کسی لکھنے والے نے کیا خوب لکھا:
’’جب کسی بچے کا باپ فوت ہو جائے تو اسے یتیم کہا جاتا ہے…… کسی خاتون کا
شوہر فوت ہو جائے تو عورت کو بیوہ کا نام دیا جاتا ہے…… اگر کسی مرد کی
بیوی چل بسے تو اس شخص کو بھی ’’رنڈوا‘‘ کہہ دیا جاتا ہے لیکن…… اگر کسی
ماں باپ کا بچہ…… ان کی موجودگی میں…… اس دنیا سے رخصت ہو جائے تو پیچھے رہ
جانے والے ماں باپ کو کیا کہا جائے گا……؟ کیا نام دیا جائے گا…… ؟ اس کی
غمگساری کے لئے کیا اصطلاح استعمال ہو گی……؟ زبان و بیان کی تمام لغات و
قاموس اس سے خالی ہیں۔ شاید اسی لئے کہ یہ غم اتنا بھاری ہے کہ الفاظ بنانے
والے بھی اس کا بوجھ نہ اٹھا سکے اور اس کے لئے کوئی لفظ ہی نہ بن سکا۔
یہ غم اگر کسی نے دیکھنا ہے تو پشاور کے آر می پبلک سکول میں گھروں سے صبح
سویرے روزانہ کی طرح رخصت ہونے والے ان بچوں کے والدین سے پوچھے جنہوں نے
اپنے لخت جگر کتنے ارمانوں کے ساتھ اور کتنے خوابوں کو آنکھوں میں سجا کر
انہیں سکول بھیجا تھا۔
اس دن کا سفر کیسا عجیب سفر تھا…… ماؤں نے بچے سکول بھیجے لیکن…… وہ وہاں
سے روزانہ کی طرح واپس نہ آئے اور……
’’مائیں دروازے تکتے رہ گئیں…… بچے سکول سے جنت چلے گئے‘‘۔
ہاں! چشم تصور میں ایک بچہ اپنی ماں سے کہہ رہا تھا ’’ماں! تو کہتی تھی
ناکہ میں بڑا ہو کر قوم کی خدمت و حفاظت کروں گا اور پھر …… میں شہید ہو کر
جنت جاؤں گا……؟ دیکھ ماں! میں قوم کی خاطر ابھی ہی شہید ہو گیا……‘‘اسی لئے
تو کہنا پڑے گا:
’’سنا تھا کہ یہ فوجی ہوتے ہیں جو ملک و قوم کی حفاظت کے لئے قربان ہوتے
ہیں مگر …… آج تو فوجیوں کے بچے بھی اس میدان میں سب پر بازی لے گئے‘‘
ان معصوم پھول اور کلیوں کے نازک اندام جسم سے جس دم فولادی آگ کے شعلے
سنساتی گولیوں کی صورت گزرے ہوں گے تو…… ہم کیا جانیں؟
ان پر کیا گزری ہوگی…… کیونکہ
تپش تو وہیں ہوتی ہے جہاں آگ جلتی ہے……
دور بیٹھے اس کی حرارت کی بات تو کر سکتے ہیں،محسوس نہیں کر سکتے……
پشاور کے انہی ننھے شہیدوں میں سے ایک شہید حذیفہ آفتاب تھا۔ پتہ نہیں اس
دن کیوں اس نے ناشتہ کرنے سے انکار کر دیا تھا اور سکول روانگی کے لئے مکمل
تیاری کرنے کے بعد جب وہ ناشتے کے مرحلے پر پہنچا تو اسے اتنی جلدی تھی کہ
……ماں کے ہاتھوں بنا ناشتہ زبان سے نہ لگایا اور ……کہہ اٹھا کہ آپ نے میرے
لئے ناشتہ بنایا ہے نا! روز کرتا ہوں…… آج آپ خود سے ویسے ہی سمجھ لیں، میں
نے ناشتہ کر لیا…… ابھی سکول سے چھٹی کا وقت بھی نہیں ہوا تھا کہ اس روز
خالی پیٹ سکول جانے والا حذیفہ پاؤں پر چل کر نہیں بلکہ ایک تابوت میں بند
ہو کر آیا۔ چہرے پر مسکراہٹ تو پہلے سے زیادہ سجی تھی لیکن …… ماں آج اسے
ہمیشہ کے لئے رخصت کرتے ہوئے کہہ رہی تھی:
’’میرے لال! اتنا لمبا سفر اور وہ بھی خالی پیٹ؟ بیٹا تو نے تو اپنی ماں کے
پیار کا ناجائز فائدہ اٹھایا۔‘‘
کتنے گلبدن لہو رنگ ہو کر ہسپتال پہنچے۔ ہسپتال کے برآمدے میں زمین پر
بیٹھی شہید یاسین کی ماں کہہ رہی تھی…… ’’یاسین ایک بار واپس آ جاؤ…… اﷲ کی
قسم! آئندہ تمہیں کبھی زبردستی سکول نہ بھیجوں گی‘‘۔
ان ننھے شہیدوں میں ایک مبین شاہ بھی تھا جو اپنے سوشل میڈیا پہنچنے پر
عموماً لکھا کرتا تھا کہ
’’ ان (طالبان) کی بندوقوں سے ہماری مسکراہٹ زیادہ طاقتور ہے‘‘۔ واقعی دنیا
