بسم اﷲ الرحمن الرحیم
جمال صاحب کپڑے کے بیوپاری تھے۔ اکثر تاجروں سے ادھار مال خریدتے اور مقررہ
تاریخ پیسے واپس کرنے کا وعدہ کرتے کاروبار کافی عرصے سے چل رہا تھا ۔ مال
دینے والوں کی ان کی رقم کبھی وقت پر اور کبھی تاخیر سے مل جاتی تھی اس وجہ
سے لوگ ان پر بھروسہ کرنے لگے۔ ہر چھوٹا بڑا تاجر ادھار مال دینے کو تیار
ہوتا۔ اسی دوران ان کی بیٹی کی شادی ہوئی ۔ شادی بڑی دھوم دھام سے کی اپنے
تاجر دوستوں کو بھی مدعو کیا ، انھوں نے بھی بڑی تعریف کی ۔
بیٹی کی شادی کے بعد تاجروں کو رقم کی واپسی میں تاخیر شروع ہوئی اور وہ
بھی ان کو جو بڑے تاجر تھے جن کا اثر و رسوخ تھا ۔
چھوٹے تاجروں کو انھوں نے رقم کی ادائیگی روک لی ۔ اب چھوٹے تاجر انکے دفتر
دھکے کھاتے رہے ر قم کا مطالبہ تو ایک طرف ان سے ملاقات ہی مشکل ہو گئی،
کئی تاجر طیش میں بھی آ گئے کہ انکو سبق سکھاتے ہیں لیکن سمجھ دار تاجروں
نے سمجھایا کہ غصہ میں اٹھائے ہوئے قدم سے رقم تو ملے گی نہیں اور ہم خود
مشکل میں پھنس جائیں گے،بلاآخر چھوٹے تاجروں نے کسی ثالث کے ذریعہ فیصلہ
کروایا ۔ 50% ادائیگی پر فیصلہ ہوا بقیہ 50% معاف ۔ چھوٹے تاجروں نے بھی
بھاگتے چور کی لنگوٹی بھلی کے مصداق بادل ناخواستہ اس معاہدہ پر دستخط کر
دیئے۔
کسی نے ثالث کی توجہ اس طرف بھی دلائی کہ اس طرح دباؤ میں لے کر معاف کرانے
کا مسئلہ علماء سے پوچھ لیں
کیا اس طرح معاف ہو جاتا ہے؟
معاہدے کے بعد جمال صاحب نے چھوٹے تاجروں کو بھی رقم کی واپسی شروع کر دی
لیکن 25% ادائیگی
کے بعد دوبارہ رقم روک لی۔ چھوٹے تاجروں کے جمال صاحب کے دفتر جانے پر
معلوم ہوا کہ جمال صاحب بمعہ خاندان کے عمرے کے لئے گئے ہوئے ہیں۔ چھوٹے
تاجر اس سوچ میں پڑ گئے کہ عمرہ کرنا زیادہ ضروری ہے یا قرض کی واپسی ؟عمرے
کی ادائیگی کا ثواب زیادہ ہے یا وقت پر قرض ادا نہ کرنے کا وبال؟
ایسے بے شمار کا م ہم کرتے ہیں جو کہ ایک طرف نیکی ہوتے ہیں لیکن دوسری طرف
ان کی بنیاد ناجائز اور حرام پر ہوتی ہے دینی مجلس میں شرکت کے لئے آئے ہیں
اور گاڑی ایسی جگہ پارک کر دی جس سے لوگوں کو تکلیف ہو رہی ہے۔اب دینی مجلس
کی برکات ہماری غلط پارکینگ لے گئی۔ اگر کسی کو تکلیف ہوئی تو نفع سے زیادہ
نقصان کا اندیشہ ہے آج سیرت نبویﷺ کے نام پر جلسے ہوتے ہیں نعتیں ہوتی ہیں
یہ سب نیک کام ہیں لیکن جس رفتار سے لاوڈ اسپیکر کھلے ہوتے ہیں اس پر کتنی
توجہ ہوتی ہے کہ اس سے کسی کو تکلیف تو نہیں ہو رہی کچھ کما کر جارہے ہیں
یا کہ گنواں کے؟
ایک واعظ مسجد نبوی میں بیان فرمارہے تھے لیکن ان کی آواز بلند تھی حالانکہ
اس وقت لاوڈ اسپیکر کا زمانہ نہیں تھا ۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کے حضرت
عمر رضی اﷲ عنہ سے شکایت کر نے پر کاروائی ہوئی اور اس واعظ کو روک دیا گیا۔
حضورﷺ تہجد میں اٹھا کرتے تو اس انداز سے کہ گھر والوں کی آنکھ نہ کھلے۔
لیکن آج حضورﷺ کی سیرت کے نام پر ایسا طرز عمل اختیار کیا جاتا ہے پور ا
محلہ سو نہیں سکتا یا یک سوئی سے عبادت نہیں کر سکتا۔
آجکل یہ نظارے بھی دیکھنے میں آتے ہیں کہ کالج کے لڑکے اور لڑکیاں سگنل پر
کھڑے زلزلہ زدگان یا سیلاب زدگان کی مدد کے لئے چندہ اکھٹے کر رہے ہوتے ہیں
۔ کسی مصیبت زدہ کی مدد کرنا تو بہت اچھا کام ہے لیکن یہ بے حیاہی کا وبال
کہیں اس سے آگے نہ نکل جائے؟
بعض لوگ پہلی صف کی فضیلت حاصل کرنے کے لئے لوگوں کے کندھے پھلانگ کر آتے
ہیں اور زبردستی پہلی صف گھستے ہیں جس پوری صف والے پریشان ہو جاتے ہیں ،
پہلی صف کا ثواب کمانے آئے تھے لیکن لوگوں کو اذیت دینے کا وبال سر پر لے
لیا ۔ بعض لوگ چھوٹے نا سمجھ بچوں کو مسجد میں نماز کے لئے ساتھ لاتے ہیں
جس سے نمازیوں کے یکسوئی متاثر ہوتی ہے اپنے خیال میں تو اچھا کام کر رہے
ہیں لیکن نامہ اعمال میں مسجد کی بے حرمتی کا وبال لکھا جا رہا ہے ۔
بعض لوگ عمرے و نفلی حج کے لئے جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں ، جھوٹی سرٹیفیکٹ
بنا لیتے ہیں ، وہاں پہنچ کربھی ڈاڑھی منڈوانے سے باز نہیں آتے ، عمرے کے
ثواب کے مقابلے میں یہ عظیم گناہ اپنے سر لے لیتے ہیں -
بعض لوگ فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں ۔بڑی بڑی تقریبات ہوتی
ہیں انکی تعریفوں کے پل باندھے جاتے ہیں لیکن دوسری طرف یہی لوگ وراثت میں
بہنوں کا حصہ نہیں دیتے۔ دنیا والوں کی نظر میں تو بڑا نام ہے ،اور اپنے آپ
کو بڑا دین دار سمجھتے ہیں ، لیکن کیا اﷲ تعالی کے یہاں بھی ہمارا عمل
مقبول ہے؟؟
ہم ایسے رہے یا کہ ویسے رہے
وہاں دیکھنا ہے کیسے رہے |