آج دھوکا اور فریب اس قدر عام ہے
کہ باپ بیٹے سے ،بیٹاباپ سے ،استاد شاگرد سے ،شاگر د استاد سے ،مالک مزدور
سے اور مزدور مالک سے اور سیاستدان عوام سے جھوٹ بولتے اور اسے فریب دینے
کی کوشش کر رہے ہیں زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جہاں کارکردگی کا حسن
کملانہ گیا ہو ۔ہمارے معاشرے کی ایک اور خرابی یہ ہے کہ ہم سب امام ہیں ہم
میں سے مقتدی کو ئی نہیں ہے یعنی ہم دوسروں پر تنقید کرتے ہیں مگر اپنی
اصلاح کی طرف توجہ نہیں دیتے دوسروں کی برائیوں کا اچھالنا ہمارا روز مرہ
کا معمول ہے مگر اپنے نقائص کی طر ف سے ہماری آنکھیں بند ہیں۔
ہم نے ہر رُخ کے مقابل آئینہ رکھا مگر
اک خود کو آئینے کی آنکھ سے دیکھا نہیں
اس طرح ہم کوئی سی بھی ذمہ داری قبول کرنے کے لیئے تیا ر نہیں ہیں ہر شخص
دوسرے کو ذمہ دار سمجھتا ہے ہمار ا انسانیت پر بھی دوہرا معیا ر بن چکا ہے
ہم غریبوں کے بچوں کو کیڑے مکوڑوں سے زیادہ اہمیت دینے کو تیا ر نہیں اگر
کسی امیر کا بچہ حادثے میں مر جائے تو کہرام مچ جاتا ہے ہمار ا میڈیا اسے
ایسے پیش کرتاہے کہ جیسے ہم سے زیادہ انسانیت کا درد کسی اور اقوام میں
نہیں ہر سو نوحہ خوانی کی محفلیں سج جاتی ہیں مگر کسی پسماندہ دور آفتاہ
تھر پارکر کے علاقے میں سینکڑوں غریب بچے غذائی قلت کی وجہ سے مر جائیں تو
ہم کو انکی پروا تک نہیں کیونکہ ان کا تعلق غریب مفلوک الحال قبیلوں سے
ہوتا ہے شاید یہ مرنے والے کالے رنگ کے بچے صحرا کے پھول ،پھول نہیں ہوتے
انکی ماؤں کے سینے میں دل نہیں دھڑکتا یہ لوگ جانوروں سے بھی ابتر ہوتے ہیں
کہ ان کے لیئے اک آنسو تک نہیں بہایا جا تا افسوس صد افسوس ہم منافقت کی اس
انتہا تک پہنچ چکے ہیں جہاں سے واپسی شاید ممکن نہیں اصول پرستی عملاً ختم
ہو چکی ہے ہر انسان داؤ پر ہے اس کے سامنے ایثار اور قربانی کا کوئی جذبہ
نہیں انسانیت منافقت کے ہتھے چڑھ کر اپنا حُسن کھو بیٹھی ہے ہم سمجھتے ہیں
کہ منافق وہ ہوتاہے جس کے ظاہر اور باطن میں تضاد ہو مگر حضورؐنے اپنے ایک
فرمان میں منافق کی چار نشانیا ں بتائی ہیں منافق امانت دار بنا دیا جائے
تو خیانت کر تاہے وعدہ کر تا ہے تو پورانہیں کرتا ۔بات کر تاہے تو جھوٹ
بولتا ہے گویا یہ وہ مرغ باد نما ناسور ہیں جو منافقت سے جنہم لیتے ہیں یا
منافقت کی تعمیرو تراکیب میں اعانت کرتے ہیں جب تک منافقت ہماری رگوں میں
گردش کرتی رہے گی اس وقت تک ہمار معاشرہ فکرونظر کی بد حالیوں کے ساتھ ساتھ
اخلاق و کردار کے افلاس کا نشانہ بنا رہے گا الغرض معاشرے کا ہر رخ داغدار
