دہشت گردی ، مذہبی انتہاپسندی
اور اسلام فوبیا کے مہیب سائے سویڈن جیسے پر امن ، روشن خیال اور آزاد
معاشرہ پربھی چھا رہے ہیں۔گذشتہ دنوں مساجد پر حملے اور آتش زنی کے واقعات
نے سب کو پریشان کردیا ہے۔ صاف ظاہر ہے جب دنیا بھر میں منفی رجحانات میں
اضافہ ہورہا ہے تو سویڈن اُس سے کیسے محفوظ رہ سکتا ہے ۔جب یہاں سے مسلمان
گھرانوں کے نوجوان شام اور عراق میں لڑنے کے لیے جائیں گے اور پھر واپس
آئیں گے تو اس ملک کے لوگ متفکر کیوں نہ ہوں گے جنہوں نے دو صدیوں سے کوئی
جنگ ہی نہیں لڑی ہے۔جب لاہور سے ایک بوڑھی سویڈش خاتون جو وہاں کی بچیوں کو
صحت عامہ کی تعلیم دے رہی تھی اس کی لاش یہاں بھیجیں گے تو کیا رد عمل
ہوگا۔ جب اس پرامن معاشرہ میں جہاں نہ صرف ہر طرح کی مذہبی آزادی میسر ہے
اورہر طرح کا حکومتی تعاون میسر ہو وہاں انتہا پسندی کی سرگرمیوں سے پرسکون
ماحول کو بدلنے کی کوشش کریں تو دوسری جانب بھی نسل پرست اور انتہا پسند
عناصر کو کھل کر کام کرنے کو موقع ملے گا۔ رشدی کی کتا ب کو شائد چند لوگ
ہی پڑھتے اور اسے وہ پذیرائی کبھی نہ ملتی جو ہماری وجہ سی اسے ملی ہے۔
فرانس کا میگزین صرف چھ ہزار کی تعاد میں چھپتا تھا اور کوئی اسے جانتا تک
نہ تھا مگر اب وہ لاکھوں کی تعداد میں شائع ہوا ہے اور دھڑلے سے اس نے
سرورق پر رسول اکرم ؐ کا کارٹون شائع کیا ہے اور ہم بے بسی کے تصویر بنے
دیکھ رہے ہیں۔ اگر اس کے دفتر پر حملہ نہ ہوتا تو کوئی اسے توجہ ہی نہ دیتا
۔ رشدی کی کتاب کی طرح اسے بھی شہرت کی بلندیوں تک پہنچانے والے کون ہیں۔
سوچنے کا مقام ہے کہ توہین کا باعث کون ہے۔ امن کے دین کا چہرہ کس نے مسخ
کیا ہے۔ جو غیر ہیں وہ تو اپنا کام کریں گے ہی مگر یہاں تو اس گھر کو آگ
لگی گھر کے چراغ سے۔
یہ حقیقت ہے کہ دنیا میں قتل و غارت اور جتنا انسانی خون بہایا گیا ہے اس
میں مسلمانوں کا حصہ بہت کم ہے اور زیادہ کرادر انہی کا ہے جو آج حقوق
انسانی کے علمبرادر ہیں۔ صرف گذشتہ سو سال پر نگاہ دوڑایئے صورت حال واضع
ہوجائے گی۔ دونوں عظیم جنگوں میں مسلمانوں کا کوئی کرادر نہیں تھا اور ان
میں جو لاکھوں انسان مرے ان کا خون کن کی گردن پر ہے۔ جاپان پر دو ایٹم بم
بھی مسلمانوں نے گرائے جس سے لاکھوں انسان مرے تو تھے ہی سالوں بعد تک
معذور پیدا ہوتے رہے۔ برطانیہ، سپین،اٹلی، فرانس اور دوسرے یورپی ممالک نے
دوسرے ممالک کواپنا غلام بنایا اور جب انہوں نے اپنے حقوق کے لیے آواز بلند
کرنا چاہی انہیں موت کی نیند سلایا جاتا رہا اور اسیے انسانوں کی تعداد کا
شمار بھی نہیں کیا جاسکا۔ اسی فرانس نے الجزائر میں پندرہ لاکھ کے قریب
انسانوں کو قتل کیا۔ مشرق وسطیٰ میں انسانی خون سے ہولی کھیلنے والوں کی
پشت پناہی کون کررہا ہے۔ دنیا کے منصفوں اور حقوق انسانی کے علمبرداروں کو
کشمیر میں بہنے والا خون کیوں نظر نہیں آتا۔ پیرس میں دہشت گردی کا جو
