انسانی چڑیا گھر اور مسلم امہ
(Prof Liaquat Ali Mughal, Kehroor Pakka)
چڑیا گھر تو آپ نے ضرور دیکھا
ہوگا جس میں پنجروں ،دڑبوں اور جنگلوں میں درند،چرند اور پرند وغیرہ اور
دوسری زمینی و آبی حیات کو رکھا جاتاہے جس کا مقصد لوگوں بالخصوص بچوں کو
معلوماتی تفریح فراہم کرنا ہے۔زیر آب سمندر کی تہوں میں خدا وند کریم نے
سینکڑوں انواع و اقسام کو پیدا کرکے ان کی پرورش کی ہے جن میں سے اکثر کے
بارے میں دنیا لاعلم ہے وہ بھی ایک سمندری چڑیا گھر ہے جس میں صرف آبی
حیاتی ہی اپنے اپنے مداروں میں مقید ہے ۔ایک چڑیا گھر آسمانوں کی وسعتوں
میں خلا میں بھی موجود ہے جو کہ زمین کے مدار میں اپنے مخصوص انداز میں محو
گردش ہے لیکن اس میں زمینی چڑیا گھروں کی مانندقسم قسم کے جانوروں موجود
نہیں ہیں بلکہ اس چڑیا گھر میں خوردبینی حیات، بیکٹیریا فنجائی اور
آرتھوپوڈز کی کم و بیش 50 اقسام کو رکھا۔یہ آہنی بکس (خلائی چڑیا گھر)بین
الاقوامی خلائی سٹیشن کے ساتھ کرہ ارض سے 340 کلومیٹر کے فاصلے پر منسلک
ہے۔یہ عارضی چڑیا گھرایک تحقیقی منصوبے کا حصہ ہے جس میں خوردبینی جانداروں
کو مختلف درجہ حرارت سے گزار کر ان کی زندگی کے بارے میں جانکاری حاصل کرنا
ہے۔
اب آتے ہیں انسانی چڑیا گھر کی طرف۔جی ہاں دنیا میں ایک انسانی چڑیا گھر
بھی ہے اور یہ دنیا کا سب سے بڑا انسانی چڑیا گھر ہے جس میں انسانوں
بالخصوص ہم سب مسلمانوں کو جانوروں کی طرح رکھا گیا ہے انسانوں کو ایک
پنجرے میں مقید کردیا گیا ہے ہمیں باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہم سب الحمداﷲ
مسلمان ہیں اور شایدانسان بھی ہیں ۔لوگ باہر سے آکر ہمیں دیکھتے ہیں حیرت و
استعجاب کامظاہرہ کرتے ہیں اور اکثر لطف اندوز بھی ہوتے ہیں ۔ آزادی کے وقت
سے لیکر آج تک 3 کلومیٹر کی حدود میں ہمیں رکھا گیا ہے دونوں جانب انکلیو
ہے جہاں پر ہم تقریبا 65 سالوں سے پانی بجلی اور صحت جیسی بنیادی سہولیات
سے محروم زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ہماری شناخت ختم ہوچکی ہے۔ یہ علاقہ
ریاست مغربی بنگال کے کچھ گاؤں پر مشتمل ہے جن کو ابھی تک نہ تو شہریت مل
سکی ہے اور نہ کسی نے ان سے الحاق کرنے کی کوشش کی۔1947 میں تقسیم ہندکے
وقت بنگال کی تقسیم ہی کچھ اس طرح ہوئی کہ سو سے زیادہ گاؤں کسی بھی ملک کا
حصہ نہ بن سکے۔یہ گاؤں اسی نسبت سے سیت محل یا انکلیو کہلاتے ہیں۔ یہ
ہندوستان اور بنگلہ دیش کی سرحد پر واقع ہیں اور اسے صرف انکلیوکہا جاتا ہے
یہ باتیں ایجنسیز کو دھوبال گڑھی کے جمشید علی نے بتائیں اسی طرح ابو الحسن
