محبت و مودت کے تقاضے کیا ہیں!
(Prof Akbar Hashmi, Rawalpindi)
ماہ ربیع الاول کو اہل ایمان
ربیع النور کے نام سے موسوم کرتے ہیں کیونکہ مرحبا آگیا وہ نور والا ۔ جس
کا سارا نور ہے۔ قرآن کریم کی آئت کا مفہوم بتاتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی طرف
سے نور اور روشن کتاب تمہارے پاس آئی۔ اس نور سے اکثر مفسرین نے
سیدالعالمین ﷺ کی ذات پاک مراد لی۔ آپ ﷺ کے نور ہونے کے دلائل بڑے وسیع ہیں
لیکن اتنا بتادینا ہی کافی ہوجائے کہ صحیح روایات کے مطابق آپ ﷺ کی ولادت
شریف کے وقت آپ ﷺ کی والدہ ماجدہ سیدہ طاہرہ سیدۃ النساء آمنہ سلام اﷲ
علیہا نے اسی نور سے ملک شام کے محلات دیکھے، اسی نور کی قوت کو بیت اﷲ
شریف نے سجدہ کیا، اسی نور کی ہیبت سے کسریٰ ایران کا محل تھرا اٹھا اور
اسکے چودہ کنگرے گرگئے، اسی نور کے جلوؤں سے بحیرہ سادہ پجاریوں کا گڑھ آنا
فانا خشک ہوگیا، اسی کی تجلیات سے ہزاروں سال سے روشن آتشکدہ ایران بجھ
گیا۔ نور جاں فزا لہروں اور اس باد نسیم کے جھونکوں نے کائنات کا کوئی گوشہ
محروم نہ رکھا حتی کہ آبی جاوروں نے آپ ﷺ کی آمد کی خوشیاں منائیں اور
باہمی مبارکبادیوں سے پر مسرت ماحول پیدا کیا۔ ابلیس کی انٹیلی جینس فورس
کا آسمانوں کے قریب جانا بند ہوا۔ مشت از خروارے ان چند واقعات کا ذکر کیا۔
یوں تو ساری کائنات اس نور اولین ﷺ کا ظہور ہے۔ کہ جن کے نور سے کائنات میں
اہل ایمان کے سینے ایمان سے منور ہیں۔ سرور عالمین کی ذات اقدس کا وزن یا
مقام وہی جانے جس نے اپنے ظہور کے لیئے آپ ﷺ کو تخلیق فرمایا۔ اہل عالمین
اﷲ کے اس فرمان سے کچھ معرفت سید الکائنات کے بارے حاصل کرسکتے ہیں کہ اﷲ
تعالیٰ نے جو کچھ پیدا فرمایا وہ جن و انس کی ضروریات کے لیئے بنایا اور
سبھی کچھ انسانوں کی نوکری پر لگا دیا۔ اِن اَن گنت نعمتوں کا اﷲ تعالیٰ نے
اپنے کلام ازلی میں کہیں بھی احسان نہیں جتلایا ۔سوائے ایک ذات اقدس کے کہ
جن کو مبعوث فرماکر من علی المؤمنین فرمادیا۔ من بہت بڑا احسان کرکے
جتلادیا۔ اﷲ اکبر ۔ وہی سب بڑائیوں کا مالک ہے اسی کی بات بڑی اور سب سے
زیادہ وزنی ہے۔اسی اﷲ نے آپ ﷺ کو اپنی نعمت غیر مترقبہ فرمادیا۔ اب ذرا اہل
ایمان اس نعمت عظمیٰ کے بارے فکر و تدبر کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ دنیا و
آخرت کی تمام بھلائیاں اور کامیابیاں آپ ﷺ کے دامن سے ملی ہیں۔ اہل کتاب
میں اہل اﷲ ضرور ہوئے اور بادشاہ بھی ہوئے، دانشور، حکما، علما،اطبا غرضیکہ
ہر شعبہ کے عظیم لوگ ہوئے لیکن سوائے چند ایک کے کسی کا نہ مزار ہے نہ کوئی
کارنامہ نہ مقبرہ نہ یاد گار باقی ہے۔ انبیاء سابقین کے کمالات نبوت و
رسالت ایک قوم یا علاقے تک محدود تھے۔ وہ قومیں ہلاک ہوئیں یا بہت کم لوگ
ایمان لائے۔ بادشاہ بھی حضرت طالوت مقرر ہوئے یا سیدنا حضرت سلیمان علیہ
السلام۔ پھر حضرت یوسف علیہ بطور بادشاہ بھی موجود ہیں۔ لیکن وسعت شہنشاہیت
مصطفٰے ﷺ کا حال ہی عجیب ہے۔ مثل پتھر اٹھاؤ توبادشاہ اور اہل اﷲ کی کثیر
تعداد سامنے آتی ہے۔روئے زمین پر جا بجا سید الانبیا ء ﷺ کے غلاموں کے
مزارات نافع الخلائق اور مرجع خلائق ہیں۔لاتعداد تاج سلطانی سے نوازے گئے۔
دنیا کو مکمل اور نئے عادلانہ نظام حکومت دینے والے آپ ﷺ کے غلام ہی ہیں۔
جن میں حضرات صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین، تابعین، تابع تابعین ،
مجتہدین، ائمہ کرام، مفسرین کرام اور اولیاء کرام رحمہم اﷲ اجمعین قوت نور
مصطفٰے ﷺ کے مظہر اور ترجمان ہیں۔ یہ وہ حقیقتیں ہیں کہ جو شان اسلام کے
پرچم ہیں اور نشان منزل ہیں۔ اب ماہ ربیع النور اپنی تمام تر رعنائیوں کے
