اب احتساب ہونا چاہئے۔

سپریم کورٹ میں لاپتہ افراد سے متعلق درخواستوں کی سماعت کے دوران حکومت اور حکومتی اہلکاروں کی ناکامی کے بارے میں ججوں نے جو ریمارکس دیے ہیں۔ وہ اس بات کا اظہار ہیں کہ ملک میں لاپتہ افراد کا معاملہ سنگین ہوگیا ہے۔ لاپتہ افراد کے بارے میں جو صورتحال ۷۰۰۲ میں تھی۔ وہی اب بھی ہے۔ اس معاملے کی سنگینی ہی تھی جس نے پرویز مشرف اور عدالت عالیہ کے درمیان خلیج حائل کردی تھی۔ جس کا نتیجہ میں ملک کے دو ستون کے درمیان محاذ آرائی ہوئی۔ اور بالاآخر عدلیہ کامیاب ہوئی۔۷۰۰۲ میں سینٹ کی فنگشنل کمیٹی کے چیئرمین سینٹر ایس ایم ظفر تھے۔ اس وقت بھی کہا گیا تھا کہ قانون کے رکھوالے قانونی طریقہ اختیار کریں۔ اور غائب کیے جانے والے افراد کو عدالتوں میں پیش کیا جائے تاکہ وہ اپنا قانونی دفاع کرسکیں۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر ہم بھارت کے بارے میں بہت واویلا کرتے ہیں کہ کشمیر میں بھارت کی فوج اور پولیس نے ہزاروں کشمیریوں کو غائب کردیا ہے۔ لیکن خود ہمارے ملک میں نائین الیون کے بعد جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوئی ہیں اور مسلسل ہورہی ہیں ان کو ہم عالمی اداروں کو کیا جواب دیں گے۔ کراچی میں ایم کیوایم کے خلاف جو آپریشن ہوا تھا۔ اس وقت بھی کراچی اور حیدرآباد سے نوجوانوں کو ان کے گھروں سے اٹھا کر غائب کردیا جاتا تھا۔ اور پھر کوئی کہیں پولیس مقابلے میں اور کوئی اور انداز میں ہلاک کردیا جاتا تھا۔ یہ کھیل کئی برسوں سے جاری ہے۔ اور ملک بھر میں یہ تعداد اب بہت زیادہ ہوگئی ہے۔ فروری ۷۰۰۲ میں چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں تین رکنی فل بنچ اس کیس کی سنوائی کررہا تھا۔ اس وقت آمنہ مسعود جنجوعہ اپنے شوہر سمیت کئی افراد کی گمشدگی کی پیروی کررہی تھیں، اس وقت بھی چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا تھا کہ گمشدہ افراد کی بازیابی کے لئے جو ہم سے ہوسکا وہ کریں گے۔ ہمارے ہاتھ میں بندوق نہیں ہے۔ یہی طریقے ہے کہ لاپتہ افراد کی تلاش کے لئے کچھ کرسکیں۔ اب دو سال کے بعد بھی وہی صورتحال ہے۔ جس میں جسٹس جاوید اقبال کو یہ کہنا پڑا ہے کہ ملک میں ’یہ کیسی جمہوریت ہے جس میں بنیادی انسانی حقوق کا دور دور تک پتہ نہیں ہے۔‘جسٹس جاوید اقبال نے کہا ہے کہ ملکی نظام تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے اور کسی نہ کسی کو اس نظام کو درست کرنے کے لیے مداخلت کرنا ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ اگر سپریم کورٹ مداخلت کرے گی تو پھر واویلا مچ جائے گا کہ عدالت اپنے اختیارات سے تجاوز کر رہی ہے۔ صوبہ سرحد، بلوچستان ، کو مسئلہ بھی اس سے جڑا ہوا ہے۔ مشرف دور میں نہ صرف لوگوں کو غائب کیا گیا۔ بلکہ انھیں پکڑ پکڑ کو امریکی ایجنسیوں کے حوالے بھی کیا گیا۔ اس میں لاکھوں ڈالر کمائے گئے۔

یہ رقم کن کے کھاتوں میں گئی۔ اور کون ان سے فائدہ مند ہوا۔ یہ ایک راز ہے۔ ملکی سلامتی اہم ہے۔ لیکن ملک کے شہری بھی اہم ہیں۔ ان کے بھی حقوق ہیں۔ جو لوگ اپنے حقوق کی بات کرتے ہیں۔ یا حکومتوں کی پالیسیوں سے اختلاف وہ سب غدار نہیں ہوتے۔ اختلاف رائے ان کا جمہوری حق ہے۔ لاپتہ افراد پر اب حکومت اور قانوں نافد کرنے والے اداروں کو کوئی لائحہ عمل مرتب کرنا چاہیے۔ اٹارنی جنرل نے عدلیہ کو بتایا ہے کہ لاپتہ افراد کا پتہ لگانے میں آٹھ سو دس ادارے سے رابطہ کرنا پڑے گا۔ اور یہ ادارے اس قدر حساس ہیں کہ وہ بیک وقت یک جا ہو کر ان معلومات کا تبادلہ بھی نہیں کرسکتے۔ یہ کس قدر بدقسمتی کی بات ہے کہ ہمارے یہاں سیکورٹی کے ادارے اتنی بڑی تعداد میں ہیں۔ اور اس کے باوجود ملک میں دہشت گردی اور تخریب کاری کا یہ عالم ہے کہ پولیس اور دیگر ایجنسیوں نے کراچی میں جلوس کے راستے کی کلیرینس سرٹیفیکیٹ دے دئیے۔ اور اس کے بعد جو سانحہ پیش آیا۔اس میں پینتالیس قیمتی جانیں ضائع ہوئیں، اور اربوں کا مالی نقصان ہوا۔ ان اداروں کی کارکردگی کا اب احتساب ہونا چاہئے۔ اور یہ کام کہیں نہ کہیں سے شروع کرنا ہی پڑے گا۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 386820 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More