مشعل ڈنگا گاؤں کا رہائشی ہے نے بتایا کہ یہاں نہ روڈ ہے نہ راستہ۔ بنیادی
مرکز صحت اور تعلیم تو دور کی بات ہے یہاں پر پینے کو صاف پانی تک میسر
نہیں ہے اور اگر کسی مصیبت یاایمرجنسی سے واسطہ پڑ جائے تو کسی مدد کی کوئی
امید نہیں ہوتی انسانی حقوق کی علمبردار دیپتی مان سین گپتا جو کہ سال ہا
سال سے ان بے شناخت اور احساس محرومی کا شکار مسلم باشندوں کیلے کام کررہی
ہیں کہتی ہیں کہ ان تمام مسلمانوں کی زندگی انتہائی غربت میں گزرتی ہے اور
بعض اوقات تو صورت حال غیرانسانی و غیر اخلاقی ہوجاتی ہے کہ بیان سے باہر
ہے لیکن ان کی طرف توجہ کرنے اور مسائل حل کرنے کی کبھی کسی نے کوشش نہیں
کی۔
یہی صورت حال انڈیاکی جیلوں میں بے گناہ قید مسلمانوں کی ہے کہ جنہیں
مقدمات چلائے بغیر ان پر جرم ثابت کئے بغیرمختلف جیلوں میں قید کیا گیا
ہے10 ہزار کے قریب ان لوگوں میں اکثریت مسلمانوں کی ہے جن کو جرم بتائے
بغیر چارج لگائے بغیر عرصہ دراز سے گجرات ممبئی دہلی آندھرا پردیش جئے پور
کوچی بنگلور گوہاٹی و دیگر جیلوں میں قید کردیا گیا ہے کوئی ان کا پرسان
حال نہیں ان قیدیوں کی اکثریت اعلی تعلیم یافتہ نوجوانوں پر مشتمل ہے جن
میں ڈاکٹرز انجینئرز چارٹرڈ اکاؤنٹنس کمپیوٹر پروگرامر اور دیگر پیشہ
رورانہ تعلیم کے فارغ التحصیل شامل ہیں ۔ مختلف فورمز پر متعدد یار اس
مسئلے کو پوائنٹ آوٹ کیا گیا لیکن ہر بار تعصب کی تلوار اس کو کاٹی ہوئی
نکل گئی۔ ان میں کچھ ایسے لوگ بھی شامل ہیں جن کے خلاف کوئی بھی ثبوت نہ مل
سکے اس کے باوجود قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں ۔ گذشتہ دنوں آل
انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا اجلاس بھی ہوا جس میں بے قصور حراست میں رکھے
گئے مسلمانوں کی رہائی سے متعلق بحت کی گئی اور کہا گیا کہ بے قصور محروسین
کو یا تو رہا کردیا جائے یا پھر ان پر جرم ثابت کرنے کیلئے مقدمات چلائے
جائیں ۔ مگر پروگریس زیرو ہے چونکہ معاملہ مسلمانوں کا ہے۔
امریکہ میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو جس طرح سے پابند سلاسل کیا گیا ۔ اس کو
مختلف انداز میں ٹارچر کیا گیا اوور گذشتہ دنوں پھر سے حملہ کرکے زخمی کرنے
کی جو مکروہ اور گھناؤنی حرکت کی گئی اور پھر دو دن بعد اسے باامر مجبوری
وکیل کی مداخلت پر ٹریٹمنٹ دی گئی یہ سب معاملات امریکہ بہادر کی انسانی
حقوق سے محبت اور لگاؤ کا پول کھولنے اور مسلمانوں سے نفرت کے اظہار کا منہ
بولتا اور واضح ثبوت ہے۔لیکن ہمارے بے حس ایوانوں سے کوئی آواز نہیں اٹھی
