کیا سیرت النبی ﷺ پر بحث و مباحثہ صرف ربیع الاول کے ساتھ خاص ہے؟

نامِ محمد سے دلوں کو سرور ملتا ہے
نگاہِ فکر کو تازہ شعور ملتا ہے
نصیب کیسا بھی ہو نامِ محمدلے کر
خدا سے جو بھی مانگو ضرور ملتا ہے
آج کل ہمارے معاشرے میں یہ وبا عام ہوگئی ہے کہ پورے سال تو آقائے نامدارﷺ کی نافرمانی میں لگے رہتے ہیں اور پھر جب ربیع الاول کا چاند نظر آجاتا ہے،تو عرس اور میلادیں کرتے رہتے ہیں اور پھر یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ 12 ربیع الاول کو آقائے نامدار ﷺ پیدا ہوگئے تھے،اس لئے ہم میلادیں کرتے رہتے ہیں(میں عرس اور میلاد کی ہر گزمخالف نہیں ہوں ،مگر اس میں اکثر اوقات مسجد کے اداب کو خاک میں ملا دیا جاتا ہے اس طور پر کہ مسجد میں نعرے بازی لگا یا جاتا ہے،اور اس میلاداور عرس کو 12 ربیع الاول کے ساتھ خاص کرنا بدعت ہے)اور آج کل تو میلادوں سے بھی بات آگے نکل گئی ہےP.T.I کے دھرنوں کی طرح سڑکوں پر نکلتے ہیں،اور روڈ کو بلاک کر کے امت مسلمہ کو تکلیف میں ڈال دیتے ہیں۔پچھلے سال جب جامعہ عثمانیہ پشاور میں ہمارا چارنیماہی کا امتحان مکمل ہو گیااور چھٹی ہوگئی تو وہ بھی 12 ربیع الاول کا دن تھا ،تو میں اپنے آبائی علاقہ پبّی جا رہاتھا تو جب پبّی اسٹیشن تک پہنچ گیا تو جی ٹی روڈ پر عوام کا بھیڑ دیکھا جب چھان بھین کر لی تو پتہ چل گیا کہ صالح خانہ والے پیر صاحب مع اپنے مریدین کے جی ٹی روڈ پر نکل آئے ہیں اور پبّی سٹیشن میں ایک جلسہ کریں گے جبکہ دوسری جلسہ پبّی کے مین بازار میں کر لیا،تو میں نے سوچھا کہ یہ قابل غور بات ہے کہ یہ ایک مذہبی جماعت ہے اور اپنے کو’’اہل السنت والجماعت‘‘کہتے ہیں اور مخلوق خدا کو مشکلات میں ڈالا ہے،تو اس وقت میرے ذہن میں چند سوالات نے جنم لیا ۔

پہلاسوال یہ ہے کہ مسلمانوں کو تکلیف دینا جائز ہے یانہیں؟کہ تم لوگ بھی اب مسجدوں سے نکل کر سڑکوں پر آجاتے ہو اور یا رسول اﷲ کے نعرے بلند کرکے ہمارے پیارے آقائے نامدار محمدﷺ کی شان میں گستاخی کرتے رہتے ہو،گستاخی اس طور پر ہے کہ تم لوگ کہتے ہو کہ یہ تو رسول اﷲﷺ پر درود وسلام ہے،حالانکہ جب لوگ عام طور پر دنیاوی لحاظ سے جب کسی بڑے آدمی سے ملتے ہیں تو بہت ادب کو بجا لاتے ہیں یہاں تک کہ سلام بھی بہت نرم ونازک لہجے میں کرتے ہیں،نہ بہت باآوازِ بلند اور نہ بہت پست آواز سے کہ وہ سُنے بھی نہیں،بلکہ ہر چیز میں ادب و احترام کو مد نظر رکھا جاتا ہے،اسکے برخلاف جب آقائے نامدار ﷺ کا ذکر آجاتا ہے تو کھلِ عام گستاخی میں لگ جاتے ہیں،حالانکہ محمد ﷺ تو سردارِ دو جہان ہے،جب اُن پر درود وسلام بھیجتے ہو تو پھر ادب واحترام کو کیوں مد نظر نہیں رکھتے؟؟

