نہیں غصہ نہیں

ماتھے پر پڑے شکن ۔پھولتی سانسیں۔متغیر چہرہ کسی طور پر بھی اس میں خیر کی خبر نہیں ۔آج تو یا یہ رہے گی یا میں ۔بس ۔اسی طرح کے کئی منظر ہم اپنے معاشرے میں ملاحظہ کرتے ہیں ۔جوں ہی ہمارے مزاج کے خلاف کوئی بات ہوتی ہے ہم آگ بگولہ ہوجاتے ہیں ۔پھر ہم یہ نہیں دیکھتے کہ جس پر ہم برس پڑے ہیں ۔وہ عمر میں ہم سے چھوٹاہے کہ بڑا۔وہ رشتے میں باپ ہے یا ماں ؟بہن ہے یا بھائی ؟بیٹی ہے یابیٹا۔بیوی ہے یا شوہر ؟بس اعصاب کام چھوڑدیتے ہیں اور چند لمحوں میں ہم وہ کرگزرتے ہیں کہ پھر صدیاں بیت جاتی ہیں اس خطاکہ ازالے میں۔

انسان کا مزاج طرح طرح کی کیفیات اور عادات سے بنتا ہے۔ عام حالات اور خوش گوار ماحول میں مثبت جبکہ ذہنی تناؤ اور خلاف طبع بات پر ہمارا ردعمل یک سر مختلف ہوتا ہے۔ کوئی ناخوش گوار بات یا کسی کا غلط طرز عمل ہی نہیں بلکہ اکثر معمولی بات بھی اشتعال کا باعث بن جاتی ہے اسی طرح اپنے مقصد کے حصول میں کسی کا رُکاوٹ بننا اور آڑے آنا بھی ہمارا مزاج برہم کر سکتا ہے بہر کیف مذکورہ عوامل وغیرہ میں سے کسی کے بھی سبب نفس کا اس طور پر جوش مارنا جو دوسرے سے بدلہ لینے پر اُبھارے غصہ کہلاتا ہے اگرچہ یہ تمام معاملات ہماری فطرت میںداخل ضرور ہیں لیکن ہمیں ان پر قابو پانے اور اس سے دور رہنے کی تلقین کی گئی ہے کیونکہ یہ ہمارے ہوش و حواس کا دشمن اور سماجی تعلقات کا قاتل ثابت ہو سکتا ہے مثلاً غصہ کا شکار فرد اپنی زبان اور جسمانی طاقت کا ناجائز اور نہایت بُرا استعمال بھی کرسکتا ہے۔ اس کے برعکس صلہئ رحمی اور درگزر جیسی صفات سے کام لینے سے زندگی کی کئی مشکلات حل ہو سکتی ہیں۔

غصہ دنیا اور آخرت دونوں میں ہمارے لیے خسارے کا باعث ہی بنتا ہے۔ دنیاوی اعتبار سے دیکھا جائے تو غصہ ہی اکثر دنگا فساد، بھائیوں میں افتراق، میاں بیوی میں طلاق، آپس میں منافرت، قریبی رشتوں میں دراڑ اور دائمی جدائی کے ساتھ بسا اوقات قتل و غارت کا موجب ہوتا ہے۔ غصے کی حالت میں انسان کسی کی دل آزاری یا حق تلفی کر جاتا ہے، جس کی پکڑ قیامت کے روز ہو گی جبکہ اپنے غصے کو قابو میں رکھنے والوں کے متعلق ا حادیث میں بکثرت بشارتیں وارد ہو ئیں چنانچہ چند فرامین مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم مندرجہ ذیل ہیں۔

محترم قارئین!اس نقصان دے غصّے کی اسلام پرزور مذمت کرتاہے اور غصّے پر قابو پانے کی حوصلہ افزائی کرتاہے ۔حدیث مبارکہ میں ہے : ''طاقتور وہ نہیں جو پہلوان ہو دوسرے کو پچھاڑ دے بلکہ طاقتور وہ ہے جوغصہ کے وقت اپنے آپ کو قابو میں رکھے۔''

