دل کی کسک
(Chaudhry Muhammad Rashid, Jeddah)
بعض اوقات بندہ بہت زیادہ محترم
لوگوں کے ساتھ ایسی حرکت کر جاتا ہے کہ دل میں کسک ساری زندگی کے لیے رہ
جاتی ہے- یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں پڑھائی کے بہانےلاہور میں ملازمت کر
رہا تھا- کمپنی آفس لاہور سے ۲۰ کلو میٹر دور تھا- جس دن اخبار نہ آتا
تواٹھارہ سال پرانی عادت مجھے کومسیٹس یونیورسٹی سے لاہور ٹھوکر نیاز بیگ
اخبار پڑھنے لے جاتی- مہینے کی دو تاریخ تھی تنخواہ ملی تومیں نے ایک حرام
زادے کے سامنے ساری تنخواہ بیگ میں رکھ دی- آفس سے کمرے میں پہنچا تو پتا
چلا کہ وہ چور ساری تنخواہ لے گیا- اوپر سے اخبار کا ناغہ، میں غصے میں
بھرا بس پکڑ کر خالی جیب اخبار تک پہنچا ابھی بیٹھ بھی نہ پایا تھا کہ میرا
ایک استاد کالج کے دور کا آپہنچا- وہی بےتکلف لہجہ اور انداز- اشدددد کی
آواز آئی تو سامنے وہ ذہین و فتین استاد محترم کو کھڑے پایا- اب میں پریشان
ہو گیا کہ کیا کروں- کمالیہ سے لاہور تک کا سفر کر کے آئے استاد کو بغیر
کھلائے پلائے، بغیر مہمان نوازی کے جانے دوں یا پورے دن کا حال سنا کر
معذرت کر لوں- اسی شش وپنج میں میں اخبار کو گھور رہا تھا کہ محترم مہمان
کو بیٹھنے کا بھی نہ کہہ سکا- پھر کیا وہ تھوڑی دیر کھڑے دیکھتے رہے پھر
خود ہی پاس بیٹھ کر بات کرنے لگے- اب میں دو دو چار لفظوں میں بات کر رہا
تھا- دل میں دھڑکا اپنی بے بسی کا تھا- وہ اٹھے اور سلام لے کر چلے گئے- اس
واقعہ کے بعد پھر کبھی میں اس ہستی کا سامنا نہیں کر پایا- وہ دن اور آج کا
دن جب بھی میں اپنے کسی سکول، کالج، یونیورسٹی کے استاد و معلم کو دیکھتا
ہوں تو فورا اس ہستی کا چہرہ میرے سامنے آجاتا ہے- برسوں سے میں کسی استاد
یا پروفیسر کا سامنا نہیں کر پایا- اللہ غارت کرے اس چور کو جس نے مجھ سے
میری ساری زندگی کے درجنوں محسن چھین لیے- آج ابھی وہ کسک پھر تاذہ ہوئی جب
میں نے اس ہستی کا نام کہیں پڑھا- اللہ دلوں کا حال جاننے والا ہے- |
|