یہی سچ ہے

آپ اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں آپ کو ہر طرف زہر اگلتی زبان،پُرتشدد گفتگو،چیختی آوازیں،کھا جانے والی نظریں،غصہ نفرت،حسد،بغض،جھوٹ فراڈ،دھوکے بازی،منافقت،مصنوئی طرز زندگی،اور انتہائی بے ہودہ گفتگو سننے کو ملے گی ۔ہمارا یہ رویہ ثابت کرتا ہے کہ ہم کس قدرکھوکھلے پن کا شکارزوال یافتہ،بے راہ روی اور تباہی کی دہلیز پر کھڑے معاشرے میں جی رہے ہیں جہاں آ پ مثبت اور مضبوط دلائل سے بات نہیں سکتے ہیں اور نہ ہی حق اور سچ کی رہ پر چل کر اپنا حق لے سکتے ہیں اگر آپ اپنے معاشرے کی اصل تصویر دیکھنا چاہتے ہیں تو آپکو دو تین کام کرنا پڑیں گئے مثلاً فرض کریں آپ کل سے لوگوں کی زمینوں پر قبضہ کرنا شروع کر دیں،دن دہاڑے لوگوں کو ڈرانا دھمکانا شروع کر دیں،شراب اور منشیات کی سپلائی اور فرخت کرنا شروع کر دیں،آپ چوری کی گاڑیوں کا کاروبار شروع کر دیں آپ،دودھ میں پانی ملا کر بیچنا شروع کر دیں،آپ ہر اس چیز کو زخیرہ کرنا شروع کر دیں جو آنے والے دنوں میں زیادہ بکنے والی ہے آپ دن کی روشنی میں جنگل سے درخت کاٹنے اور بیچنے شروع کر دیں،آپ ایک سڑک پر رسی لگائیں اور گدھوں اور خچروں کے گزرنے پر ٹیکس وصول کر ناشروع کر دیں،آپ بیچ بازار میں منشیات اور جوئے کا اڈہ کھول لیں،آپ گوشت کی دوکان کھولیں اور گوشت کا وزن بڑھانے کے لیے اس میں پریشر کے ساتھ پانی بھریں اور خوب منافع کمانا شروع کر دیں، آپ مردہ مرغیوں کو اکٹھا کر یں ہوٹلوں پر بیچ دیں، آپ دو لوگوں کو آپس میں لڑانا جانتے ہوں تو آپ کے وارے نیارے ہیں آپ یہ کام بھی شروع کر لیں یقین مانیں لوگ آپ کو معتبر بھی سمجھیں گے عزت بھی کریں گئے علاقے کی پولیس اور انتظامیہ آ پ کو سلیوٹ بھی کرے گی زمینوں پر قبضے بھی پکے کروائے گی ۔مقامی سیاسی غنڈے آپ کے تابع ہو جائیں گئے آپ کو ہر جگہ اہمیت دی جائے گی آپ کا ہر سرکاری اور غیر سرکار کام منٹوں میں ہو جائے گا چاہئے آپ دفتر جائیں یا نہ جائیں کام مکمل ہو کر فائل آپ کے گھر پہنچ جائے گی، تھانیدار آپکی فون کال اور ایک رقعے پر ملزم کو چھوڑ دے گا،آپ ایک فون کال کریں گئے جج اپنا فیصلہ بدلنے پر مجبور ہو جائے گا۔مثلاً اگر آپ کل ایک اچھے کام کی شروعات کر کے دیکھ لیں آپ کوئی سوشل کام شروع کر دیں ،کوئی ایمبولینس سروس مفت میں دینا شروع کر دیں،آپ اپنی پوری زندگی کی جمع پونجی سے ایک ایسا سکو ل کھول لیں جہاں تمام بچوں کے لیے تعلیم مفت ہو،آپ دور دارز سے سکول کالج آنے والے طلباء و طالبات کے لیے مفت بس سروس کا انتظام کر دیں، آپ بازار میں واٹر کولر لگا دیں جہاں سے سب لوگ تپتی گرمی میں ٹھنڈا پانی پئیں،آپ محلے میں مفت ٹینکی بنا کر پانی پہنچا دیں،آپ اگر پڑھے لکھے ہیں،ایماندار سکول ٹیچر ہیں تو شام کے ٹائم محلے کے سارے بچوں کو مفت میں ٹیوشن پڑھانا شروع کر دیں، آپ دوستوں اور جاننے والوں سے چندہ جمع کر کے گاؤں کے غریب لوگوں کی بچیوں کی شادیوں میں جہیز اور کھانے کا بندوبست کر دیں،آپ مدرسے کے بچوں کے لیے مفت کپڑے اور کھانے کا بندوبست کر دیں،آپ ہر سکول کے یتیم اور غریب بچوں میں کتابیں کاپیاں اور بستے مفت بانٹ دیں،آپ مساجد میں جائے نمازوں اور ٹوپیوں کا بندو بست کرنا شروع کر دیں یقین مانیں پورا معاشرہ آپ کو ناکام بنانے پر کمر بستہ ہو جائے گا آپ جہاں جائیں گئے آپ کو ٹھڈے پڑیں گئے،آپ کا ہر جائز کام رک جائے گا،چور آپ کے گھر کا سامان لے اُڑے گا لیکن پرچہ آپ کے خلاف کٹے گا،محلے کے پانی کا پائپ کوئی توڑے گا تو لوگ گا لیاں آپ کو دیں گئے،پولیس اور کسٹم والے آپ کے پیچھے لگ جائیں گئے کہ مفت ایمبولنس،یا مفت بس،یا مفت سکول کیسے کھول لیا پیسے کہاں سے آئے کون فنڈنگ کر رہا ہے ٹیکس کتنا دے رہے ہو جیسے سوالات کا سامنا کرنا پڑے گاآپ کو صبح شام تھانے کچہری،کسٹم آفس اور عدالت کے چکر کاٹنے پڑیں گئے۔ہر کوئی آپ کو شک کی نظروں سے دیکھے گا،ہر جگہ آپ زیر بحث ہونگے کہ پتہ نہیں کیا مفاد ہے کہ یہ اتنا کچھ مفت میں کر رہا ہے کیوں ؟ کیونکہ ہم ایک بے حس مردہ بدبو دار اور سڑے ہوئے معاشرے میں رہنے والے لوگ ہیں جہاں محبت بانٹنی ہو،پیاربانٹنا ہو،مساوات اور بھائی چارے کو پھیلانا ہوتو یہ سب کچھ چھپ کرکر نا پڑتا ہے جبکہ نفرت عداوات دشمنی ،تذلیل ،جھوٹ فراڈ،منافقت،دھوکے بازی ،ملاوٹ ،سرے عام کی جاتی ہے جہاں جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ میں بدلنے کے لیے بھی باقاعدہ ڈگری ملتی ہے اور پھر اسکی پریکٹس اور اوپر سے پکا لائسنس بھی ملتا ہے تا کہ آپ چور کو چوکیدار،قاتل کو مقتول،ظالم کو مظلوم، کرگس کو شاہین ،چوہے کو بلی ،شیر کو گیدڑ،خوک کو فیل اور کوئے کو مور ثابت کر سکیں۔دوسری طرف اگر آپ ذہین ہیں آپ تین چار کاموں میں عبور حاصل کر لیتے ہیں،آپ اپنی قابلیت کے بل بوتے پر پانچ سات ہنر سیکھ لیتے ہیں،آپ انفارمیشن ٹیکنالوجی،سیاست،صحافت،معشیت کے شعبوں میں اپنی کامیابی حاصل کر لیتے ہیں اور ان شعبوں میں اپنی علمی اور فکری جہتوں سے تبدیلی اور نکھار پیدا کرنے کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں اور آ پ کر بھی سکتے ہیں،اگر آپ سرکاری ملازم ہیں آپ دیانتداری ،ایمانداری سے کام کرتے ہیں آپ فرض شناس ہیں،آپ رشوت نہیں کھاتے ،اور اگر بد قسمتی سے آپ غریب بھی ہیں ،آپ کمزور ہیں ،آپ بے سہارا ہیں،آپ کی کوئی سفارش نہیں ہے،مقامی سیاسی غنڈے آپ کے رشتے دار نہیں،آپ کسی بڑے باپ کی اولاد نہیں توہمارے اس معاشرے میں آپکی کوئی جگہ نہیں اس معاشرے میں آپکا مقام ایک جھوٹے،فراڈی،دھوکے باز،شاطر،بدنیت،بیوقوف،کم عقل ،آباؤ اجداد کی روایات کاباغی یا پھرپڑھالکھا جاہل کے نام سے ہو گا۔آپ کو ہر جگہ دشواری کا سامنا کرنا پڑے گا۔پٹواری سے لیکر تھانیدار تک،تحصیلدار ہے لیکر کمشنر تک،پولیس کے سپاہی سے لیکر گاؤں کے وڈیرے تک ،آپ ہر ایک کے عتاب کا شکار ہوں گئے ہر جگہ آپ کو ٹھڈے پڑیں گئے جعلی پرچے کٹیں گئے ،وکیل آپکا کیس تک نہیں لیں گئے،پبلک سروس کی گاڑی سے آ پ کو ذلیل اور رسوا کر کے نیچے اتارا جائے گا،آپ کی زمین پر قبضہ ہو جائے گا اور پڑوسی کی مدعیت میں پرچہ بھی آپ ہی کے خلاف کٹے گا،لیکن اگر آپ ان تمام شعبوں کی الف ب بھی نہیں جانتے آپ سنی سنائی رٹی رٹائی چند کہانیوں اور مفروضوں تک محدود ہیں،آپ جتنے بڑے ظالم ،جتنے بڑے ، نوسرباز،جنتے بڑے