انجیلا مرکل کااعلانِ تحفظ اسلام

راجہ آفتاب عالم

برلن میں جرمن پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے لائق تحسین اور حق سچ بات کہی ہے کہ جرمنی کو تقسیم ہونے سے بچایا جائے گا جب کہ مسلمانوں کے مذہب کی بھی حفاظت کی جائے گی۔ جرمنی میں اسلام کا اتنا ہی احترام ہے جتنا کہ یہودیت کا تاہم پریس کی آزادی معاشرے کا ایک بیش قیمت خزانہ ہے۔ پیرس میں ہونے والا واقعہ دہشت ناک لمحات تھے جس سے فرانس کے لوگ گزرے اور جرمنی ایسے واقعات کی شدید مذمت کرتا ہے تاہم شدت پسندی پر قابو پانا ضروری ہے۔ جرمنی میں موجود مسلم کیمونٹی کا بھر پور دفاع کیا جائے گا کسی کو بھی کسی دوسرے کو عقائد کی بنیاد پر نقصان نہیں پہنچانے دیا جائے گا، اسلام سمیت تمام مذاہب کے لوگوں کو اپنے عقائد کے مطابق زندگی گزارنے کی آزادی کی حفاظت جرمنی کا آئین کرتا ہے لہذا کسی بھی طرح جرمنی کو تقسیم نہیں ہونے دیا جائے گا۔

حقیقت یہ ہے کہ عالمی رہنماء اور حقیقی رہنماء وہی ہوتے ہیں جو اپنے ملک کے صرف ایک طبقے کے نہیں تمام شہریوں کے مفادات کے نگہبان ہوتے ہیں۔ ان کی سوچ متصبانہ نہیں ہوتی نہ ہی وہ اپنی قیادت میں ملک و قوم انتشار و خلفشار کا شکار ہونے دیتے ہیں بلکہ ملک و قوم کے اتحاد و اتفاق اور ترقی و خوشحالی کے لئے تمام تر اقدامات بڑے اور مثبت ویژن کے ساتھ کرتے ہیں۔ انتہائی مشکل وقت میں جبکہ ایک منظم منصوبے کے تحت مسلمانوں کے ہی نہیں سارے عالم کے لئے رحمت اللعالمین حضرت محمد ﷺ کے خلاف مکمل بددیانتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سازش کے تحت بار بار فرانسیسی جریدہ خاکے شائع کرکے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی دل آزاری کیے جا رہا ہے۔ ایسے موقع پر یورپی ممالک میں ایک خاص طبقہ یورپی مسلمانوں کو نفرت کا نشانہ بنا رہا ہے۔ ایسی فضاء میں جرمن چانسلر نے جرمنی کے آئین کے مطابق مسلمان شہریوں کے نظریات اور مذہبی آزادی کو یقینی بنانے کا اعلان کرکے مسلمانوں کے دل جیت لیے ہیں۔

بیداری فکر فورم میں ڈاکٹر ساجد خاکوانی نے اپنے مقالے میں بجا طور پر عالمگریت کے تناظر میں اپنے جذبات اور خواہش کا برملا اظہارکیا ہے کہ فرانس میں بارہ افراد کے قتل کے خلاف پیرس میں بہت بڑی ریلی نکالی گئی اور دنیابھر کے ساٹھ سے زائد ممالک کے سربراہان مملکت نے اس ریلی کی قیادت کی۔کتناہی اچھاہوتاکہ یہ عالمی قائدین ’’انسانیت ‘‘کے لیے بھی کبھی جمع ہوپاتے اورپوری دنیامیں تاریخی انسانی اقدار کے خلاف جو طوفان بدتمیزی اور اودھم مچاہے اس کو روکنے کی کوئی سبیل کرپاتے۔اس وقت شرق تا غرب کل عالم انسانیت ظلم و جبرکے گھٹاٹوپ اندھیروں میں کسمپرسی اور خوف و دہشت زدگی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ ایشیااورافریقہ کے عوام تو ویسے ہی پست ترین معیارزندگی کے حامل ہیں جب کہ یورپ جیسی جنت ارضی میں بھی خودکشی کی شرح سب سے زیادہ ہے،جس سے اندازہ کیاجاسکتاہے کہ وہاں کے لوگ کس کس طرح کے ذہنی دباؤ کے تحت زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔یہ عالمی قیادت کبھی تویہ بھی سوچتی کہ محض پیٹ کی خواہش اور پیٹ سے نیچے کی خواہش کو ہی پوراکرناانسانیت کی بقاکے لیے کافی نہہں ہیں،’’انسانیت‘‘ کے تقاضے کچھ اس سے بالا تر مزید بھی ہیں۔اپنے باشندوں کے قتل پر غم و غصے کااظہاریااپنی مملکت اور اپنے جغرافیائی خطے کے ہی امن و دفاع کے بارے میں فکر مند رہناہی تو عالمی راہنمائی کے لیے کافی نہیں ہے،’’انسانیت‘‘کی فکر اپنے خطے سے باہر نکل بھی دامن گیر ہونی چاہیے کہ دنیاکے دیگرعلاقوں میں بھی ’’انسان‘‘ہی بستے ہیں۔پوری دنیاکے ذرائع ابلاغ چینخ چینخ کراس جمع ہونے والی قیادت کو’’ عالمی راہنما‘‘ہونے کا طعنہ دیتے چلے جارہے ہیں لیکن یہ کیسے ’’عالمی راہنما‘‘ہیں جن کی فکرمندی اپنی قوم یا اپنے ملک سے باہر نکل ہی نہیں پاتی۔
Javed Bhatti
About the Author: Javed Bhatti Read More Articles by Javed Bhatti: 141 Articles with 104931 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.