوم قبل میری ہمشیرہ کا آپریشن ہونا تھا لیکن آپریشن سے ایک روز پہلے جب عمومی طور پر بیہوش کرنے والے ڈاکٹرز مریض کا تفصیلی معائنہ کرتے ہیں میری ہمشیرہ کا معائنہ کیا گیا تو انیستھیزیا کے ماہر ڈاکٹر نے براہ راست ہمشیرہ سے کہا کہ آپ کے آپریشن کے دوران کچھ قباحتیں پیدا ہونے کا خدشہ موجود ہے کیونکہ آپکے والدین کو دل کا عارضہ لاحق تھا اور آپ کا بلڈ پریشر بھی کچھ زیادہ ہے۔ جب ہمشیرہ نے یہ بات مجھے بتائی تو مجھے انتہائی دکھ اور مایوسی کا سامنا تھا کیونکہ پوری دنیا میں ایسا نہیں ہوتا کہ اس طرح کی بات مریض سے براہ راست کی جائے چنانچہ میں نے ہسپتال کی انتظامیہ اور متعلقہ سرجن سے رابطہ کیا اور ان سے اس بابت بات کی جس پر ہسپتال کے ایم ڈی اور خاتون سرجن نے باقاعدہ طور پر مجھ سے نہ صرف معذرت کی بلکہ انیستھیزیا کے ڈاکٹر کو سمجھانے کا بھی وعدہ کیا۔ میرے اصرار پر ہمشیرہ کے آپریشن کے لئے Fitness کے لئے مزید ٹیسٹ کئے گئے اور ہارٹ سپیشلسٹ نے بھی اسے اگلے روز آپریشن کے لئے Fit قرار دیدیا لیکن اس کے باوجود صرف اس لئے ہمشیرہ کا آپریشن نہ کیا گیا کہ چونکہ میڈیا پر ڈاکٹرز کے خلاف پراپیگنڈہ کیا جارہا ہے اور بغیر کسی تفتیش و تحقیق کے انہیں مجرم قرار دیا جا رہا ہے جبکہ دوسری وجہ میرا وکالت کے شعبہ سے منسلک ہونا تھا۔ اللہ کا شکر ہے کہ اب ہمشیرہ کا کامیابی سے آپریشن ہوچکا ہے اور وہ روبہ صحت ہے۔ میں اس سلسلہ میں ان تمام دوست احباب کا بھی مشکور ہوں جنہوں نے آپریشن کے لئے خون کا عطیہ دیا اور اپنی خصوصی دعاﺅں میں آپریشن کی کامیابی کے لئے دعائیں کیں۔

ہسپتال میں ایم ڈی صاحب سے گفت و شنید میں ایک بہت خطرناک بات سامنے آئی کہ موجودہ حالات اور ڈاکٹروں کے خلاف غفلت کے الزامات کے تحت قتل عمد کے کیسز اور سینئر ڈاکٹروں جن کا کوئی قصور بھی نہیں تھا، کو ہتھکڑیوں میں عدالتوں میں پیش کرنا، وہاں ان سے بدسلوکی اور ان کے لائسنسوں کی تنسیخ کی وجہ سے اکثر ڈاکٹر حضرات ملک سے باہر جانے کی تیاری کررہے ہیں، خصوصاً سینئر ڈاکٹرز جن کی یورپ اور امریکہ وغیرہ میں مانگ بھی بہت ہے۔ آپ اندازہ لگائیں کہ اگر وہ ڈاکٹرز جن کو بیرونی ممالک سے بلا شبہ لاکھوں روپے ماہانہ مل سکتے ہیں انہیں ان حالات میں کیا چیز پاکستان میں روک سکتی ہے؟ یہی کہ ان کی عزت و توقیر کی جائے اور ان سے دکھی انسانیت کے لئے فوائد حاصل کئے جائیں۔ میڈیا کو بھی عقل و شعور کا استعمال کرنا چاہئے۔ قصور وار کو اس کے جرم کی سزا ضرور ملنی چاہئے لیکن جرم ثابت ہونے پر جبکہ بے قصور کے خلاف کسی بھی پراپیگنڈہ اور مہم جوئی سے اجتناب کرنا چاہئے۔

ڈاکٹر حضرات کو بھی اپنی خود تربیتی کی ضرورت ہے کہ مریض کے ساتھ کس طرح پیش آئیں کہ اگر وہ کسی انسانی غلطی کے بھی مرتکب ہوجائیں تو کوئی ان کے خلاف نعرے نہ لگائے، میڈیا کے پاس نہ جائے اور ہسپتالوں میں توڑ پھوڑ نہ کرے اور نہ ہی ان کے خلاف کیسز دائر کرے۔ اگر تمام ڈاکٹرز ایسی صورتحال میں ملک سے چلے گئے تو ہم جیسے لوگ جو بیرون ملک سے علاج نہیں کرواسکتے ان کا کیا بنے گا؟ ایسا ملک جہاں پہلے ہی ہر محکمے اور شعبہ زندگی میں ”عطائی“ بیٹھے ہیں وہاں اگر تمام مریضوں کو ”نیم حکیموں“ اور ”عطائیوں“ سے علاج کروانا پڑ گیا تو کیا ہوگا....؟
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 207087 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.