واقعہ ہوا بہت بُرا ہوا لیکن اُن کے ساتھ یکجہتی کے لیے دنیا امڈ آئی لیکن
فلسطین اور کشمیر پر کیوں خاموش ہیں۔جب ناروے میں وہاں کے باشندے نے ایک سو
سے زائد لوگوں کو قتل کیا اُس کے خلاف ایسا رد عمل کیوں نہیں آیا۔ انصاف
اور حقوق سب کے لیے برابر ہونے چاہیے ۔ اہل یورپ کو یہ سوچنا چاہیے کہ وہ
کس طرح کی دنیا چاہتے ہیں۔ یورپی میڈیا کو بھی سمجھداری اور ذمہ داری کا
ثبوت دینا چاہیے اور جلتی پر تیل ڈالنے کی بجائے نفرت کی آگ کو ٹھنڈا کرنا
چاہیے اور کسی کی بھی دل آزاری نہیں کرنی چاہیے ۔پوپ فرانسس نے بالکل درست
بات کی ہے کہ آزادی رائے کا مطلب یہ نہیں کہ دوسروں کے مذہب کا تمسخر اڑایا
جائے۔ انہوں نے بالکل درست کہا کہ اگرکوئی میری ماں کو برا کہیں تو میرا
مکہ بھی کھانے کے لیے تیار رہے۔فرانس کے میگزین کے حملہ کے بعد دنیا بھر کے
مسلمانوں نے اس کی مذمت کی تھی اور اپنی ہمدردی کا اظہار کیا تھا مگریہ
قابل مذمت ہے کہ ا سی میگزین نے توہین آمیز کاٹون دوبارہ شائع کرکے اپنی اس
ہمدردی کواب نفرت میں بدل دیاا ہے۔ اب دنیا بھر کے مسلمانوں نے JE SUIS
MUHAMMAD یعنی میں محمدﷺ کے ساتھ ہوں شروع کرکے اپنے جذبات کے اظہار کا
پرامن انداز اپنایا ہے۔
اسلام جو کہ اعتدال کا دین ہے اور خود رسول اکرمﷺ نے فرمایا ہے کہ بہترین
راستہ اعتدال کا ہے لیکن خود کو مسلمان کہلانے والوں نے اسے ایک انتہا پسند
اور متشدد مذہب کے طور پر متعارف کروایا ہے۔ اسلام دشمن قوتیں خوش نصیب ہیں
کہ انہیں اپنے مذموم مقاصد کے لیے آلہ کار خود مسلمانوں کی صفوں میں دستیاب
ہیں۔ پاکستان کے خلاف برسر پیکار عناصر ہوں یا عراق اور شام میں نام نہاد
جہاد کرنے والے ، انہیں اسلحہ اور مدد کون دیتا ہے اب یہ کوئی مخفی بات
نہیں رہی۔ لیکن یہاں مسلمانوں کی اکثریت جو کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی
کو مسترد کرتی ہے انہیں مزید سمجھداری سے کام لینا ہے بالخصوص وہ جو یورپ
میں مقیم ہیں۔ قرآن کی وہ تعلیمات جو امن ، انسان دوستی اور مذہبی آزادی کا
درس دیتی ہیں انہیں اپنے کرادر اور عمل سے اجاگر کرنا ہوگا۔ انہیں ان ممالک
کے قوانین کا احترام کرنا چاہیے۔ اسلام فوبیا کو اپنے اچھے کرادر و عمل،
مقامی آبادی کے ساتھ اچھے اخلاق، حلم، برداشت اور دور مکی میں رسالت مآب ؐ
کی حکمت عملی سے رہنمائی لینی چاہیے۔ اپنے بچوں کو انتہا پسندوں کے ہتھے
چڑھنے سے بچائیں۔اسلام کی اصل تعلیمات اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔انہیں قرآن
حکیم کی اس تعلیم کو ہر وقت پیش نظر رکھنا چاہیے کہ کسی ایک نسان کا قتل
تمام انسانیت کے قتل کے برابر ہے ( ۳۲؍۵)، تمام انسان صرف انسان ہونے کی
وجہ سے قابل عزت ہیں( ۷۰؍۱۷)، دوسروں کے مذہب، معبدوں کا احترام کرو۔
دوسروں کی عبادت گاہوں کا حفاظت کرو (۴۰؍۲۲) ۔ جہاں اﷲ کی آیات کا مذاق
