میڈیا نے بہت کچھ عوام کی آنکھوں
کے سامنے لاکر رکھ دیا ہے ۔ عوام اگر اب بھی اندھا دھند اعتقاد کی پٹی
آنکھوں پر باندھ کر کسی لیڈر کے پیچھے چلیں تو میرے خیال میں قصور ان کا
اپنا ہے۔ آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے والا کسی اور کو موردِ الزام نہیں
ٹھراسکتا یہ اور بات ہے کہ سارے حقا ئق جان کر بھی ہم ووٹ دیتے وقت بہت سے
دوسرے عوامل کو مدنظر رکھتے ہیں خاندان ، زبان، دولت ، مسلک ، فرقہ اور پتہ
نہیں کیا کیا کچھ، نہیں دیکھتے تو اہلیت ، قابلیت اور خلوص نیت آہ! اب اسے
ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر اور یہی وہ جنس ہے جس کے لیے پاکستانی ترس گئے
ہیں۔ بہر حال میڈیا جس نیت سے بھی سہی یہ سب کچھ کر رہا ہے لیکن دوسری طرف
اس انتہائی آزاد میڈیا نے ہی قوم کو کچھ مسائل سے بھی دوچار کیا ہوا ہے ۔
اظہار رائے کی آزادی سے اختلاف کسی کو نہیں اور ظاہر ہے مجھے بھی ہر گز
نہیں کہ میں خود آزادی سے لکھنا اورکہنا چاہتی ہوں ۔ لیکن کیااگر میں اپنے
لیے خود ہی کچھ حدود و قیود کا تعین کرلوں تو بہتر نہ ہوگاکچھ ایسی حدودجو
میرے قومی مفادات سے متصادم نہ ہوں ۔ مسئلہ یہ ہے کہ کچھ تو ہم مسائل کے
انبار تلے دبے ہوئے ہیں ہماری بدقسمتی کی انتہا ہے کہ خونخوار قسم کی دہشت
گردی نے ہمیں گھیرا ہوا ہے اور کچھ ہمارے بے مہار قسم کے آزاد میڈیا نے اس
دہشت گردی کوہر ہر زاویے سے کوریج دی اور اتنی دی کہ بین الا قوامی میڈیا
نے بھی یہی سمجھا کہ یہ ملک مالِ مفت ہے اس کے اوپر جو الزام لگاؤ وہ جائز
ہے۔ پاکستان واقعی اس وقت خطرناک ترین صورت حال سے دوچار ہے ہم ہر روز ایسے
واقعات سے دوچار ہو رہے ہیں جن سے ہم کسی بھی طرح صرف نظر نہیں کر سکتے
لیکن اِن واقعات کو جس طرح پاکستان کی بدنامی کے لیے بین الاقوامی سطح پر
استعمال کیا جا رہا ہے وہ انتہائی قابل اعتراض ہے جب کہ ایسے ہی واقعات بہت
نہ سہی کچھ تو دنیا کے باقی ممالک میں بھی ہو رہے ہیں ۔ہمارے پڑوس میں
بھارت خود کو ترقی کی دوڑ میں اگر دوڑتا ہوا دکھا رہا ہے تودنیا اُسے اڑتا
ہوا دکھا رہی ہے حالانکہ وہاں بھی جرائم ہوتے ہیں اوریہ چونکہ بہت بڑا اور
بڑی آبادی والا ملک ہے لہٰذا بہت زیادہ جرائم ہوتے ہیں ، یہاں دہشت گردی کے
واقعات بھی ہوتے ہیں اور بڑے تسلسل سے ہوتے ہیں یہ دہشت گردی زیادہ تر فرقہ
وارانہ ہوتی ہے اور ہندو اکثریت مسلم اقلیت کو بدترین تشدد کا نشانہ بناتی
ہے اس کے لیے مختلف بہانے تراش لیے جاتے ہیں اور پھر مسلمان آبادیاں بر
بریت کا نشانہ بن جاتی ہیں ابھی کچھ ہی عرصہ پہلے غریب مسلمان خاندانوں کو
جس طرح زبردستی ہندو بنانے کی کوشش کی گئی وہ بذات خود ایک بہت بڑی دہشت
گردی ہے ، اس واقعے کو خبر تو ضرور بنایا گیا لیکن بھارت کی بدنامی اور
تنقید کے لیے استعمال نہیں گیا ورنہ اگر ایسا ہی کوئی واقعہ پاکستان میں ہو
جائے تو اُسے بے تحاشہ دہرایا جاتا ہے اور متاثرہ لوگوں کو ہیرو بناکر پیش
کیا جاتا ہے ماضی میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جن میں متاثرین سے ہمدردی
سے زیادہ پاکستان کو بدنام کرنے کی نیت موجود تھی جبکہ بھارت میں آر ایس
ایس ، بجرنگ دل، خود برسراقتدار بی جے پی سب کے سب ایسی سرگرمیوں میں ملوث
