ڈوبتے سال کی آخری ہچکیاں‎

کرہ ارض اپنے مدار پہ گھومتے ھوئے اپنے انجام کی طرف بڑھ رہاھے ۔ ہر گزرتا لمحہ اس مسافت کو کم سے کم تر کرتا چلا جا رہا ھے ۔ خود انسان کی زندگی حباب کی سی ھےپھر بھی سال کے آخری لمحوں کا نوحہ سننے کے بجائے انسانوں کی اکثریت خود کوعیش وعشرت کے طوفانوں میں ڈبو دیتی ھے ۔ انسانیت کا یہی کھوکھلا پن شیطان کو سیندھ لگانے کے مواقع فراہم کرتا ھے ۔

بحیثیت مسلمان ہماری حالت اور دگرگوں ھے ۔پوری مسلم امہ دو واضح طبقوں میں بٹی نظر آتی ھے ۔ ایک طبقہ عوام الناس کا ھے ۔ مفلس و قلاش ، بے سہارا اور غیر محفوظ ۔ دوسری جانب حکمران طبقہ ھے ۔ دولت کے کیپسول میں محفوظ و مامون ،عیش و عشرت میں مگن اور عام آدمی کے مسائل سے قطعی لاتعلق ۔ دنیا بھر میں مسلمان خوف دہشت کی علامت بن گئے ھیں یا بنا دئیے گئے ھیں مگر جن پہ یہ داغ دھونے کی ذمہ داری ھے اول تو وہ اس کو نبھانے کو تیار ہی نہیں اور اگر کبھی بہت شور شرابہ مچ ہی جائے تو پھر ایسی بد دلی سے کام کرتے ہیں جیسے گونگلوؤں پہ سے مٹی جھاڑ رھے ھوں ۔ آخر ایسا کیوں ؟ اسلام نے تو قوم کے امیر کو قوم کا خادم مقرر کیا تھا ۔ بادشاہت،فرعونیت اور فسطائیت کے بتوں کو پاش پاش کر ڈالا تھا ۔ پھر یہ سب کچھ کیا ھے ؟

ماضی میں بہت پیچھے جھانکیے تو پتہ چلتا ھے کہ خود مسلمانوں کے حکمران طبقے سے یہ بات زیادہ دیر تک ہضم نہ ھو سکی کہ دوسری قوموں کا طبقہ بالا تو عیش کرے اور وہ قوم کے خادم بنے رہیں ۔ دوسری جانب ہر قوم اور قبیلے کے افراد اسلام میں داخل ھوئےتو اپنی سوچ، روایات اور معاشرتی رسوم رواج ساتھ لاتے گئے ۔ یونانی فلسفے نے مسلم مفکرین کی سوچ پہ گہرے اثرات مرتب کئے ۔ آزادی رائے کی بدولت بے باکی بڑھتی گئی ۔یوں نت نئے فتنے جنم لیتے گئے ۔ اسلامی تعلیمات میں مقامی رنگ لہریں مارنے لگے اگر ہم بغداد اور ہسپانیہ کے حالات کا ادراق نہ بھی کر سکیں تو برصغیر کی تاریخ ہمیں بخوبی سمجھا دیتی ھے کہ پنا لال اگر لعل محمد بن بھی گیا تو بھی اپنے باپ دادا کے طور طریقے اسکے ساتھ ہی رھے ۔ آج بھی ہم دعویدار ی تو یہ رکھتے ہیں کہ پاکستان اسلام کا قلعہ ھے مگر بیٹی کو وراثت میں حصہ دینے کو تیار نہیں ۔ جہیز اورنمود نمائش سے پیچھا چھڑانے کی ہمت نہیں رکھتے ۔