اور ہر انداز افسوناک ہے حضر ت عمر فاروق ؓ نے فرمایا تھا کہ اگر دریائے
فرات کے کنارے کتا بھوکا مر گیا تو روز قیامت عمرؓ سے اس کا حساب لیا جائے
گا مگر آج کے حکمران اس قدر بے حس اور بے رحم ہو چکے ہیں کہ انھیں اس بات
کا احساس تک نہیں کہ کل انہوں نے اپنے اعمال کا حساب دینا ہے ۔
اگر ہمیں یہ احساس ہو کہ ہم اپنے ہر فعل ،ہر قول اور ہر حرکت کے ذمہ دار
بھی ہیں اور جواب دہ بھی ،جواب دہ بھی اس ذات اقدس کے سامنے جو علیم اور
خبیر بھی ہے جس کی آگہی اور علم کی کوئی انتہا نہیں جو ہمارے دل کے خیالوں
سے بھی آشنا ہے اور ایک چیونٹی کی رفتا ر کی آہٹ بھی اس سے مخفی نہیں۔
اس کے باوجو د بے ایمانی اس قدر عام ہے کہ دوزخ کے لہکتے شعلے بھی ہمیں اس
خوئے بد سے روک نہیں سکتے ہم دوسروں کا حق غضب کرنے کو بھی حسن اخلاق کا
ایک دلاویز زاویہ سمجھتے ہیں ظلم اور ناانصافی کو اپنا اشعار بنا چکے ہیں
دھوکا ،فریب سیاست بن چکے ہیں کسی کے گھوڑے سیب اور مربہ کھاتے ہیں اور کسی
کو پینے کے لیئے صاف پانی تک میسر نہیں ۔
کل بھی میں جنگل میں تھا اور آج بھی جنگل میں ہوں
کل میرے ہمسائے تھے خونی درندے ،بھیڑیئے
آج انسانوں میں ہوں اور خون کے جل تھل میں ہوں
روح کا قاتل ہوں میں،اور جسم کے مقتل میں ہوں
ہمارے نبی اکرم ؐ کا فرمان ہے کہ آپ ؐ نے ایک بار کعبہ کو مخاطب کرتے ہوئے
فرمایا کہ " اے کعبہ تو مجھے بہت عزیز ہے مگر یا د رکھ اگر ایک طرف تو گرتا
ہے اور دوسری طرف کسی ناحق کا خون بہتا ہو تو میں اس خون کی حفاظت کروں گا"
احترام انسانیت کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہو سکتی ہے مساوات اور احترام
انسانیت کے جذبے سے پھوٹتی ا ور برادرانہ شفقت و اخوت کے سائے میں پروان
چڑھتی ہے جن قوموں میں مساوات ختم ہو جاتی ہے وہ درندوں سے کہیں زیادہ بد
تر اور بھیڑیوں سے کہیں زیادہ خونخوار ہو جاتی ہیں ۔بد قسمتی سے ہمارے ہاں
مساوات ختم ہو چکی ہے آج ہم تھر پارکر میں غذائی قلت سے انکوبچانے اور علاج
کی بنیادی سہولیات دینے کو نظر انداز کر رہے ہیں۔آئے روزمرنے والے بچوں کی
تعداد کے اعدادوشمار پر سیاست کی جارہی ہے ۔ہمارے بعض نام نہاد مسیحاء
تھرپارکر کے ریگستانوں میں دور افتادہ جگہوں پر جانے کے لیئے تیار نہیں ہم
اس قدر بے حس ہو چکے ہیں کہ انسانیت پر بھی ہمار ا دوہرا معیا ر بن چکا ہے
۔آج نا م نہا د ترقی اور جمہوریت نواز دور میں انسانیت بلک بلک کر دم توڑ
رہی ہے اور ہم خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔بقو ل شاعر
غریب شہر تو فاقوں سے مر گیا عارف
امیر شہر نے تو ہیرے سے خود کشی کر لی |