رہتے ہیں لیکن نہ تو خود ان کا اپنا میڈیا اور نہ ہی بین الاقوامی میڈیا ان
واقعات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا تو درکنار بہت جلد انہیں بھول جاتا ہے اور
یوں بھارت ایک دفعہ پھر پُرامن صنعتی ترقی یافتہ ملک بن کر بیرونی سرمایہ
داری کے لیے انتہائی سازگار ملک بن جاتا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ کوئی دن
جاتا ہوگا جب بھارت کے اخبارات میں دہشت گردی اور شدت پسندی کی خبریں نہ
ہوں گی۔ خود کو سیکولر کہہ کر ہر مذہب کے حقوق کی پاسداری کا اعلان کرنے
والا بھارت اور اس کے ہندو،مسلمان گھروں میں گائے کے گوشت کی موجودگی کی
خبرپر مسلمان آبادیوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں حال ہی میں بھوپال میں ایسا ہی واقعہ
پیش آیا جب اس جرم پر مسلمانوں کے گھروں کو آگ لگادی گئی ۔ اور تو چھوڑئیے
عامر خان کی نئی فلم Pk کی نمائش کے دوران کئی سینما گھروں میں ہنگامے ہوئے
اور توڑ پھوڑ اور دہشت گردی کی گئی اور الزام لگا یا گیا کہ اس فلم کوبنانے
میں اُسے آئی ایس آئی کا تعاون حاصل ہے معلوم نہیں آئی ایس آئی نے ایسی
ریکارڈ توڑ فلم پاکستان کے لیے کیوں نہیں بنائی لیکن اوروں کو تو چھوڑئیے
ہمارا اپنا میڈیا اس حوالے سے خاموش رہا اور صرف اس فلم کی کامیابی کی
خبریں دی گئیں ۔دوسری طرف اگر اپنے ملک میں معمولی واقعہ بھی ہو جائے تو
اُسے بریکنگ نیوز بناکر بار بار پیش کیا جاتا ہے اگر ایسے واقعات جن سے
کوئی نقصان نہ ہوا ہو کو خبر نہ بھی بنایا جائے تو اس سے ملک کو کوئی نقصان
نہیں ہوگا بلکہ اس کا نقصان دہشت گردوں کو ہی ہوگا کہ وہ کوئی شہرت حاصل نہ
کر سکے مثلاََ ابھی چند دن پہلے کوئٹہ اور سبی کے درمیان ریلوے ٹریک کے دو
میٹر ٹکڑے کو اڑا دیا گیا اس خبر کو مسلسل ایک دو منٹ تک بریکنگ نیوز بنا
کر دہرایا گیا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ اس سے گاڑیوں کی روانگی میں
فرق نہیں پڑا لیکن بہر حال دہشت گردوں کو جس شہرت کی ضرورت تھی وہ انہیں دے
دی گئی۔ اگر ہمارا پنا میڈیا یہ کردار ادا کرے گا تو بیرونی میڈیا تو ہمارے
ہاں ہونے والے واقعات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا رہے گا۔
ایک تحقیق کے مطابق دہشت گرد کوئی بھی کاروائی کرنے سے دہشت گردی اور نقصان
پہنچانے کے علاوہ جو دو مقاصد حاصل کرتے ہیں وہ ہیں خوف اور شہرت جو میڈیا
کے ذریعے انہیں بڑی آسانی سے حاصل ہو جاتے ہیں اورقومی اور بین الاقوامی
میڈیا نے جو شہرت پاکستانی دہشت گردوں کو دی اس سے انہوں نے کئی مقاصد حاصل
کیے اسلام کو بھی بدنام کیا اور پاکستان کو بھی کئی طرح سے نقصان پہنچایا۔
جبکہ حیرت انگیز طور پر بھارت میں ہونے والے ایسے واقعات جن میں مسلمان
ملوث ہوں انہیں تو اچھا لا جاتا ہے لیکن ہندو شدت پسندوں کی کاروائیوں کو
دبادیا جاتا ہے یہاں میری اپنے میڈیا سے یہ درخواست ہے کہ کم از کم وہ
واقعات جن میں خوش قسمتی سے نقصان نہ ہوا ہو اُسے تو اتنی اہمیت نہ دیں کہ
ہمارے ہاں اگرپٹاخہ بھی چلے تو اُسے بھی اچھال دیا جائے ملک کی کچھ بہتر
چیزیں بھی دکھائیں تاکہ دنیا ہمارا ایک بہتر چہرہ بھی دیکھ سکے۔ |