وقتی ضرورت یا مسلئے کا حل
(Shaikh Khalid Zahid, Karachi)
ہم نئے سال میں داخل ہوگئے ۔۔۔خوف
، دہشت ، بے روزگاری ، ناانصافی ، بھوک اور نا معلوم افراد ہمارے ساتھ نئے
سال میں ہمارے ساتھ آگئے ہیں۔۔۔ہم ان سے پیچھا چھڑوا ہی نہیں رہے۔۔۔ سردیوں
کا موسم کچھ اداس سا ہوتا ہے۔۔۔اورکچھ خشکی اس اداسی میں اضافہ کردیتی ہے۔۔۔
راتیں تاریک تو ہوتی ہی ہیں ان دنوں میں طویل بھی ہوجاتی ہیں۔۔۔ناجانے کیوں
اتنی طویل راتوں کہ باوجود سارا دن آنکھیں اور وجود بوجھل سا رہتا ہے ۔۔۔بوجھ
سا لگتا ہے۔۔۔
دہشت گردی یا دہشت گردوں سے کوئی جگہ محفوظ نہیں ہے۔۔۔مسجد، مندر ، کلیساء
ان سے محفوظ نہیں۔۔۔بازار ، تفریح گاہیں، دفتری اور شاپنگ مراکز ان سے
محفوظ نہیں تھے۔۔۔اب رہی سہی کثر تعلیمی اداروں پر انتہائی سفاکی سے قتلِ
عام کر کہ انہیں بھی غیر محفوظ بنا دیا۔۔۔جب ہمارے ملک کا سب اہم اور منظم
ادارے کا ہیڈ کوارٹر محفوظ نہیں انکیتعلیمی ادارے محفوظ نہیں ۔۔۔تو شہری
انتظامیہ (Civil Administration) عام افراد کی یا اسکول کالجوں کی حفاظت کو
کیسے یقینی بنا سکتی ہے۔۔۔تازہ ترین اندوہناک واقعہ لیجئے۔۔۔ حفاظت فراہم
کرنے والے ادارے آرمی پبلک اسکول پشاورمیں دہشت گردوں کی کاروائی ۔۔۔یہ
ایسا دل دوز واقعہ تھا جس پر ہر آنکھ اشک بار تھی۔۔۔بزدل اور کائر دہشت
گردوں نے نہتے اور معصوم نونہالوں کو اپنی درندگی کا نشانہ بنایا۔۔۔جسکی
وجہ سے ملک میں اسکولوں کالجوں دیگر تعلیمی اداروں کے حفاظتی نظام کو موثر
بنانے پر زور دیا جانے لگا۔۔۔ تقریباً پورے پاکستان کہ اسکولوں کی موسمِ
سرما کی تعطیلات بڑھا دی گئیں۔۔۔جس کی وجہ اسکولوں میں حفاظتی نظام کو
مستحکم بنانا ہے۔۔۔دہشت گردوں کا بنیادی مقصد ہمیں ڈرا دھمکا کہ گھروں میں
قید کردینا ہے۔۔۔ہم قید ہوئے جارہے ہیں۔۔۔
ہمیں ہمیشہ اس بات کا دکھ رہتا ہے کہ ہمارے حکمران حادثوں اور سانحوں کہ
بعد کیوں جاگتے ہیں۔۔۔کیوں ہمیں ایک قوم بننے کیلئے زلزلے سیلاب درکار ہوتے
ہیں۔۔۔آخر کب تک دشمن ہمبٹے ہوئے عوام کو، تقسیم شدہ لوگوں کو یوں اپنی
درندگی اور عزائم کیلئے استعمال کرتا رہے گا۔۔۔آج بھی ہم انہی باتوں میں
الجھے ہوئے ہیں کہ کس کہ ساتھ کیا کرنا ہے اور کس کہ ساتھ کیا کرنا ہے۔۔۔
صوبوں کو خودمختار کیا جائے۔۔۔بلدیاتی نظام جلد سے جلد عوامی خواہشوں کہ
مطابق مرتب دیا جائے۔۔۔ضلعی انتظامیہ کو فعل بنایا جائے۔۔۔علاقائی اور
محلوں کی سطح پر کمیٹیاں بنائی جائیں۔۔۔بزرگوں کو اہم ذمہ داریاں دی جائیں
جو نوجوانوں کی بھر پور رہنمائی کر سکیں۔۔۔بھر پور اور فعل حفاظتی کمیٹیاں
بنائی جائیں جو پولیس اور انتظامیہ سے مل کر علاقے کی صورتحال پر کڑی نظر
رکھیں۔۔۔مساجداور دیگر مذہبی عبادتگاہوں میں کام کرنے والی کمیٹیوں کو فعل
بنایا جائے ۔۔۔علاقے کی اخلاقی نشونما میں عبادگاہوں پر مشتمل کمیٹیاں
بنائی جائیں ۔۔۔کھیلوں کے مقابلے ضلعی سطح پر منعقد کئے جائیں۔۔۔یونین
کونسلزمیں اولین ترجیح پر لائبریری بنائی جائے۔۔۔علمی و ادبی کمیٹیاں بنائی
جائیں اور باقاعدہ پرگرام مرتب دئے جائیں۔۔۔اسکول پولیس اور میونسپل ادارے
ضلعی انتظامیہ کہ ماتحت ہوں۔۔۔ہر سطح پر ضابطہ اخلاق واضح کیا جائے اور اس
پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔۔۔ہر کمیٹی میں نمایاں کام سرانجام دینے
والوں کی پذیرائی کی جائے جس کی بدولت دوسروں میں اور محنت ، لگن اور خوش
اسلوبی سے کام کرنے کا جذبہ بیدار ہو۔۔۔ان تمام سرگرمیوں کی بدولت لوگوں
میں محبت و ہم آہنگی بڑھے گی۔۔۔لوگ ایک دوسرے کہ قریب آئیں گے۔۔۔ان عوامل
کی بدولت دہشت گردوں تو کیا چوروں اور ڈاکؤں کو بھی کہیں رہنے اور چھپنے کی
کوئی جگہ نہیں ملے گی۔۔۔
ہماری حکومتوں نے کبھی بھی بنیادی کاموں پر توجہ نہیں دی۔۔۔ہمیشہ بڑی بڑی
باتوں میں عوام کو الجھائے رکھا اور خود بھی الجھے رہے۔۔۔ابھی بھی وقت ہے
عوامی مسائل حل کرنے پر پوری توانائی صرف کیجئے۔۔۔پھر آپ کو تبدیلی آتی نظر
آجائے گی۔۔۔عوامی کو آپ سے کچھ نہیں چاہئے آپ صرف ان کے مسائل سننے کا وقت
نکالئے۔۔۔آپ عوام میں آجائیں یہ دہشت گرد خود ڈر کہ بھاگ جائینگے۔۔۔یہ دہشت
گرد ڈرپوک لوگ ہیں۔۔۔آپ ہمت کیجئے اور بلنگ و بانگ دعوں کے بجائے عملی کام
کروائیے۔۔۔
پھر عوام ان جسے دہشت گردوں سے خود ہی نمٹ لیگی۔۔۔مگر آ پ انہیں ڈھنگ سے
جینے تو دیں۔۔۔لوگ نئے سال کی آمد پر نہیں پر ہر روز خوشیاں منائینگے ۔۔۔ |
|