سانحہ میمن گوٹھ: حادثہ یا اجتماعی قتل
(Saleem Ullah Shaikh, Karachi)
ابھی سانحہ ٹمبر مارکیٹ اور
پرانی انارکلی کے پلازہ میں اتش زدگی کے متاثرین کا غم تازہ تھا، ابھی ان
کے آنسو خشک نہ ہوئے تھے اورابھی ان کی کماحقہ دادرسی نہ کی گئی تھی کہ
نیشنل ہائے کے قریب ایک آئل ٹینکر اور مسافر بس کے تصادم میں 67افراد قتل
کردیئے گئے۔ ایک بار پھر تحقیقات تحقیقات کا کھیل کھیلا جائے گا، کمیشن اور
کمیٹیوں کا شور مچایا جائے گا، حکومتی ادارے مقتولین کو معمولی سی رقم خون
بہا کے طور پر ادا کریں گے اور پھر چند روز بعد لوگ سب کچھ بھول جائیں گے،
زندگی کا پہیہ اسی طرح رواں دواں رہے گا لیکن! لیکن یہ جو 67 افراد قتل
ہوئے ہیں یہ واپس نہیں آسکیں گے۔
آپ لوگ سوچ رہے ہونگے کہ یہ عجیب انسان ہے جو حادثے کا شکار افراد کے لیے
مرحوم کا لفظ استعما ل کرنے کے بجائے بار بار قتل اور مقتولین کا لفظ
استعمال کررہا ہے۔ جی ہاں حادثہ وہ ہوتا ہے جو آپ کی تمام تر احتیاطی
تدابیر اختیار کرنے بعد اچانک / ناگہانی طور پر رونما ہوتا ہے اور قتل وہ
ہوتا ہے جس میں کوئی فرد، گروہ یا ادارہ منصوبندی کے تحت کسی فرد یا گروہ
کی جان لیتا ہے یا ایسے حالات پیدا کرتاہے کہ لوگ موت کے منہ میں چلے جاتے
ہیں ، ایسے واقعات میں بظاہر تو یہ حادثہ معلوم ہوتا ہے لیکن دراصل یہ قتل
کے زمرے میں آتا ہے۔
آئیے ذرا جائزہ لیتے ہیں کہ یہ قتل ہے یا حادثہ۔ سب سے پہلے بس ڈرائیور اور
ٹرانسپورٹ کمپنی کی بات کرتے ہیں۔ پہلی بات یہ کہ یہ بس میں موجود گیس
سلنڈر کے پھٹنے کے باعث بس میں آگ لگی تھی۔اطلاعات کے مطابق 48 مسافروں کی
گنجائش والی بس میں 72 سے زائد مسافر سوار تھے جن میں سے کئی مسافر بس کی
چھت پر سفر کررہے تھے، اس کے علاوہ قتل گاہ بننے والی بس کے ہنگامی اخراج ّEmergancy
Exit کی جگہ بھی سیٹیں لگا کر اس کو مستقل طور پر بند کردیا گیا تھا۔ کیا
بس ڈرائیور یا کمپنی کو یہ معلوم نہ تھا کہ بس میں گنجائش سے زائد مسافر
ہیں؟ کیا انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ بس کی چھت پر مسافروں کو سوار کرنا
ویسے بھی غیر قانونی اور انتہائی خطرناک کام ہے؟ انہیں یہ بھی پتا نہیں تھا
کہ کسی بھی حادثے کی صورت میں ہنگامی خروج والا دروازہ بہت کارآمد اور
قیمتی انسانی جانوں کو بچانے میں معاون ثابت ہوتا ہے ؟ یقیناً یہ عام فہم
باتیں ہیں اور متعلقہ افراد کو ان سب کے بارے میں دیگر افراد سے زیادہ علم
ہوگا لیکن چند پیسوں کے لالچ میں ان تمام چیزوں سے صرف نظر کیا گیا جو کہ
غلطی نہیں بلکہ جرم ہے۔ سنگین جرم! اور 67 افراد کے قتل میں یہ لوگ بھی حصہ
دار ہیں۔
اب آئل ٹینکر کا معاملہ دیکھیں۔ اس کا ایک ٹریک مرمت کے لیے بند ہے اور
سنگل ٹریک پر ہی دو طرفہ ٹریفک چلایا جارہا تھا۔ایسی صورتحال میں گاڑیوں کی
رفتار کو قابو میں رکھا جاتا ہے اور بہت محتاط انداز میں ڈرائیونگ کی جاتی
ہے بالخصوص اوور ٹیک احتیاط سے کیا جاتا ہے لیکن ٹینکر اور ڈمپر مافیا ایسی
کوئی بھی احتیاط روا رکھنا غیر ضروری سمجھتے ہیں اور مذکورہ حادثے میں بھی
