عاقب اور اس کے دوست کرکٹ کھیلتے
تھے۔ کئی عرصہ سے انکے گراﺅنڈ میں پانی نہیں لگا تھا۔ مٹی بہت زیادہ ہوگئی
تھی۔ پِچ تو بالکل ہی ٹوٹ گئی تھی۔ اب تو بلا گھومانے سے ہی مٹی اڑتی تھی۔
کھیل کے دوران کھلاڑی تیز تیز سانس لیتا ہے۔ اس دوران سانس کے ساتھ مٹی
اندر چلی جاتی ہے۔ کھلاڑی کے بیمار ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔ ورزش اور کھیل
صحت مند رہنے کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ مگر مٹی میں کھیلنے سے صحت خراب ہو سکتی
ہے ۔
مالی بابا چھٹی پر تھے۔ اتنے بڑے گراﺅنڈ میں بچے خود پانی نہیں لگا سکتے
تھے۔ عاقب کے ابو نے منع کر دیا تھا، کہ وہ مٹی میں کرکٹ نہیں کھیلیں گے۔
بچوں نے سوچ بچار کی کہ کیا کیا جائے۔ سب بچوں نے مل کر منصوبہ بنایا کہ
کوئی اور کھیل کھیلتے ہیں۔ اب سوال یہ تھا کہ کونسا کھیل ہو؟ کسی نے کہا
باسکٹ بال، کسی نے کہا والی بال، کوئی بولا کہ فٹ بال کھیلا جائے، ہادی نے
کہا کہ بیڈ منٹن کھیلتے ہیں۔ بیڈ منٹن کھیلنے کی تجویز سب کو پسند آئی۔
عاقب کے گھر کے ساتھ کچھ جگہ خالی پڑی تھی۔ یہ جگہ چھوٹی تھی، مگر بیڈ منٹن
کیلئے کافی تھی۔ بچے اس جگہ کی دیکھ بال خود کر سکتے تھے۔
بیڈ منٹن کا کورٹ بنانے کی تیاری شروع ہوگئی۔ عاقب تمام کام خود کرتا رہا۔
پہلے اس نے تمام گراﺅنڈ میں پانی لگایا، پھر بانس گاڑے، اس کے بعد بیڈ منٹن
کا جال لگایا۔ اس دوران میں ہادی کوئی کام کرنے کی کوشش کرتا تو عاقب اسے
ڈانٹ دیتا، کہ تم کام خراب کر دو گے، تمہیں کیا پتا کہ کام کیسے کرتے ہیں۔
عاقب کی امی یہ سب کچھ دیکھ رہیں تھیں، کہ عاقب اکیلا ہر کام کرتا ہے۔ مل
جل کر کرنے والے کاموں میں بھی دوسروں کو شامل نہیں کرتا۔ اس طرح کوئی شخص
دوسروں کو اہمیت نہیں دیتا، خود کو بڑا سمجھ کر دوسروں کو نظر انداز کر
دیتا ہے۔ خود کو ہر کام کا اہل سمجھتا ہے۔ دوسروں کو نا اہل سمجھتا ہے۔ اسی
طرح جن لوگوں کو کام میں شریک نہ کیا جائے وہ بیکار رہنے کے عادی بن جاتے
ہیں۔ اور پھر اتنے نکمے بن جاتے ہیں کہ چھوٹے سے چھوٹا کام بھی کرنا ان کے
لئے مشکل ہوجاتا ہے۔ کام کو بہتر انداز سے کرنے کیلئے ٹیم ورک کی ضرورت
ہوتی ہے۔ پچھلے دنوں عاقب سائنسی تجربات کی کتاب لے کر آیا، اس کتاب کو پڑھ
کر اس نے بہت سے تجربے کئے۔ ان تجربوں میں بھی اس نے ہادی کو کسی کام میں
شامل نہیں کیا۔ امی اسے یہ بات سمجھانے کا موقع تلاش کر رہی تھیں کہ مل جل
کر کام کرنے میں کتنی برکت ہوتی ہے۔ ٹیم ورک سے کام کر کے انسان کتنے بڑے
بڑے کام سر انجام دے سکتا ہے۔
موسم سرما کی چھٹیوں میں عاقب اور اسکے گھر والے ہر سال اپنے ماموں گھر
راولپنڈی جاتے تھے۔ اس بار24 دسمبر کو موسم سرما کی چھٹیاں ہوئیں۔ عاقب کی
امی سفر کی تمام تیاریاں مکمل کر چکی تھیں۔ اس کے ابو گاڑی کے ٹکٹ لے آئے
