رونے عمراں دے

بہت سی تلخ یادیں۔ روح فرسا واقعات اوراداس اداس قصوں کا بوجھ لئے دسمبر بیت گیا اور بچے کھچے آنسو اور آہیں نئے سال کی نئی صبحوں کو دے کر ماضی میں گم ہوگیا۔17 دسمبر کومیری پوری کوشش تھی کہ اس جانگسل سانحے کے بارے میں اپنے احساسات کا غذپر منتقل کروں۔ مگر کوشش کے باوجود ہر دفعہ ناکام رہا۔ جب بھی لکھنا چاہتا۔آنکھوں کی برسات آ ڑے آجاتی۔ مجھے یوں لگتا جیسے میرا قلم بھی خون تھوکنے لگاہے۔ میں ان احساسات کو لکھنے میں ناکام تھااور ناکام ہوں اس لئے کہ ایک باپ ہوں اور ماں باپ کے لئے یہ غم عمر بھر کے لئے ہوتا ہے پنجابی میں جسے کہتے ہیں ’’رونے عمراں دے‘‘ تو یہ عمر بھر کا رونا عمر کے ساتھ ہی ختم ہوتا ہے۔ جان اورغم دونوں اکھٹے ہی جاتے ہیں۔ کاش ہم ان لوگوں کے جذبات کا اندازہ کر سکیں جو اس عذاب سے دوچارہوئے ہیں۔میں تقریباً ایک ماہ کچھ نہیں لکھ سکا ۔ آج ان احساسات کی وجہ سے بہت مشکل سے کچھ ٹوٹی پھوٹی باتوں کو کالم کا روپ دے رہا ہوں۔

ہم گرم علاقے کے مکینوں کے لیے سردی کے باعث یہ کاہلی اور سستی کا موسم ہوتاہے۔ بادل آسمان سے اتر کر زمین پر آجاتے ہیں۔ جب یہ آسمان پر تیرتے ہیں تو ہم انہیں بادل کہتے ہیں اور جب زمین پر اتر آئیں تو دھند کا نام دیا جاتا ہے۔ دسمبر میں ہرطرف دھندہی دھند نظر آتی ہے۔ چلنا پھر نا محال ،سخت سردی ، آگ جس سے انسان ڈرتا ہے۔ آج کل اچھی لگنے لگتی ہے کہ سردی کی شدت میں جمنے سے بچاتی ہے۔ سرد علاقوں کے لوگوں کا حال اس سے بھی براہوتا ہے۔ وہ عملاً اپنے گھر وں میں قید ہوکر رہ جاتے ہیں۔ شدید سردی اور برف باری اسقدر مجبور اور لاچار کردیتی ہے کہ باہر نکلنا ممکن ہی نہیں ہوتا تھا۔ سال کا اختتام تو ہمیشہ ہی سے دسمبرمیں ہوتا آیاہے مگریورپ میں چونکہ اگلے دو مہینے باہر نکلنا محال ہوتا تھا۔ اسلئے کبھی وہ وقت تھا کہ جنوری اور فروری کے مہینے کیلنڈرمیں شامل ہی نہیں ہوتے تھے ۔ سال305 دن کا ہوتا تھااور اس کی ابتدا یکم مارچ سے ہوتی تھی۔ 46 ق م میں جولیس سیزر کے عہد میں جنوری اور فروری کیلنڈر میں شامل کیے گئے انگلستان میں اس سے پہلے ان دو مہینوں کو بھیڑیوں کے مہینے کہا جاتا تھا کیونکہ بھوکے بھیڑیے خوراک کی تلاش میں شہروں میں آجا یا کرتے تھے۔ جولیس سیزر کے کیلنڈر میں1582 ء میں پوپ گریگوری نے کچھ اور تبدیلیاں کیں اور آج وہی کیلنڈر دنیا بھر میں رائج ہے۔