غاصب ،جتنے بڑے کرپٹ،جتنے زیادہ نکمے ،جتنے بڑے نا اہل اور کام چور ہیں توآپکو اتنا ہی بڑا عہدہ،اتنی ہی زیادہ تکریم ملے گی آپ کے لیے ہر جگہ شادیانے بجیں گئے،ہر محفل میں آپ کے لیے خصوصی نشست ہوگی،گاؤں کے سکول کا فنگشن ہو یا انتظامیہ کی کھلی کچہری،کہیں انصاف کے نام پر ناانصافی کے تقاضے پورے کرنے ہوں یا کسی سوشل کام کی میٹنگ آپ ہر جگہ مہمان خصوصی ہونگے، محلے کی مسجد کا امام تک (اگر آپکا ہم مسلک ہو) جمعہ کے خطبے میں آپ کا نام لیکر آپ کے قصیدے پڑھے گا۔یہی ہمارا اصل معاشرتی رویہ ہے جسے ہم اپنے اباؤ اجداد کی روایات کے ساتھ جوڑ کر بڑے فخر سے اپنے بچوں کو کہانیاں سناتے ہیں اور جھوٹ پر مبنی ایسی تاریخ بتاتے ہیں جس کے کہیں سر پاؤں ہی نہیں۔نا انصافی،شخصیت پرستی،برادریوں ،قبیلوں کی تقسیم اناؤں کے تصادم خودغرضی اور رسوائی میں ڈوبا یہ معاشرہ اپنی روایات کی آخری ہچکیاں لے رہا ہے اور ہم ہر روزآسمان سے پاتال کی جانب گرتے چلے جا رہے ہیں مگر کوئی اس بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں کہ ہمارا اپنا معاشرتی رویہ ہی ہماری ناکامیوں، ہمارے دکھوں،ہمارے کرب،ہماری بربادی اور ہمارے زوال کی بنیاد ہے ۔ہم حکمرانوں اور سیاست دانوں کو کوستے اور برا بھلا کہتے ہیں لیکن اس تباہی میں معاشرے کا ہر شخص شامل ہے ایک دیہاڑی دار مزدور سے لیکر صنعتکار تک،مزارے سے لیکر زمیندار تک،سرکاری اداروں کے چپڑاسی سے لیکر ڈائریکٹر تک،دوکاندار سے لیکر خریدار تک،ایک عام آدمی سے لیکر ملک کے وزیر اعظم اور صدر تک ہر شخص کا ایک ہی طے شدہ منصوبہ ہے کہ کس طرح کرپشن کرنی ہے کس طرح دوسروں کوبیوقوف بنانا ہے کس طرح ریاست وسائل کو لوٹناہے ہر شخص ایک دوسرے پر بازی لے جانے میں جُتا ہوا ہے۔ہم معاشرتی بدنظمی کا شکار لوگ ہیں جہاں برادری ازم ،تعصب پرستی،علاقائی ازم،کرپشن،جھوٹ،سفارشی کلچراب ہمارے معاشرے کی وہ روحانی عبادت بن چُکا ہے جو ہماری رگوں میں خون کی طرح گردش کرتی ہوئی آگے بڑھ رہی ہے اور اب مستقبل میں ہماری آنے والی نسلوں کے خیالات اور افکا رمیں ظاہر ہوتی رہے گی۔یہ ہمارے معاشرتی اخلاق کی اصل تصویر ہے اور یہ تصویر ثابت کرتی ہے کہ ہم سماجی اور ذہنی لحاظ سے کس قدر زوال یافتہ ہیں یہ ایسے تلخ حقائق ہیں کہ ان حقائق سے منہ موڑ کر ہم معاشرے کو درست سمت نہیں لے جا سکتے ۔میرے ایک دوست کا کہنا ہے کہ جس معاشرے میں ایمانداری ،دیانتداری،بھائی چارے،مساوات کا دوسرا نام بیوقوفی ہو تو اُس معاشرے میں ایسی چیزوں سے تھوڑا دور رہنا چاہئے۔اور ہمارا پورا معاشرہ پوری ریاست ماشااﷲ ان باتوں سے دور رہتے ہیں۔ما ل و زر کی ہوس نے ہمیں مردہ ضمیر بنا دیا ہے اور ہم زندہ رہ کر بھی مرُدوں جیسی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔یہ میرا ذاتی خیال ہے یہ سو فیصد غلط بھی ہو سکتا ہے لیکن اگر ہمارے معاشرے کو بلندی سے کھڑے ہو کر دیکھا جائے تو یہی سچ۔
Asif Rathore
About the Author: Asif Rathore Read More Articles by Asif Rathore: 14 Articles with 11488 views writer . columnist
Chief Editor Daily Haveli News web news paper
.. View More