دوسراسوال یہ ہے کہ یہ ربیع الاول کامہینہ اور خصوصاً 12 ربیع الاول تو صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کے دور میں بھی گزرا ہے تو صحابہ کرامؓ تو کھبی روڈوں پر نہیں نکلے ہیں؟کھبی جشن نہیں منایا؟کیا تم لوگ صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین سے بھی محمد ﷺ کے زیا دہ عاشق ہو؟اب ذیل میں صحابہ کرام ؓ اور بہت سے بزرگوں کے زمانوں کو ذکر کرتے ہیں جن میں 12 ربیع الاول کئی کئی مرتبہ گزرا ہے لیکن کسی نے بھی کوئی جشن نہیں منایا،

حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ کے دور میں 12 ربیع الاول 2 بار آیاہے،حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے دور میں 10 بار،حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کے دور میں 12 بار، حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے دور میں 5 بار،حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کے دور میں 19 بار،حضرت امام ابو حنیفہ ؒ کے دور میں47 بار،حضرت امام شافعی ؒ کے دور میں 55 بار،حضرت امام احمد بن حنبل ؒ کے دور میں38 بار،حضرت شیخ عبدالقدر جیلانی ؒ کے دور میں 60 بار،حضرت علی ہجویریؒ کے دور میں 62 بار،حضرت سلطان باہوؒ کے دور میں 67 بار ،مگر کسی نے بھی کوئی جشن نہیں منایا،کیا یہ مذکورہ حضرات زیادہ عاشق رسول تھے یا تم لوگ؟؟

تیسراسول یہ ہے کہ تم لوگ یہ جشن کس چیز پر مناتے ہو کیو نکہ اگر یہ بات کہی جائے کہ 12 ربیع الاول کو آقائے نامدار،فخرموجودات،ہادی عالم،محمد مصطفی ،محمد مجتبیٰ ،محمد عربی ﷺ کی پیدائش ہوئی تھی تو یہ بات بھی مسلم ہے کہ محمد ﷺ کے وفات بھی 12 ربیع الاول کو ہوئی تھی،تو اب تمہارا یہ جشن منانا کس چیز پر ہے،پیدائش نبی ﷺ پر یا وفات نبی ﷺ پر؟؟اگر تم کہتے ہو کہ پیدائش نبی ﷺ پر تو پھر اس بات کو بھی ماننا پڑے گا کہ محمد ﷺ کی تاریخ پیدائش میں شدید اختلاف رہا ہے،بعض صاحب تاریخوں نے تاریخ پیدائش 7 ربیع الاول لکھا ہے،بعض نے 9 ربیع الاول لکھا ہے جبکہ بعض علمائے کرام نے 12 ربیع الاول لکھا ہے،تو بنا بر اختلاف کہ تاریخ پیدائش نبی ﷺ میں اختلاف رہا ہے جبکہ اس بات پر علمائے امت کا اتفاق ہے کہ نبی ﷺ کی وفات 12 ربیع الاول کو ہوئی تھی۔

اور اگر تم کہتے ہو کہ یہ جشن وفات نبی ﷺ پر مناتے ہیں تو یہ بات تو بعید از سمجھ ہونے کے ساتھ ساتھ بڑی حماقت کی نشانی ہے،کیونکہ ایک طرف تو ہم اہل تشیع حضرات کو کہتے ہیں کہ تم لوگ وفات ’’حسنیےن‘‘ پر ابھی تک ماتم کرتے ہو تو دوسری طرف ہم خود اُسی کام میں کیوں پڑھتے ہیں جس سے ہم اور لوگوں کو منع کرتے ہیں،آخر میں اﷲ تعالیٰ کی بارگاہِ لایزال میں دعا ہے کہ ہم کودین پر صحیح چلنے کی توفیق عطاء فرمائے،اور آقائے نامدار ﷺ کی سیرت کے ہر ہر پہلو کو اپنانے کی توفیق عطاء فرمائے۔(آمین)
ایں دعا از من واز جانب آمین باد
Rizwan Peshawari
About the Author: Rizwan Peshawari Read More Articles by Rizwan Peshawari: 162 Articles with 211957 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.