اگر کوئی محمد ﷺ سے جلتا ہے ۔۔۔۔۔۔

بدھ کو پیرس سے شائع ہونے والے مزاحیہ سیاسی جریدے "چالی ہیبدو" کے دفتر پر حملہ ہوا ۔ جس میں 10 صحافیوں اور دو پولیس اہلکاروں سمیت 12 یا 14 افراد ہلاک ہوئے ۔ جب کہ 10 افراد زخمی ہوگئے ۔ ہلاک شدگان میں چیف ایڈیٹر اسٹیفن کاربونئیر سمیت تین کارٹونسٹ بھی شامل ہیں ۔ تفصیلات کے مطابق تین مسلح افراد صبح گیارہ یا ساڑھے گیارہ بجے کے قریب میگزین کے دفتر میں داخل ہوئے اور اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی ۔ سکیورٹی گارڈز کی جوابی فائرنگ پر وہ ایک کار چھین کر بھاگنے لگے تو ایک راہگیر کچلا گیا ۔ حملہ آوروں اور پولیس کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا ۔ تاہم وہ فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے ۔ اس طرح وہ سکیورٹی گارڈز کے ساتھ ساتھ پولیس کو بھی چکمہ دینے میں کام یاب ہوگئے ۔ پولیس کے مطابق عینی شاہدین نے بتایا کہ حملہ آور راکٹ لانچر اور کلاشنکوف سے لیس تھے ۔ ان کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا : ہم نے پیغمبر ِ اسلام کی شان میں گستاخی کا بدلہ لے لیا ۔ یہ اللہ اکبر کے نعرے بھی لگا رہے تھے ۔ جائے وقوعہ پر موجود لوگوں کا کہنا تھا کہ انھوں نے نہایت اطمینا ن سے کا راوئی کی ۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ عام لوگ نہیں ، بلکہ تربیت یافتہ لوگ تھے ۔ "چالی ہیبڈو " کے دفتر پرہونے والا یہ حملہ فرانس میں گذشتہ چار دہائیوں میں ہونے والا سب سے بڑا حملہ تھا ۔

فرانسیسی صدر فرانسوا اولاند حملے کے بعد فورا جائے وقوعہ پر پہنچے اور حملے کو سفاکانہ کا ر روائی قرار دیا ۔ امریکی صدر باراک اوباما ، برطانوی وزیر ِ اعظم ڈیوڈ کیمرون ، جرمن چانسلر انجیلا مرکل ، روسی صدر ولادیمر پیوٹن ، اقوام ِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون ، اقوام ِ متحدہ کی سلامتی کونسل ، یورپی یونین اور یہاں تک کہ عرب لیگ ، مصر کی جامعہ الازہر ، فرانسیسی مسلم کونسل ، ترکی ، پاکستان اور دیگر نے بھی اس واقعے کی مذمت کی ہے ۔ سب نے اپنے اپنے الفاظ میں اظہار ِ افسوس کیا ۔ ترکی نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ انقرہ ہر قسم کی دہشت گردی کی مذمت کرتا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ اس بات پر بھی زور دیا کہ یورپی یونین اسلام مخالفین کے خلاف بھی کا رروائی کرے ۔ جب کہ پاکستان کی دفتر ِ خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے اپنی ہفتہ وار میڈیا بریفنگ میں کہا کہ پیرس میں میگزین کے دفتر پر ہونے والے حملے کی مذمت کرتے ہیں ۔ لیکن توہین ِ رسالت پر پاکستان کا موقف بہت واضح ہے ۔ ہمیں ایک دوسرے کے مذاہب اور عقائد کا احترام کرنا چاہیے ۔

