ایک دیہاتی اپنے گاؤں میں ایک بیکری والے
کو ایک کلو مکھن روز صبح کو بیچا کرتا تھا۔ بیکری والے نے کچھ دنوں بعد
محسوس کیا کہ مکھن وزن سے کم مل رہا ہے پھر وزن کرنے پر اس کا شک یقین میں
بدل گیا دونوں میں ضد بحث ہوئی تو معاملہ پنچایت تک جا پہنچا۔
جہاں کے بڑوں نے دیہاتی سے پوچھا کہ ایسا کیوں کیا جارہا ہے دیہاتی نے کہا
جناب میں تو کچھ بھی وزن کم نہیں کر رہا۔ پنچوں کے بڑوں نے کہا کہ تم مکھن
کم تول کر دے رہے ہو تم کس طرح مکھن کو ناپ تول کر بیکری والے کو دیتے ہیں۔
دیہاتی نے کہا کہ جناب میرے پاس کلو دو کلو کے بٹے تو نہیں ہیں مگر میرے
پاس ایک ترازو ہے۔
پنچایت کے سربراہ نے کہا تو تم کس طرح مکھن کو ایک کلو تول کر دیتے ہوگے۔
تو دیہاتی نے معصومیت سے کہا کہ جناب بات دراصل یہ ہے کافی عرصے سے میں
اپنے گھر کے استعمال کے لیے پہلے اس بیکری والے سے ایک کلو ڈبل روٹی کا
پیکٹ لیتا ہوں گھر آکر اس ایک کلو کے ڈبل روٹی کے پیکٹ کو ترازو کے ایک
پلڑے میں اور بیکری والے کو دینے کے لیے مکھن ایک تھیلی میں ڈال کر اسے
دوسرے پلڑے میں رکھ دیتا ہوں اور اس طرح دیکھ بھال کر میں مکھن کی تھیلی کو
ایک کلو ہوجانے کے بعد اسے باندھ کر اس بیکری والے کو دے دیتا ہوں۔
اور ایسا میں کافی عرصے سے کر رہا ہوں۔ اور اگر میرے مکھن کا وزن ایک کلو
سے کم یہ بیکری والا ثابت کر رہا ہے تو جناب اس میں قصور میرا نہیں بلکہ
اسی بیکری والے کا ہے جو مجھے ایک کلو ڈبل روٹی کا پیکٹ دیتا ہے اس کا مطلب
صاف یہ ہوا کہ یہ بیکری والا مجھے ایک کلو سے کم ڈبل روٹی کا پیکٹ دے رہا
ہے اور وزن میں ڈنڈی مار رہا ہے چنانچہ اسی وزن کے ناپ تول کی وجہ سے اس کو
بھی مکھن ایک کلو سے کم ہی مل رہا ہے۔
چنانچہ اس دیہاتی کی بات پر پنچایت نے چھان بین کی تو معلوم یہ ہوا کہ
بیکری والے کو ملنے والا مکھن واقعی وزن میں کم ہوتا ہے مگر کیونکہ یہ سارا
عمل دیہاتی بغیر کسی مالی منافع کے کر رہا تھا اسلیے بے گناہ ثابت ہوا جبکہ
بیکری والا جانتے بوجھتے دراصل کچھ عرصے سے مہنگائی اور اپنے منافع میں
اضافے کی غرض سے ڈبل روٹی کے وزن میں کمی کرنے کا مجرم ثابت ہوا اور پنچایت
کی جانب سے سزا سننے کے بعد خاموشی سے گھر واپس چلا گیا۔
اب اس ساری کہانی کا مقصد کیا سمجھ میں آتا ہے؟
کیا یہ نہیں کہ اس دنیا میں جو کچھ ہم دوسروں کو دیتے ہیں وہی چیز پلٹ کر
ہمارے ہی پاس آتی ہے جیسے ہم دوسروں کو عزت دیتے ہیں تو کیا ہمیں بے عزتی
ملتی ہے یا عزت؟ ہم دوسروں کا خیال رکھتے ہیں تو کیا دوسرے ہمارا خیال نہیں
رکھتے؟ ہم دوسروں کی مدد کرتے ہیں تو کیا ہماری مدد نہیں کی جاتی؟ ہم
دوسروں سے نفرت اور بغض رکھتے ہیں تو کیا وہی ہمیں نہیں ملتا؟ ہم دوسروں کا
ساتھ دیتے ہیں تو کیا دوسرے ہمارا ساتھ نہیں دیتے ؟
یہ سارا چکر دراصل اس دنیا میں ایسا ہی چلتا ہے معمولی کمی بیشی کے ساتھ
بلکہ آخرت میں بھی ایسا ہی ہوگا کہ اچھا کرنے کا صلہ اچھا ہی ملے گا اور
برا کرنے کا صلہ برا ہی ملے گا اسی لیے کہتے ہیں کہ ببول بو کر گلاب کی
تمنا نا کر بھائی کچھ تو خیال کر جب کبھی ہم کوئی کام کرتے ہیں ہمیں اپنے
آپ سے سوال کرنا چاہیے کیا میں جو کرنے جارہا ہوں وہ صحیح ہے یا غلط، میرے
اور دوسروں کے لیے بھی کارآمد ہے یا برا ہے میرے لیے یا دوسروں کے لیے۔
سچائی اور بے ایمانی عادت بن جاتی ہے یاد رکھو بھائیوں۔ کچھ لوگ ایسے ہوتے
ہیں کہ بے ایمانی کرتے ہیں اور جھوٹ ایسے بول جاتے ہیں کہ پتا ہی نہیں چل
پاتا کہ سچ کہہ رہا ہے یا جھوٹ۔ اور کچھ لوگ جھوٹ اس قدر بول رہے ہوتے ہیں
کہ وہ خود بھی نہیں جان پاتے کہ دراصل سچ کیا ہے، مگر وہ کس کو دھوکا دے
رہے ہوتے ہیں دوسروں کو یا اپنے آپ کو ؟
سچائی کا اظہار بھی اچھی اور عمدہ طریقے سے ہی ہونی چاہیے اور اس کے لیے
بڑی کوششیں اور بڑا صبر و تحمل درکار ہوتا ہے۔ کچھ لوگ سچائی کو بڑی بے
دردی سے استعمال کرتے ہیں مثلاً سچ یہ ہے کہ بے سبب اور ناحق اللہ کے نام
پر مانگنے والوں کے بارے میں بہت سے لوگوں کو یہ گمان ہوتا ہے کہ وہ دوسروں
کا حق مار رہے ہیں اور خود حقدار نہیں ہیں مگر کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ اس
سچائی کو ان لوگوں پر اس بری طرح واضع کیا جائے اور اخلاق و مروت کے سارے
اصول ایک طرف رکھ کر اس ناحق مانگنے والے کو دنیا بھر کے سامنے زلیل و رسوا
کردینا کیا سچائی کا عمدہ استعمال ہے۔ اگر ایسی بظاہر کڑوی سچائی کو عمدہ
اور اچھے طریقے سے پیش کر دیا جائے تو بہتر ہوتا ہے یہ اس ناچیز کا خیال ہے
باقی آپ لوگوں کا نظریہ اس سلسلے میں کچھ مختلف بھی ہوسکتا ہے مگر بات
دراصل یہ ہے کہ کوششیں جاری رہنی چاہیے چاہے سچائی کی طرف اور چاہے بے
ایمان سے بچاؤ کی طرف۔
آپ کا خیر خواہ
نوٹ: اس تحریر کی اکثر چیزیں دراصل ترجمہ ہیں میرے پاس آئی ایک اچھے ای میل
میسج کا۔ |