1971 میں میری عمر بیس سال تھی اور میں اسلام آباد یونیورسٹی جو آجکل قائد اعظم یونیورسٹی کہلاتی ہے میں ایم ایس سی کا طالبعلم تھا۔ بہت سے بنگالی بھائی بھی ہمارے ساتھ تھے کہ دسمبر آیا اور پاک بھارت جنگ شروع ہوگئی۔ یونیورسٹی بند ہو گئی ۔ ہم گھروں کو واپس آگئے۔ میرا تعلق چونکہ لاہور سے تھا۔ اسلئے میں لاہور آگیا ۔ لوگوں کے حوصلے بہت بلند تھے۔ و ہ ہر لمحے کسی نہ کسی اچھی خبر کے منتظر اورہرقربانی دینے کو تیار تھے ۔پھر 16 دسمبر آیا اور وہ روح فرساخبر سنائی دی جس نے پوری قوم کو رلا دیا۔ ہر شخص رورہا تھا۔ محترم مولانا مودودی کی رہائش گاہ کے قریب ایک مکان میں بنگالی نوجوان بڑی تعداد میں مقیم تھے۔ درد کے مارے لوگ اپنی تسلی کے لیے اور ان نوجوانوں کے غم میں شریک ہونے، انہیں ملنے چلے جاتے ۔ہمارے ایک دوست جو کبھی مشرقی پاکستان نہیں گئے تھے مگر بنگالی زبان جانتے تھے۔ وہاں بنگالی میں تقریر کررہے تھے۔ تقریر کیا مشرقی پاکستان کا نوحہ کہہ رہے تھے۔ بنگالی نوجوان ان کی باتیں سن کر زار وقطار رو رہے تھے اور میر ے جیسے بہت سے لاہور کے باسی جنہیں بنگالی کی سمجھ نہ تھی ان کو روتا دیکھ کر رورہے تھے۔ اگلے دن بہت بڑی تعداد میں اہل لاہورریگل چوک میں مسجد شہداکے باہر اکھٹے تھے۔ پروفیسر غلام اعظم سمیت بہت سے لوگوں نے اپنے دکھ کااظہار کیا۔ وہ دکھ کا اظہار کرتے رہے اور لوگ روتے رہے ۔ 44 سال گزرگئے آنسو ہیں کہ تھمنے کانام نہیں لیتے۔ اہل درد اب بھی مشرقی پاکستان کے ذکر پر آنسوبہاتے ہیں۔بلکہ سچی بات یہ ہے کہ آنکھیں خود بخود چھلک جاتی ہیں۔ اسی موقع پر وہیں اسی چوک میں ناصر کاظمی نے اپنی شہرہ آفاق نظم پڑھی
پھول لے کر گیا آیا روتا ہوا
بات ایسی ہے کہنے کا یارانہیں
قبر اقبال سے آرہی تھی صدا
یہ چمن مجھ کو آدھا گوارانہیں
ناصر کاظمی پھول لے کر گیا تھا اور اس نے وہ پھول قبر پر پھیلانے تھے۔آج 44 سال بعد ہم نے پھولوں کو قبروں میں اتار دیا ہے۔ اس دفعہ بھی قوم روئی۔ مگرصرف چنددن میں بے حسی پھر غالب آجارہی ہے۔ جن کو حقیقی غم ہے یاجواحساس کی دولت سے عاری نہیں ہیں۔ ان کاغم لازوال ہے۔ انہیں لوگ صبر کی تلقین کرتے ہیں۔ رب کو دعا کرتے ہیں کہ انہیں صبردے مگر کیسے ۔یہ بات مجھے کبھی سمجھ نہیں آئی۔کہتے ہیں زوال نعمت بد ترین عذاب ہے اور اولاد تو رب العزت کی دی ہوئی سب سے بڑی نعمت ہے۔ وہ لوگ جن کے بچے یہ دہشت گردی کا سیلاب بلا چھین لے گیا۔ وہ کیسے صبر کریں ۔ قوم ان کی تشقی اور تسلی کا کچھ سامان توکرے ۔ انہیں صبر نہیں آئے گا اور نہ آسکتا ہے مگر کچھ ڈھارس ہی بند جائے گی ۔ قوم کچھ کرے تو سہی ۔

سیاستدان کا رویہ بھی عجیب ہے ۔ انہیں اپنے کام سے مطلب ہے چند ہیں جو ٹسوے بہانے جانتے ہیں۔ مگرمچھ کے آنسو۔مگر کسی کے غم سے انہیں کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ مرنا اور قربانیاں دینا شاید عوام اور فوج کا کام ہے ۔ عوام اور فوج میں بے چینی ہے کہ بڑھتی جارہی ہے۔ یہ بے چینی ضرور رنگ لائے گی۔ اکیسوں ترمیم کے بعد مذہبی جنوینوں اور مذہبی دہشتگردوں کے خلاف اقدامات کی ابتدا ہو چکی مگر سیاسی علاقائی اور لسانی دہشت گرد سیاسی جماعتوں کی پناہ میں خود کو بچانے میں کامیاب ہیں۔ مگر فطرت کے قانون بدلتے نہیں۔ اس قوم کو اگر زندہ رہنا ہے تو سیاسی لوگوں کے پروردہ تمام دہشتگردں کو اپنے حو اریوں سمیت قربان ہونا ہوگا۔ یہ عمل اگر جاری ہو اہے تو اسے بلا تفریق آخری دہشت گرد کے خاتمے تک جاری رہنا ہوگا۔
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500719 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More