یہ ابتدائی اطلاعات تھیں ۔ بعد کی اطلاعات بتاتی ہیں کہ "چالی ہیبڈو" پر ہونے والے حملے کے بعد سرچ آپریشن کیا گیا ۔ جس میں 7 مشتبہ افراد کو حراست میں لے لیا گیا اور میگزین کے دفتر پر حملہ کرنے والے تین افراد میں سے ایک نے گرفتاری دے دی ۔ یہ بھی معلوم ہواہے کہ میگزین کے دفتر پر حملہ کرنے والے تین لوگوں میں سے دو بھائی تھے ۔ جن میں سے ایک کا نام شریف کوشی اور دوسرے کا نام سعید کوشی تھا ۔ جب کہ تیسرے کا نام حمید مراد تھا ۔ حمید مراد نے جب دیکھا کہ اس کا نام مشتبہ حملہ آور کے طور میڈیا پر آرہا ہے تو اس نے خود کو پولیس کے حوالے کر دیا ۔ کل (بروز ہفتہ ) کی اخبارات میں خبر چھپی کہ شریف اور سعید کو بھی ہلاک کردیا گیا ۔ یہ دونوں بھائی پیرس کے شمال مشرقی علاقے ڈامارٹن آن گوئل میں ایک پرنٹنگ پریس کے دفتر میں پناہ گزین تھے ۔

"چالی ہیبڈو " اور اس کا عملہ کچھ زیادہ اچھی شہرت کاحامل نہیں تھا۔ یہ ایک مزاحیہ میگزین تھا ۔ جس کی ابتدا 1970ء میں ہوئی ۔ یہ میگزین سیاست دانوں وغیرہ کی تضحیک کے ساتھ ساتھ دنیا کے مختلف مذاہب اور ان مذاہب کی مقدس و محترم شخصیات کو بھی مشق ِ طنز و مزاح بناتا تھا ۔ اس رسالے کا عملہ تین باررسول اللہ ﷺ کی توہین کا مرتکب ہو چکا تھا ۔ سب سے پہلے اس رسالے میں 2006 ء میں گستاخانہ خاکے شائع کیے گئے ۔ جس پر پوری دنیا کے مسلمان سراپا احتجاج بن گئے ، لیکن میگزین کے عملے پر اس کا کچھ خاص اثر نہیں ہوا ۔ پھر اس رسالے میں نومبر 2011ء اور ستمبر 2012ء میں دوبارہ گستاخانہ خاکے شائع ہوئے ۔

اہلِ مغرب "آزدی ِ اظہار ِ رائے " کے نام پر اکثر توہین ِ رسالت کے مرتکب ہوتے رہتے ہیں ۔ انھیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی کہ وہ اس طرح کی حرکتوں سے پوری دنیا کا امن برباد کر رہے ہیں ۔ ظاہر ہے ، جب کسی کے عقیدے ، مذہب ، مقدس و محترم ہستیوں کو تضحیک کا نشانہ بنایا جائے گا تو خود بہ خودبے امنی کی فضا پیدا ہوجائے گی اور اس بد امنی کی اصل وجہ کچھ اور نہیں ، بلکہ "آزادی ِ اظہار ِ رائے " کا غلط استعمال ہوگا ۔ جب تک دوسروں کے عقائد ، مذہب اور مقدس ومحترم ہستیوں کو "آزدی ِ اظہار ِ رائے " کے نشتر سے نشانہ بنایا جاتا رہے گا ، اس وقت تک اس طرح کے واقعات ہوتے رہیں گے ۔ چاہے اس پر جتنا شور و غوغا کیا جائے ۔

ہر چیز کی کچھ حدود و قیود ہوتی ہیں ۔ اگر وہ چیز حدود و قیود کی سرحدوں کو توڑ دے تو نقصان ہوتا ہے ۔ اہل ِ مغرب کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی آزادی خیالی اور آزادی ِ اظہار ِرائے کے زعم اور شوق کی کچھ حدود تعین کر لیں۔ تاکہ تصادم سے بچا جا سکے ۔ ورنہ تصادم سے کیا کیا ہوتا ہے ، سب جانتے ہیں ۔

پیرس کے مزاحیہ سیاسی جریدے پر ہونے والے حملے کو کسی طرح مستحسن نہیں کہا جاسکتا ۔ یہی وجہ ہے کہ اہل ِ مغرب کے ساتھ ساتھ کچھ مسلمان ملکوں اور تنظیموں نے بھی اس حملے کی بھر پور مذمت کی ہے ۔ لیکن اس کے محرکات اور اسباب وعلل کے بارے میں سوچا جائے تو یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ پیرس کے سیاسی جریدے کے عملے نے اپنی موت کو خود آواز دی ہے ۔ اگر اس رسالے کا عملہ توہین ِ رسالت کا مرتکب نہ ہوتا یا ایسی حرکت کر کے معذرت کر لیتا تو آج اس جریدے کا سارا عملہ زندہ اور سلامت ہوتا ۔ نہ جانے اہل ِ مغرب کو تصادم اور نفرت کی فضا پیدا کرنے میں کیا مزہ آتا ہے ۔