یہی ہوا کہ آئل ٹینکر کے ڈرائیور نے سنگل ٹریک پر اوور ٹیک کیا اور مسافر
ٹینکر سے جاٹکرائی۔ اس طرح آئل ٹینکر کے ڈرائیور اور اس کی پشت پناہ مافیا
نے بھی 67 افراد کے قتل میں حصہ لیا۔
پھر ٹریفک پولیس کا جرم دیکھیں۔حادثے کا شکار ہونے والی بس نے فٹنس سرٹیفکٹ
بھی لیا ہوگا۔ہنگامی اخراج Emergancy Exit مستقل بند ہونے کے باجود گاڑی کو
فتنس سرٹیفیکٹ کیسے جاری کردیا گیا؟ اگر سرٹیفیکٹ جاری نہیں کیا گیا تواس
کے بغیر گاڑی سڑک پر کیسے آگئی؟ اسے روکا کیوں نہیں گیا؟ اس کے علاوہ لانگ
روٹ کی بسوں میں سی این جی سلنڈرز کی اجازت نہیں ہے تو پھر یہ گاڑی کسیے
گیس سلنڈر پر چل رہی تھی۔ پھر اوور لوڈنگ کی شکایت تو عام ہے، ایسی گاڑیوں
کے ڈرائیورز اور مالکان پر جرمانے کرنے اور سخت سزا دینے کے بجائے رشوت
لیکر انہیں کھلی چھوٹ دیدی جاتی ہے۔علاوہ ازیں کم از کم کراچی کی حد تک ہم
یہ جانتے ہیں کہ رانگ سائیڈ جانا ایک عام مرض بن چکا ہے اور ٹریفک پولیس کی
چوکیوں کے سامنے اور اہلکاروں کی موجودگی میں لوگ انتہائی سکون سے رانگ
سائیڈ جارہے ہوتے ہیں کوئی ان کو روکنے ٹوکنے والا نہیں ہوتا ہے۔ اس طرح ہم
کہہ سکتے ہیں کہ ٹریفک پولیس کی نااہلی اور غیر ذمہ داری نے بھی اجتماعی
قتل میں معاونت فراہم کی۔
اب ذرا فائر بریگیڈ کی ناقص ترین کارکردگی کا جائزہ لیتے ہیں۔سانحہ ٹمبر
مارکیٹ کے وقت بھی یہ باتیں سامنے آئیں تھیں کہ فائر بریگیڈ کا عملہ چالیس
سے پچاس فیصد عملہ عموماً ڈیوٹی پر حاضر نہیں ہوتا، اطلاعات یہ ہیں کہ
سانحے کے بعد جائے وقوع پر سب پہلے پولیس پہنچی ، اس کے بعدتقریباً12:35 پر
میمن گوٹھ فائر اسٹیشن پر فون کیا جاتا رہا لیکن وہاں کسی نے فون اٹھانے کی
زحمت نہیں کی ، کافی دیر کی کوششوں کے بعد یہ ہوا کہ وہاں سے کسی نے فون
کاٹ دیا۔بعد ازاں سہراب گوٹھ اسٹیشن کو اطلاع دی گئی تو وہاں سے بھی
تقریباً رات :3:30 منٹ پر صرف ایک فائر ٹینڈر بھیجا گیا ، لیکن اس وقت تک
بدنصیب بس کے مسافر جل کر کوئلہ بن چکے تھے۔ اس طرح محکمہ فائر بریگیڈ بھی
اس اجتماعی قتل میں برابر کا شریک ہے۔
اور پھر حکومت! یہ سارے محکمے صوبائی یا وفاقی حکومتں کے ماتحت ہیں ، ہر
سانحے کے بعد مختلف محکموں کی خامیوں اور کوتاہیوں کی جانب نشاندہی کی جاتی
ہے، ذمہ داران کی غفلت کے بارے میں آگاہ کیا جاتا ہے لیکن کسی کے خلاف کوئی
کارروائی نہیں ہوتی کیونکہ سرکاری اداروں میں عموماً سیاسی بنیادوں پر
ملازمین کو بھرتی کیا جاتا ہے اور جس فرد کے خلاف کوئی کارروائی کی جاتی ہے
اس کی پارٹی متعلقہ فرد کی پشت پناہ بن جاتی ہے، محکمہ جاتی کارروائیوں
سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے اور نتیجہ یہ کہ غافل اور مجرم اہلکار اسی
طرح دندناتے اور عوام کے سینوں پر مونگ دلتے رہتے ہیں۔ یعنی کہ اجتماعی قتل
کی اس لرزہ خیز واردات کی اصل ذمہ داری حکومت پر ہی عائد ہوتی ہے۔
مذکورہ بالا تمام باتوں کو مد نظر رکھیں اور پھر یہ سوچیں کہ کیا یہ واقعی
حادثہ تھا یا اجتماعی قتل |
|