آئیے میں اسی موضوع کے متعلق اسلاف کی سیرت کا ایک واقعہ پیش کرتاہوں ۔

ایک مرتبہ کسی نے سیدنا شعبی رحمۃ اﷲ تعالی علیہ کو گالی دی آپ نے فرمایا ''اگرتوسچ کہتاہے تو اللہ عزوجل میری مغفرت فرمائے اور اگرتو جھوٹ کہتا ہے تو اللہ عزوجل تیری مغفرت فرمائے۔'' اسی طرح ایک شخص سیدنابکر بن عبدا ﷲ مزنی کو سر عام بُرا بھلا کہے جارہا تھا مگر آپ خاموش تھے۔ کسی نے عرض کی، آپ جوابی کاروائی کیوں نہیں فرماتے؟ فرمایا: میں اس کی کسی برائی سے واقف ہی نہیںکہ اسے برا کہہ سکوں، بہتان باندھ کرسخت گنہگار کیوں بنوں؟ سبحان اﷲ! عزوجل یہ حضرات قدسیہ کتنے احسن انداز میں غصے کا علاج فرمالیا کرتے تھے۔ انہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ اپنے نفس کے واسطے غصہ کرکے مدمقابل پر چڑھا ئی کرنے میں بھلائی نہیںجیسا کہ حضرت ابو مسعود انصاری فرماتے ہیں کہ میں اپنے غلام کی پٹائی کر رہا تھاکہ میں نے ایک آواز سنی '' اے ابو مسعود! تم اس پر جتنی قدرت رکھتے ہو اللہ اس سے زیادہ تم پر قدرت رکھتا ہے۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم وہاں موجود تھے۔ انہوں نے جوں ہی اپنے آقاصلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کا فرمان سنا اور ناراضی کا ڈر محسوس کیا تو فوراً غلام کی پٹائی سے اپنا ہاتھ روک لیا یہی نہیں بلکہ اپنے قصورکا اعتراف کرتے ہوئے اس کے کفارے میں غلام کو آزاد کردیا۔ (صحیح مسلم، ص٩٠٥،حدیث٣٥)

میٹھے میٹھے اسلامی بھا ئیو! معلوم ہوا کہ اپنے ماتحتوں کے ساتھ نرمی اور حسن سلوک سے کام لینے ہی میں عافیت ہے لہٰذا ہمیں بھی چاہئے کہ جب کسی پر غصہ آئے تو اپنے آپ کو اس طرح سمجھائیے مجھے دوسروں پر اگر کچھ قدرت حاصل بھی ہے تو اس سے بے حد زیادہ اللہ عزوجل مجھ پر قادر ہے اگر میںنے غصے میں کسی کی دل آزاری یا حق تلفی کر ڈالی توقیامت کے روز اللہ عزوجل کے غضب سے میںکس طرح محفوظ رہ سکوں گا۔ حضرت سیدنا مالک بن دینار علیہ رحمۃ الغفار نے ایک مکان کرایہ پر لیا۔ اُس مکان کے بالکل متصل ایک یہودی کا مکان تھا۔ وہ یہودی بُغض وعناد کی بنیاد پرپرنالے کے ذریعے گندا پانی او رغلاظت آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے کاشانہ عظمت میں ڈالتا رہتا مگر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ خاموش ہی رہتے آخرکا ر ایک دن اُس نے خود ہی آکر عرض کی، جناب! میرے پرنالے سے گزرنے والی نجاست کی وجہ سے آپ کوکوئی شکایت تو نہیں؟ آپ رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے نہا یت ہی نرمی کے ساتھ فرمایا: پر نالے سے جو گندگی گر تی ہے اُس کو جھاڑودے کر دھوڈالتا ہوں۔ یہودی نے کہا، آپ کو اتنی تکلیف ہونے کے با وجود غصہ نہیں آتا؟ فرمایا: آتا تو ہے مگر پی جاتا ہوں کیونکہ پارہ4 سورہ اٰل عمران آیت نمبر 134میںخدائے رحمن عزوجل کا فرمان محبت نشان ہے: وَالْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ۔ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ۔ وَاللہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ۔ (پ ٤، ٰال عمران،آیت ١٣٤)ترجمہ کنزالایمان: ''اور غصّہ پینے والے او رلوگو ں سے در گزر کرنے والے اور نیک لوگ اللہ (عزوجل )کے محبوب ہیں۔'' یہ جواب سن کر وہ یہودی مسلمان ہوگیا۔

محترم قارئین !اسے کہتے ہیں روشن کردار۔زیادتی کرنے کے باوجود سامنے والے پر برس نہیں پڑے ،غصّہ نہیں کیا بلکہ برے فعل کا بدلہ بھی خوبصورت دیا۔

صبر کرنے ،نرمی سے پیش آنے میں بہت برکتیں ۔اب فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے کہ غصّہ کرکے نقصان اُٹھانے کے خواہاں ہیں کہ صبراور نرمی سے پیش آکر کے دلوں پر حکمرانی کرنے اور آخرت میں رحمت الہی سے حصّہ پانے کے خواہش مند ہیں ۔؟
DR ZAHOOR AHMED DANISH
About the Author: DR ZAHOOR AHMED DANISH Read More Articles by DR ZAHOOR AHMED DANISH: 380 Articles with 544059 views i am scholar.serve the humainbeing... View More