مغربی دنیا کے بہت سے مفکرین ایسے ہیں ، جنھوں نے پیغمبر ِ اسلام ﷺ کی تعریف و توصیف کی ہے ۔ آزاد خیال مغربی لو گ کم سے کم انھی سے کچھ سیکھ لیں ۔ کئی کتابیں ہیں، جن کا موضوع پیغمبر ِ اسلام ﷺ کے ضمن میں "غیروں کا اعتراف " ہے ۔ فی الحال میرے پاس اس موضوع پر کوئی کتاب نہیں ہے ۔ ورنہ آج کی اپین پوری تحریر ہی اس موضوع پر قربان کر دیتا ۔ انشا ء اللہ جب بھی مجھے اس موضوع پر کوئی مستند کتاب دست یا ب ہوگی تو اپنے قارئین کو ضرور محضوض کروں گا ۔ فی الوقت صرف رسول اللہ ﷺ کے بارے میں نپولین بونا پارٹ کے خیالات زیر ِ غور لائیے :
"محمد ﷺ کی تعلیمات سے پندرہ برس کی عمر میں عرب کے لوگوں نے جھوٹے خداؤں کی پرستش سے توبہ کر لی ۔ یہ حیرت انگیز کارنامہ ان کی تعلیمات پر عمل کرنے کے سبب ہوا ۔ "
اس ضمن میں میں نے نپولین بونا پارٹ کے الفاظ اس لیے تحریر کیے ، کیوں کہ اس بادشاہ کا تعلق اسی فرانس سے تھا ، جس کے ایک مزاحیہ جریدے کے عملے نے پیغمبر ِ اسلام ﷺ کی شان میں ایک بار نہیں ، تین بار گستاخی کی ۔

اقوام ِ متحدہ کو چاہیے کہ وہ ایسے اصول و ضوابط وضع کرے ، جس سے "آزادی ِ اظہار رائے " کی حدود کا تعین کیا جا سکے ۔ تاکہ "آزادیِ اظہار ِرائے " کے مبلغین اور داعی بھی دوسرے عام انسانوں کی طرح دوسروں کے عقائد ، مذاہب اور مقدس ومحترم ہستیوں کے بارے میں ایسی گستاخیاں نہ کریں ، جس سے پوری دنیا کا امن برباد ہو ۔
کیوں کہ اس دنیا کو پر امن بنانے کے لیے عقائد و مذاہب اور ان سے منسلک محترم ہستیوں کا احترام نا گزیر امر ہے ۔
آخر میں رسول اللہ ﷺ کی شان میں جرمن شاعر گوئٹے کی ایک نظم ، جو مجھ بہت پسند آئی ، پڑھئے:
اگر کوئی اس بات سے جلتا ہے
کہ اللہ محمد ﷺ کا حامی کیوں ہے
تو اسے چاہیے کہ رسی کا ایک ٹکڑا لے
اس کا ایک سرا اپنے اونچے ستون سے باندھے
اور اس کا دوسرا سرا اپنے گلے میں باندھے
اور اس سے لٹک جائے
اور حاسدوں کا اس سے بہتر انجام کوئی نہیں
(نوٹ: اس نظم کو ڈاکٹر ناظر حسین نے ترجمہ کیا ہے ، اور روزنامہ ایکسپریس بروز جمعہ کو شایع ہوئی ۔ )
Naeem Ur Rehmaan Shaaiq
About the Author: Naeem Ur Rehmaan Shaaiq Read More Articles by Naeem Ur Rehmaan Shaaiq: 122 Articles with 146066 views میرا نام نعیم الرحمان ہے اور قلمی نام نعیم الرحمان شائق ہے ۔ پڑھ کر لکھنا مجھے از حد پسند ہے ۔ روشنیوں کے شہر کراچی کا رہائشی ہوں ۔.. View More