تھے۔ اس بار رات کی بجائے دن میں سفر کرنے کا پروگرام بنا تھا۔ 25 دسمبر کی
صبح 8 بجے انکی گاڑی کا ٹائم تھا۔ عاقب سفر کے دوران بس کی کھڑکی والی طرف
بیٹھتا تھا۔ وہ سفر سے خوب لطف اندوز ہوتا تھا۔ بس فیصل آباد شہر سے نکل کر
موٹر وے پر پہنچی۔ دوپہر کا وقت تھا۔ دھوپ خوب چمک رہی تھی۔ موٹر وے کا
منظر بہت خوبصورت لگ رہا تھا۔ عاقب نے دن کے وقت پہلے کبھی موٹروے کا سفر
نہیں کیا تھا۔ اس سے پہلے وہ ملتان سے شام کو چلتے تھے۔ موٹر وے پر پہنچتے
پہنچتے اندھیرا ہوجاتا تھا۔ باہر کچھ نظر نہیں آتا تھا۔ عاقب اور ہادی
سوجاتے تھے۔ آج عاقب کو موٹر وے دیکھنے کا بھر پور موقع ملا۔ وہ موٹر وے کو
بہت دلچسپی سے دیکھ رہا تھا۔ اس نے دیکھا کہ ارد گرد کے شہروں میں آنے جانے
کیلئے، موٹر وے کے اوپر سے سڑکیں نکالی گئی ہیں، جن پر ٹریفک رواں دواں ہے،
نہروں اور دریاﺅں کے اوپرپل بنائے گئے ہیں۔ کچھ جگہوں پر موٹر وے کے دونوں
طرف پہاڑ ہیں، کچھ جگہوں پر کھائیاں ہیں، عاقب یہ سب دیکھ کر سوچنے لگا کہ
یہ کتنی محنت کا کام ہے؟ اس نے اپنی امی سے پوچھا کہ یہ پل سڑکیں کیسی
بنائی گئی ہونگی؟ اتنے بلند پہاڑوں اور گہری کھائیوں کے درمیان یہ راستہ
کیسے بنایا گیا ہوگا؟ عاقب نے اپنی امی سے پوچھا کہ کیا یہ راستہ پہلے سے
موجود تھا؟ عاقب کی امی نے کہا کہ نہیں۔ یہ جو ہم موٹر وے پر بہت آرام سے
سفر کر رہے ہیں، اس میں بہت سے لوگوں کی محنت شامل ہے۔ کوئی کام اکیلے نہیں
کیا جاسکتا۔ مل کر کام کرنے سے انسان بڑی بڑی چیزیں بنا سکتا ہے۔ موٹر وے
بنانے کیلئے، ہزاروں مزدوروں نے پہاڑوں کو توڑا، کھائیاں بھریں۔ سینکڑوں
کاریگروں نے مل کر پل تعمیر کئے۔ تب جا کر یہ موٹروے بنا۔ اگر ایک شخص یہ
کام کرنے لگتا تو وہ ایک پہاڑ بھی نہ توڑ پاتا، اس عمل میں بہت سے لوگوں نے
اپنی جانیں قربان کیں، کوئی آدمی کسی کام میں کتنا بھی ماہر ہو، کتنا بھی
طاقتور ہو، وہ اکیلا بڑے بڑے کام نہیں کر سکتا۔ اسے دوسرے لوگوں کی مدد اور
تعاون کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک انجینئر جتنا بھی پڑھ لکھ جائے، وہ اکیلا سڑک
نہیں بنا سکتا، وہ جتنا بھی قابل ہو ایک مزدور کے بغیر وہ اپنے نقشہ کو
حقیقت نہیں بنا سکتا، مل جل کر کام کرنے میں بہت برکت ہوتی ہے۔ ہمیں ایک
دوسرے کی قدر کرنی چاہیے۔ کسی کو کمزور اور حقیر نہیں سمجھنا چاہیے۔
امی نے عاقب کو بتلایا کہ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے معاشرے کی
بہتری کیلئے صحابہ کی جماعت تیار کی۔ یہ مقدس جماعت اپنے تمام کام مل جل کر
کرتی تھی۔ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کے ساتھ مل کر برابر کام
کرتے تھے۔ امی نے عاقب سے پوچھا کہ مدینہ میں سب سے پہلے کونسی مسجد تعمیر
کی گئی؟ عاقب نے بتلایا کہ مسجد قبا۔ پھر کونسی مسجد تعمیر کی؟ عاقب نے