ساتھ تاباں و شاداں ہے۔ پوری کائینات میں زبردست ہل چل ہے۔ اس کی بھی وجہ
وہ ارشاد ربانی ہے کہ اے محبوب ﷺ ہم نے آپ ﷺ کے ذکر خیر کو بلند کردیا ہے۔
کائینات میں اپ ﷺ کے نور کے جلوؤں کا راج ہے اور غیر کچھ بھی نہیں۔ یہ وہ
عروج ہے جسے زوال نہیں۔ ہر آنے والادن پہلے سے زیادہ آپ کی عظمتوں کا مظہر
ہے۔ آپ ﷺ جو نعمتوں کے دسترخوان لائے ان کا احاطہ اس خامہ ناقص کے بس کی
بات نہیں البتہ جو کچھ لکھا گیا اور وہ قبول بارگاہ ہوجائے تو اسی سے زمین
آسمان بھر جائیں۔ انسان کو دنیا میں رہنا ہے اور اﷲ تعالیٰ نے دنیا میں جو
وسیع نعمتیں پیدا فرمائیں وہ سبھی انسان کے کھانے اور برتنے کے لیئے ہیں۔
خوردو نوش اور تجمل یا اقتدار و جاہ و حشمت سبھی کچھ انسان کے لیئے ہے۔ ایک
قطرہ آب سے تشکیل ہوئی اور ایک خوبصورت وجود پایا۔ اپنے خالق کی معرفت کے
لیئے سیدالکائینات ﷺ نے تعلیم و تربیت فرمادی۔ اگر انسان آپ ﷺ کی تعلیم و
تربیت کے دائرہ میں رہ کر زندگی کا یہ آزمائش دور گذارے تو یہاں بھی مزے
اور آخرت میں بھی مزے۔ دنیا کی نعمتیں یا آخرت کے کی سبھی انسان کے لیئے
ہیں۔ لیکن بات ہے حقیقی اور پرخلوص محبت و مودت کی۔ اصول آدمیت ہے کہ جس سے
محبت ہوتی ہے اسکی ذات اور صفات بھی محبوب ہوتی ہیں۔ جس مسلمان سے سوال
کریں حب رسول کا تو وہی بڑا عاشق رسول ہے۔ مگر عمل دیکھیں تو کچھ منفی ہے۔
اگر کوئی کسی کے محبوب کی خامیاں بیاں کرے یا اسے برابھلا کہے یا اتنا ہی
کہدے کہ اس جیسے خوبصورت اور بھی بہت ہیں تو محب برداشت نہیں کرسکتا ۔ یہ
کیسا مسلمان ہے کہ اس کے محبوب ﷺ کے بارے ایسی گستاخیاں ہوں یہ برداشت کرے؟
یہ کیا ہے کہ اربوں میں سے گنتی کے لوگ تحفظ ناموس محبوب ﷺ کے لیئے نکلیں۔
اور بقول حضرت علامہ اقبال کہ اسیں گلاں کردے رہ گئے تے ترکھان دا پتر بازی
لے گیا۔ آج بھی ایک محب رسول اسلامیہ جمہوریہ پاکستان میں پس زندان ہے۔ یہ
بات تو محب و محبوب کی دوران تحریر القا ہوگئی۔ اے محبان رسول تمہارے محبوب
ﷺ نے فرمایا کہ نماز میں میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے، کیا تم نماز پڑھتے ہو،
تمہارے محبوب ﷺ نے فرمایا کہ کھانا بیٹھ کر دائیں ہاتھ سے کھاؤ کیا تم کھڑے
ہوکر اور چمچوں سے نہیں کھاتے،تمہارے محبوب ﷺ نے فرمایا کہ مسواک کرو کیا
تم بھی کرتے ہو یا فرنگی کی سنت پر عمل کرتے ہو، تمہارے محبوب ﷺ کی ریش
مبارک ہے اور تمہارے آبا و اجداد کی تھی کیا تم بھی ریش مبارک رکھتے ہو،
کیا تمہارا اور تمہاری عورتوں کا لباس تقویٰ کا مظہر ہے، کیا قران حکیم کے
حکم کے مطابق مسلمان عورتیں نقاب کرتی ہیں؟ کیا رزق کے حصول میں آپ لوگ
حرام اور حلال کا پیمانہ سامنے رکھتے ہیں؟ کیا آپ لوگ اپنے مسلمان بھائیوں
کے ساتھ ہمدردی، انکی عزت اور جان و مال کے محافظ ہیں ؟ کیا اپنے ماں باپ
اور اقرباء کے حقوق آپ ادا کرتے ہیں؟ آپ اگر حکمران ہیں تو کیا رعایا کے
آرام کا خیال رکھتے ہیں، انہیں ضروریات زندگی فراہم کرتے ہیں ، کہیں بچے ا
فلاس کا شکار ہوکر مرتو نہیں رہے ، کہیں لوگوں کا قتل عام تو نہیں ہورہا،
کہیں تم قوم کے خزانے پر ہاتھ تو صاف نہیں کر رہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر حب
رسول کا کیا مطلب ہے۔؟ میرے پیارے سرکار ﷺ کے روحانی بچو ! جشن ولادت رسول
معظم و مکرم ﷺ کے مبارک موقع پر آپ کو دعوت عمل دے رہاہوں۔تجدید عہد کرو۔دل
سے کلمہ شہادت پڑھ لو کہ دنیا و آخرت کی عظمتیں عملی غلامئی رسول میں ہیں
اور ہم سب مل کر انہیں حاصل کریں۔ میں یقین دلاتا ہوں کہ آج ہم جن مصائب سے
دوچار ہیں ان سے نجات ملے گی۔ آمین ثم امین۔ |
|