اڑیا جارہا ہو وہاں سے وقتی طور پر الگ ہوجاؤ (۱۴۰؍۴) یہ حکمت عملی اس وقت
بھی اختیار کی جانی چاہیے جب کارٹون جیسے واقعات سامنے آئیں۔ تشدد اور جبر
کی بجائے مہذہب انداز میں اپنا احتجاج ریکارڈ کروائیں۔ یورپ کی مسلم
تنظیمیں، قانون اور سیاست میں متحرک شخصیات اور اہل علم یہ جانتے ہیں کہ
یورپ میںDiscrimination, Violation, Bullying, انسانی حقوق اور یکسان سلوک
پر مبنی دوسرے قوانین کے تحت اپنی بات کی جاسکتی ہے۔ قائد اعظم کی حکمت
عملی کو اپنانے کی ضرورت ہے جنہوں نے برطانوی سامراج کے قوانین کے اندر رہ
کر کامیاب جنگ لڑی اور ایک دن کے لیے بھی جیل میں نہ گئے۔
یورپ میں مقیم مسلمانوں کو مقامی باشندوں کے ساتھ اپنے بہتر روابط قائم
کرکے اپنا نقطہ نظر سجھانا چاہیے۔ الگ تھلگ رہنے کی بجائے انہیں اپنے سماجی
اور مذہبی اجتماعات میں شمولیت کی دعوت دینی چاہیے۔ قرآن حکیم پر غور کرکے
بڑی حیرت ہوتی ہے کہ حج جو کہ اسلام کا پانچواں رکن ہے اس کے بارے میں
جتنیبھی آیات ہیں ان میں انسانوں کو مخاطب کیا گیا ہے اور کسی جگہ بھی اُن
میں صرف مسلمانوں یا مومنینکو مخاطب نہیں کیا گیا۔ اسلام تمام مخلوق کو خدا
کا کنبہ قرار دیتا ہے جس کی تعلیمات قرآن حکیم میں موجود ہیں جسے مولانا
الطاف حسین حالی نے یوں کہا ہے کہ
یہ پہلا سبق تھا کتاب ہدا کا کہ ہے ساری مخلوق کنبہ خدا کا
سویڈن میں کچھ پاکستانی تنظیموں نے اس ضمن میں قابل قدر کوششیں شروع کی
ہیں۔ سٹاک ہوم کے ایک نواحی علاقے آلبی میں پاکستان کلچرل ایسوسی ایشن کے
صدر لیاقت خان نے دیگر ممالک کی کچھ تنظیموں کے ساتھ مل کر مسلمان اور
مسیحی مذہبی رہنماؤں کو ایک پلیٹ فارم پر لا کر حالات حاضرہ پر ایک دوسرے
کے خیالات جاننے اور تبادلہ خیالات کا موقع فراہم کیا۔ اس اہم نشست میں
سویڈن میں پاکستان کے سفیر جناب طارق ضمیر بھی شریک ہوئے جبکہ شرکاء نے بھی
اپنے سوالات کیے۔ اسی نوعیت کی ایک اور نشست عید میلادالنبیﷺ کے سلسلہ میں
مسجد اہل بیت میسٹا میں سید ہادی حسن کی قیادت میں ہوئی ۔ اس نشست میں مسٹر
بیورن وان سیڈون جو کہ سویڈن کی قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر جو کہ سابق
وزیر دفاع و تجارت بھی رہے ہیں اور اس وقت سویڈش اسمبلی میں سوشل ڈیموکریٹ
جماعت کے گروپ لیڈر ہیں شریک ہوئے۔ سوشل ڈیموکریٹ پارٹی کے ایک اور رہنما
اور مقامی بلدیہ کے کونسلر لارش بینٹین سن بھی شریک ہوئے۔ مجلس مذکراہ میں
سویڈن میں پاکستان کے سفیر جناب طارق ضمیر، ڈاکٹر عاف کسانہ اور سید محمد
علی نے بھی حصہ لیا۔ شرکاء نے اتفاق کیا کہ چند عناصر کی کاروائیوں کا
اسلام سے کوئی تعلق نہیں اور ایک دوسرے کو سمجھنے اور اپنا موقف سمجھانے کے
لیے آپس میں مکالمہ کی اشد ضرورت ہے۔ مخلف مذاہب اور تہذیبوں کے مابین غلط
فہمیوں کو دور کرنے، اور ایک دوسرے کے خیالات کو جاننے اورایک پرامن معاشرہ
کے قیام کے لیے مکالمہ بنیاد بن سکتاہے۔ |