دنیا اگر ہمیں دشت گرد سمجھتی ھے تو ہم بھی اس الزام کو مٹانے کے بجائے ہر لمحہ ایسے کارنامے کرنے پہ کمر بستہ رہتے ہیں کہ داغ ندامت گہرے سے گہرے ھوتے جائیں ۔ ہمارے علماء اور سیاستدان وسعت قلب رکھتے ہی نہیں وہ اپنے اپنے خدشات و نظریات عام آدمی پہ ٹھونس کر ہمہ وقت فساد برپا کرنے کے درپے رہتے ہیں ۔ نتیجتاً عام آدمی میں برداشت کا مادہ ختم ھو چکا ھے ۔ ہر کوئی گروہ بندی میں مبتلا ھو کر دوسرے گروہ کے خلاف محاذ کھولے بیٹھا ھے ۔چاروں جانب گھور اندھیرے میں مصائب و آلام کی گھٹائیں کڑکتی اور ظلم و بربریت کی بجلیاں کوندتی دکھائی دیتی ھیں ۔غربت ،جہالت اور بیچارگی نے ہمیں ہر طرف سے گھیر رکھا ھے ۔ ایسے میں کیا نیا سال اور کیا پرانا ۔ ہمارے لئے تو جیسے وقت رک تھم سا گیا ھے ۔
پھر کیا کیا جائے ؟ اپنے آپ کو مظلوم سمجھ کر ٹھنڈی آہیں بھرتے رہیں ؟ خود کو ڈوبتا دیکھتے رہیں ؟اگر بحیثیت قوم ہم نے اجتماعی خود کشی کا تہیہ کر لیا ھے تو پھر تو ایسے ہی چلنے دیں لیکن اگر ہم اپنی آئندہ نسلوں کو سنوارنا چاہتے ہیں تو اب ہمیں ہر صورت اپنے آپ کو بدلنا ھو گا ۔ ہر فرد پہ یہ ذمہ داری عائد ھوتی ھے کہ وہ اپنے قو ل و فعل کو درست کرے اور یہ عہد کرے کہ اسے محدود سوچ رکھنے والے ملا کی آواز پہ کان نہیں دھرنا بلکہ اس عظیم کتاب پہ خود غور و فکر کرنا ھے جو مالک نے ہم میں سے ہر ایک کے ہاتھ میں تھما رکھی ھے ۔ خود سوچو اسلام کے نام پہ دوسروں کے ملکوں میں گھس کر بے گناہ لوگوں کو مارنے سے تم نے اسلام کو کتنا مضبوط کر دیا ۔ جن کی دو عمارتیں گریں انہوں نے تمہارے دو ملک اجاڑ دئیے ۔ ایک غیر مسلم مرے تو بدلے میں سو مسلمانوں کا خون بہا دیا جاتا ھے اور پھر دشت گرد تو اس بد مست ہاتھی کی طرح ھو چکے ہیں جو پلٹ کر اپنا لشکر روند ڈالتے ہیں ۔ دراصل یہ سوچ ہی غلط ھے کہ اسلام پہلے کبھی تلوار کے زور سے پھیلا تھا یا آج ایسا ھو سکتا ھے ۔ پہلے بھی اسلام کا پیغام محبت تھا اور آج بھی یہی ھے ۔ جتنے مسلمان موجود ھیں وہ خود کو درست کریں اپنے جیسی مزید فوج بڑھا کر کون سا تیر مار لیں گے ۔

میری حکمران طبقے سے بھی درخواست ھے کہ اب ذرا خول سے باہر نکلیں اور کچھ اس قوم کے بارے میں بھی سوچ لیں جس کے دم سے ان کی حکمرانیاں قائم ھیں ۔ خصوصاً پاکستان کے حکمرانوں نے اپنے چلن نہ بدلے تو ان کی خود غرضی سب کچھ لے ڈوبے گی ۔ ضرب عضب لگائی گئی خوب کیا ۔ اب دہشت گردوں کو چن چن کر ختم کیا جا رہا ھے بہت بہتر لیکن خدارا ان نرسریوں کو بھی ختم کریں جہاں سے ایک جانب طالبان پیدا ھوتے ھیں اور دوسری جانب کاٹھے انگریز یعنی بھانت بھانت کے مدارس اور انگلش میڈیم اسکولوں کو ختم کر کے تمام تر عمارتوں میں پاکستانی تعلیمی ادارے قائم کریں جن میں ذریعہ تعلیم اردو ھو ۔ قرآن پاک ترجمے کے ساتھ پڑھایا جائے ایسا ترجمہ جو کسی فرقے کی ترجمانی نہ کرتا ھو ۔ اسکا نہ امتحان لیا جائے نہ نمبر رکھے جائیں بلکہ بچوں کے دل میں صرف اس کا احترام پیدا کیا جائے ۔ انگریزی سمیت دنیا بھر کی زبانوں کو اختیاری رکھا جائے ۔ ہر بچہ اپنی دلچسپی کی جو زبان سیکھنا چاہے سیکھ لے ۔ بچوں کو ایک آدھ ہنر بھی سکھایا جائے ۔ تعلیم سبکے لئے ھو اسکی ذہنی استعداد کے مطابق اسکی دولت کے مطابق نہ ھو ۔ ارے حکمرانو ! یہ کوئی راز تو نہین ھے آپ لوگ بخوبی جابتے ہیں کہ کسی بھی قوم کو درست کرنے کے لئے اسکی بہترین تعلیم و تربیت بے حد ضروری ھے ۔ اسی لئے تو تمہارے اپنے بچے باہر پڑھنے جاتے ہیں ۔ خدارا اپنے بچوں کو بھی یہیں پڑھاؤ اوراس ملک کے ہر بچے کو اپنا بچہ سمجھ لو ۔ نواز شریف صاحب اگر آپ نےیہ کارنامہ کر لیا تو آپ اس ملک کی تاریخ میں امر ھو جائیں گے ۔ وگرنہ آٹھ دس سال کی عیش عشرت کے بعد زلیل خوار ھو کر اپنے منہ پہ کالک ملوا لینا اس قوم کے حکمرانو کا وطیرہ رہا ھے ۔ خدا کرے اس ڈوبتے سال کی سسکیاں اس ملک کے عوام و خواص کو ایسا پیغام دے جائیں کہ دو ہزار پندرہ امن و سلامتی کا پیغام بر بن جائے ۔
جو تھا،نہیں ھے،جو ھے نہ ھو گا،یہی ھے حرف محرمانہ
قریب تر ھے نمود جسکی ، اسی کا مشتاق ھے یہ زمانہ
Yasir Arafat
About the Author: Yasir Arafat Read More Articles by Yasir Arafat: 15 Articles with 12330 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.