کہ ایوانوں میں گونگے اور بہروں کاراج ہے
برما میں مسلمانوں کی نسل کشی کیجارہی ہے گاؤں کے گاؤں نذر آتش کرکے
مسلمانوں زندہ جلایا جارہا ہے لیکن کہیں پر کوئی انسانی حقوق کے علمبردار
اپنی آواز اونچی کرنے اور اپنا علم بلندکرتے دکھائی نہیں پڑتے۔فلسطین
بوسینیا شام عراق و دیگر میں مسلمانوں کو اسلام کے پیروکار ہونے کی سزا دی
جارہی ہے اسی طرح بنگلہ دیش میں حسینہ واجدکی چیرہ دستیاں بھی واضح طورمسلم
کش بالخصوص پاکستانی لورز کش ہیں اس پر بھی بے حسی طاری ہے۔
حل طلب بات یہ ہے کہ اوپر بیان کردہ ممالک اور علاقوں میں صرف اور صرف
مسلمانوں کو ہی اذیت ظلم و بربریت تشدد و انتہا پسندی کا نشانہ کیوں بنایا
جارا ہے توبات سیدھی سی ہے کہ آج کا مسلمان اتحاد ویگانگت ،اخلاص
واخلاق،محبت و بھائی چارہ ، جذبات و احساسات سے عاری ہو چکا ہے مسلمان ایک
جسم کی مانند ہیں کی مثال پر عمل کرنا خواب معلوم ہوتا ہے۔ غیروں کی ریشہ
دوانیوں کومہربانیاں جان کر ان کے دام پھنس چکا ہے۔ اپنے ہی مسلمان بھائیوں
پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑ رہا ہے اﷲ کی رسی کو چھوڑ کر غیر کی رسی کو تھام
رہا ہے تو ذلت و رسوائی نے تو اس کامقد ر بننا ہی ہے۔
دوسری طرف غیر مسلم مسلمانوں کے خلاف متحد ہوکر برسرپیکار ہے۔ کہیں پر کسی
ایک یہودی عیسائی ہندو بدھ یا کسی بھی غیرمسلم کو کوئی تکلیف ہوتی ہے تو
غیر ملکی تنظیموں میڈیا اور حکمران تک چیخ پڑتے ہیں اور اس کے مدوا اور
ازالے کیلئے زمین آسمان ایک کردیتے ہیں اور ہم مسلمان بھی ان کی ہاں میں
ہاں ملانا اپنا فرض اولین سمجھتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر مسلمانوں کو سینکڑوں
کی تعداد میں زندہ جلادیا جائے ان کی شناخت کو مٹادیاجائے بیگناہ قید میں
ڈال دیئے جائیں ڈرون کی مدد سے ما ردیا جائے تو ہمارے حکمرانوں کی زبانیں
گنگ ہوجاتی ہیں ان کی آواز تک نہیں نکلتی کہ انہیں اﷲ کا نہیں کسی اور کاڈر
مارے جاتا ہے۔ لہذا ایسا طرز عمل چھوڑ کر تما م مسلم امہ بالخصوص پاکستان
اور اس کے حامی ممالک اسلامی تنظیموں کو اپنا کردار فعال ہوکر مثبت انداز
میں ادا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ دنیا کو یہ باور کرایا جائے کہ ہم مسلمان
امن پسند قوم ہیں تو اس کا مطلب ہرگز ہرگز یہ نہ لیا جائے کہ ہ کمزور ہیں
ہم تو وہ ہیں کہ جب اپنی پر آتے ہیں تو اپنے سے دس گنا کو خاک چاٹنے پر
مجبور کردیتے ہیں۔ پس اب آنکھیں دکھانے کی ضرورت ہے نہ کہ آنکھیں چرانے کی۔
ایسا نہ ہو کہ وقت گزر جائے اور سوائے لکیر پیٹنے کے کچھ حاصل نہ ہو۔ |
|