جواب دیا مسجد نبوی۔ امی نے اس کی بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ حضور اکرم
صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اور آپکی جماعت صحابہ جب ہجرت کر کے مدینہ تشریف
لائے تو آپ نے مسجد قبا اور مسجد نبوی تعمیر کیں۔ ان مساجد کی تعمیر میں
حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ نے مل کر کام کیا، آپ بھی صحابہ
کے ساتھ مل کر اپنے ہاتھوں سے اینٹیں اٹھا کر لاتے۔ صحابہ آپ کی بہت عزت وا
حترام کرتے تھے۔ وہ آپ پر اپنی جان تک قربان کرنے کیلئے تیار رہتے۔ آپ کی
عظمت اور ادب کی خاطر، صحابہ آپ کو کام سے روکتے تھے۔ مگر آپ ان سب کے
برابر کام کرتے تھے۔
امی نے عاقب کی ایک اور واقعہ کی طرف توجہ دلائی ۔ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ
وآلہ وسلم اور آپ کی جماعت صحابہ ایک سفر میں تھے۔ اس دوران ایک جگہ ٹہرے
اور کھانے پکانے کا انتظام کرنے لگے۔ کھانا پکانے کیلئے ہر ایک کے ذمہ ایک
ایک کام لگا۔ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں جنگل سے
لکڑیاں لاﺅں گا۔ صحابہ نے کہا اے اللہ کے رسول اﷲ علیہ وآلہ وسلم! یہ کام
ہم خادم کریں گے۔ آپ نے فرمایا کہ مجھے یہ پسند نہیں کہ میں خود کو تم میں
نمایاں سمجھوں” خدا اس بندہ کو پسند نہیں کرتا جو اپنے ہمراہوں میں ممتاز
بنتا ہے"۔ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا اسوہ حسنہ ہمیں بتلاتا ہے کہ
ٹیم ورک میں کوئی شخص خود کو دوسروں سے بڑا نہ سمجھے۔ ہر شخص اپنے حصے کا
کام کرے اور ضرورت پڑنے پر دوسروں کی بھی مدد کرے۔
عاقب نے کہا کہ سب لوگوں میں کام کرنے کی صلاحیت ایک جیسی نہیں ہوتی، سب کی
سوچ ایک طرح کی نہیں ہوتی، کچھ لوگ کمزور ہوتے ہیں، کچھ لوگ تیز طرار ہوتے
ہیں، کچھ لوگوں کا مزاج گھلنے ملنے کا نہیں ہوتا، پھر ٹیم ورک کیسے ہوسکتا
ہے؟ عاقب کی امی نے اسے سمجھایا کہ ہر کام کے مختلف پہلو ہوتے ہیں، ٹیم میں
موجود ہر شخص کو اس کی صلاحیت کے مطابق کام دیا جاسکتا ہے۔ عاقب نے کہا کہ
پھر تو اس کیلئے پلاننگ کرنا پڑتی ہوگی۔ امی نے کہا کہ ہاں سب سے پہلے کسی
بھی کام کی منصوبہ بندی کرنا پڑتی ہے۔ ٹیم میں موجود سب لوگوں سے مشورہ
کرنا پڑتا ہے۔ ٹیم کے سب لوگ برابری کی بنیاد پر کام کرتے ہیں۔ ٹیم کے ہر
فرد کا کام اہم ہوتا ہے۔ ٹیم میں موجود کوئی شخص خود کو بڑا نہیں سمجھتا
اور نہ کسی کو کمتر سمجھتا ہے۔ کوئی ایک بندہ بھی اگر اپنا کام صحیح نہ کرے
تو پوری ٹیم کا اور پورے کام کا نقصان ہوتا ہے۔ اس طرح انسان بڑے بڑے کام
سرانجام دے سکتا ہے۔ جس طرح حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ابو جہل کے
ظلم کو ختم کیا ۔ اپنے صحابہ کی جماعت کے ساتھ مل کر بڑے بڑے ظالم بادشاہوں
کا مقابلہ کیا انہیں شکست دی۔ اس مقدس جماعت کی محنت سے پوری دنیا میں
انسانی ہمدردی اور نیکی عام ہوگئی۔ ترقی اور امن کا بول بالا ہوگیا۔