نے دیکھ لیا کہ ان کلیوں کی مسکراہٹیں بارود کے ڈھیر سے زیادہ طاقتور
نکلیں۔ جب انہوں نے موت کو اپنے سامنے دیکھا تو وہ ایسے گھبرائے نہیں کہ ان
کی سانسیں بند ہو گئی ہوں جیسا کہ اس واقعہ کے بعد اپنے کالے کرتوتوں کی
سزا پا کر سزائے موت کا سن کر کتنوں کی سانسیں بند ہو گئیں اور وہ جیتے جی
موت سے ایسے ڈرے گرے کہ دھڑام سے گر کر مر گئے، لیکن ……پشاور کے آرمی سکول
کے ایک بچے کی ایک کاپی کھول کر دیکھی گئی تو اس کے صفحہ کے آخر میں The
End پورے اطمینان وسکون سے خوش خطی کے ساتھ جلے حروف میں لکھا نظر آیا۔ جس
سے اندازہ ہوا کہ یہاں مرنے والوں کو کوئی پریشانی نہ تھی، کوئی خوف نہ
تھا، حالانکہ مارنے والے اس قدر سفاک تھے کہ ایسے درندوں کا بار بار مقابلہ
کرنے والے ایک کمانڈو نے بتایا کہ میں نے اپنی زندگی میں ایسے کتنے واقعات
میں خود اتر کر ان کا سامنا کیا لیکن…… ایسے منظر میں نے تو کبھی دیکھے تو
کیا، سوچے بھی نہ تھے…… کہ یہاں ان بچوں کے دل کمر کی طرف سے باہر نکلے
ہوئے تھے…… یہ کیسے سفاک تھے کہ جن کی خونریزی دیکھ کر معاً چنگیز خان یاد
آ گیا جس سے پوچھا گیا کہ کیا کبھی تم نے زندگی میں کسی انسان پر رحم یا
ترس بھی کھایا ہے؟ کہنے لگا ،ہاں! ایک مرتبہ ایسا ہوا تھا …… پوچھنے والے
سے پوچھا کہ وہ کیسے ؟تو وہ کہہ اٹھا……
ایک روز صبح سویرے سیر کے لئے نکلا تھا…… نہر کنارے ایک ماں کو تڑپتا اور
بلکتا پایا جو میرے گھوڑے کے سامنے آہ و زاریاں کرتے آن کھڑی ہوئی تھی کہ
اس کا ننھا جگر گوشہ نہر میں گر گیا ہے…… وہ اسے نکال اور بچا کر دے دے……
میں نے اس کی حالت پر ترس کھاتے ہوئے گھوڑا آگے بڑھایا اور پھر اپنا نیزہ
نہر میں غوطے کھاتے شیر خوار کو گھونپا اور اسے یوں اچک کر پھر اسے اسی
حالت میں ماں کے آگے ڈال دیا……
یہ تھا اس چنگیز خان کا رحم اور ترس کا وہ واقعہ جس نے ساری تاریخ خون سے
لکھی اور پھر اپنے نام ہمیشہ کے لئے تاریکی اور اندھیرے کر گیا…… آج اس کے
پیروکار بھی اسی راہ پر ہیں…… وہ یہ ضرور یاد کر لیں کہ وہ چنگیز ،اس کی
نسل اور اس کے پیروکار کہاں ہیں؟ اس کی وسیع و عریض سلطنت کہاں غائب ہو گئی
؟اسی چنگیز کے آج کے پیروکار دن رات بے گناہوں کا خون بہاتے ہیں تو ان ننھے
پھولوں کو قتل کرنے سے پہلے کہتے ہیں کہ سب کلمہ پڑھ لو…… تمہیں جنت بھیجنے
لگے ہیں…… بات و انداز مختلف ہے…… نتیجہ ایک ہی ہے، چلئے! زیادہ سے زیادہ
بیان کرنے کو کہانی تھوڑی مختلف ہے۔
اس لئے تو شہدائے سانحہ پشاور سوال کرتے ہیں(چشم تصور سے)
مجھ سے کیا کوئی جرم ہوا ہے؟
مجھ پر کیوں یہ ظلم ہوا ہے؟
وقت پہ آج بھی آیا تھا، سبق بھی دہرایا تھا
پنسل، مارکر، ربڑ، شاپنر، سب کچھ ساتھ لایا تھا
آج تو میرا پیپر تھا، ٹیچر نے بتلایا تھا
ماں بھی رات کو جاگی تھی، ابو نے بھی پڑھایا تھا
شور نہ کرو سو جاؤ، بہنا کو بھی سمجھایا تھا
دعائیں پڑھیں، ماتھا چوما، بیٹا سکول بھجوایا تھا
ماں امتحان تو مشکل ہے، موت سوال جو لازم ہے
پر وعدہ میں نہ توڑوں گا، یہ سوال نہ چھوڑوں گا
بابا کو بتلا دینا، بہنا کو سمجھا دینا
یونیفارم کو دھو لینا، اب پہروں بیٹھ کے رو لینا
پرچہ آج کچھ یوں ہوا ہے، بدن لہو لہو ہوا ہے
مجھ سے کیا کوئی جرم ہوا ہے؟
مجھ پر کیوں یہ ظلم ہوا ہے؟ |