امی نے عاقب سے پوچھا کہ غزوہ اُحد کے بعد کونسا غزوہ ہوا تھا، عاقب نے
بتلایا کہ غزوہ احزاب۔ امی نے پوچھا اس غزوہ کی سب سے اہم بات کیا تھی،
عاقب نے بتلایا کہ اس میں دشمن کا مقابلہ کرنے کیلئے خندق کھودی گئی تھی۔
امی نے کہاکہ ہاں، عرب کے تمام قبیلوں نے مل کر فیصلہ کیا کہ حضور اکرم صلی
اﷲ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی جماعت کا مقابلہ کریں۔ اس کیلئے عرب کے تمام
قبائل اکٹھے ہو کر مدینہ پر حملہ کریں۔ ان سب نے حملہ کی تیاری کرنا شروع
کر دی۔
حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو اس کا علم ہوگیا۔ آپ نے اپنی جماعت
صحابہ کو اکٹھا کیا۔ آپ نے صحابہ سے مشورہ لیا کہ دشمن کا مقابلہ کیسے کیا
جائے۔ حضرت سلمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے مشورہ دیا کہ شہر کے گرد خندق کھودی
جائے۔ مدینہ کے تین اطراف میں مکانات اور نخلستان کا سلسلہ تھا، صرف ایک
طرف سے کھلا راستہ تھا۔ اسی طرف خندق کھودنے کی ضرورت تھی۔ سب لوگوں نے اس
رائے کو پسند کیا، حالانکہ حضرت سلمان فارسی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ عرب کے نہیں
تھے، دوسرے علاقہ سے آئے تھے، مگر جماعت کو آپ کی رائے پسند آئی۔ 3 ہزار
صحابہ نے مل کر خندق کھودی۔ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے دس دس
لوگوں کی ٹولیاں بنائیں۔ ہر ٹولی نے دس دس گز لمبائی میں اور 5 گز گہرائی
میں خندق کھودنی تھی۔ عاقب نے پوچھا کہ خندق کی کھودائی کے دوران کوئی مشکل
پیش نہیں آئی۔ امی نے بتلایا کہ بہت مشکلات تھیں۔ سخت سردی کا موسم تھا ۔
صحابہ کے پاس کھانے پینے کا سامان بھی ناکافی تھا۔ عاقب نے پوچھا کیا اس
عمل میں حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم بھی شریک ہوئے۔ امی نے کہا کہ ہاں
آپ خود اپنی پیٹھ پر خندق سے نکلی ہوئی مٹی لاد کر لیجاتے تھے۔ کھودائی کے
دوران اگر کوئی سخت پتھر آجاتا تو صحابہ، حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم
کو بتلاتے تھے۔ آپ اس پتھر کو توڑ کر ریزہ ریزہ کر دیتے تھے۔
خندق کی کھودائی کے دوران ایک دن صحابہ بھوک سے نڈھال تھے۔ صحابہ نے حضور
اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو بتلایا کہ ہم نے پیٹ پر پتھر باندھے ہوئے
ہیں۔ تو حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں بھی اس حالت میں
تمہارے ساتھ شریک ہوں۔ آپ نے دو پتھر باندھے ہوئے تھے۔ حضور صلی اﷲ علیہ
وآلہ وسلم کا اسوہ حسنہ بتلاتا ہے کہ اچھا راہنما وہ ہوتا ہے جو اپنی جماعت
اور قوم کے غم میں برابر کا شریک ہو ۔ خندق کی کھودائی کے دوران، حضرت جابر
بن عبداللہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے کچھ
دیر کیلئے گھر جانے کی اجازت مانگی، حضرت جابر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے گھر جا
کر بیوی سے پوچھا کہ گھر میں کھانے کیلئے کیا کچھ ہے۔ انہوں نے کہا کہ
کچھ”جَو“ ہے اور ایک بکری کا بچہ ہے۔ جَو کو بھی گندم کی طرح پیسا جاتا ہے
اور پھر اس کا آٹا گوندھ کر روٹی پکائی جاتی ہے۔ حضرت جابر رضی اﷲ تعالیٰ
عنہ نے بکری کا بچہ ذبح کیا، ایک دیگچی میں گوشت چڑھایا ،”جَو “کا آٹا
گوندھا، اور حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضرت
جابر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے آہستہ سے کہا کہ
آپ اور ایک دو صحابہ گھر تشریف لے آئیں، تھوڑا بہت کھانے کا انتظام کیا ہے،
آپ نے پوچھا کتنا کھانا ہوگا ۔ حضرت جابر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے بتلا دیا۔
آپ نے فرمایا بہت اچھا ہے۔ اپنے گھر میں کہہ دینا کہ چولہے سے دیگچی نہ
اتاریں نہ تنور سے روٹیاں نکالیں جب تک کہ میں نہ آﺅں۔ حضور اکرم صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم نے تمام صحابہ کو آواز دی، خندق والو! آجاﺅ ، حضرت جابر رضی
اﷲ تعالیٰ عنہ نے دعوت کا انتظام کیا ہے۔ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم
نے روٹیاں اور گوشت تمام صحابہ میں تقسیم کیا، سب نے سیر ہو کر کھانا
کھایا، کھانا بچ گیا تو آپ نے حضرت جابر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے گھر والوں سے
کہا کہ اب تم کھاﺅ ۔ یہ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا معجزہ تھا، اور جماعت
کی برکت تھی کہ تھوڑے کھانے سے بہت سارے لوگ سیر ہوگئے۔
امی نے عاقب کو متوجہ کر کے کہا کہ دیکھو! حضرت جابر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے
پسند نہیں کیا کہ وہ اکیلے کھا پی لیں ۔ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم
تمام انسانیت کے پیغمبر اور جماعت صحابہ کے راہنما تھے۔ آپ صلی اﷲ علیہ
وآلہ وسلم نے بھی پسند نہیں فرمایا کہ وہ ایک دو خاص لوگوں کے ساتھ جا کر
کھانا کھالیں، آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی باقی جماعت بھوکی رہے ۔ آپ صلی
اﷲ علیہ وآلہ وسلم اور جماعت صحابہ کے مل جل کر محنت کرنے سے20 دن میں یہ
خندق مکمل ہوئی۔ عرب کے تمام قبائل کی بھیڑ اکٹھی ہو کر آئی لیکن ناکام
ہوگئی۔ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی مقدس جماعت کا مقابلہ نہ
کر سکی۔ جو قوم متحد نہیں ہوتی، اس قوم کے لوگ اپنا اپنا خیال رکھتے ہیں،
دوسروں کی پرواہ نہیں کرتے، ایسی قوم تباہ ہو جاتی ہے۔ حضور اکرم صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی جماعت نے بہترین منصوبہ بندی کی، مل جل کر کام
کیا، اپنے سے بڑھ کر دوسروں کا خیال رکھا، ظلم کا مقابلہ کیا، انسانیت کے
مفاد کیلئے قربانی دی اور کامیاب ہوگئے، یہ ہے جماعت کی برکت، یہ ہے ٹیم
ورک کا نتیجہ۔ |