اسلام نے جو آئیڈیالوجی پیش کی وہ زندگی کے
تمام شعبوں ، سیاست ، اخلاقیات، معاشرت ، معاشیات اور تعلیم پر محیط ہے۔آج
اسلامی نظریہ حیات دورِ جدید کے دو بڑے نظریات اشتراکت اور سرمایہ دارانہ
کے سامنے چیلنج بنے ہوئے ہیں۔ مسلم ممالک جدید تعلیم کے حصول کے بجائے دفاع
کیلئے زائدسرمایہ خرچ کرتے ہیں۔ دوہرے نظام تعلیم کی وجہ سے مسلمان دورِ
جدید کے علمی تقاضوں سے خود دورنہیں ہوا بلکہ سوچی سمجھی سازش کے تحت دور
کرادیا گیا۔
آغازِ اسلام میں قرآن و حدیث ، فقہ و ہیت ، علم الانساب ، خوشنویسی وغیرہ
شامل نصاب تھے۔نبی اکرم ﷺ کے دور میں عربی زبان اور قرآن مجید نصاب کا حصہ
تھے ۔ خلفائے راشدین کے دور میں تفسیر، حدیث، علم الانساب ، اسماء الرجال ،عربی
محاوارت اور جغرافی شامل تھے ۔ عباسی دور تک پہنچتے پہنچتے نصا ب ِ تعلیم
قرآن، قرات و تفسیر ، فقہ ، خطاطی، جغرافیہ ، تاریخ، ریاضی، جغرافیہ ، علم
نجوم ، نظم ، گرامر، کیمیا، فن تعمیر ، سنگ تراشی ، عسکری فنون،صنعتی فنون
اور فن خطابت شامل ہوگئے۔جب اسلامی سلطنت وسیع ہوئیں تو مساجد کے ساتھ
مکاتب نے لے لی۔امام غزالی پہلے مفکر تھے جنھوں نے لازمی اور اختیاری ،مضامین
کے تصور سے آشنا کیا اور علوم شرعیہ کیساتھ علوم دنیویہ کو شامل نصاب کرکے
فنی اور پیشہ وارانہ تعلیم کوباقاعدہ رواج دیا۔بابائے عمرانیات ابن خلدون
نے علوم کی دو قسمیں دیں۔پہلے طبعی علوم یا علوم عقلیہ ،طبعی علم میں منطق،
حساب، ہیت، موسیقی ، طبعیات ، الہیات دوسرے تقلیدی علم یا علوم نقلیہ میں
تفسیر ، قرات ، حدیث ، فقہ اصول فقہ ، علم االکلام ، لغت ، صرف و نحو، اور
ادب کے ساتھ پیشہ وارانہ علوم مثلا موسیقی ، مصری،نقاشی ، فن حرب غیرہ بھی
نصاب میں تجویز کئے۔عزنوی عہد کے دوسو برس (۹۷۶ ء تا ۱۱۸۶ ء)میں ماورا
النہر (توران) اصفہان وشیراز اور دوسرے علمی مراکز سے عالموں کی بڑی تعداد
جمع ہوگئی تھی۔ جن میں ابو ریحان البیرونی، فردوسی، عنصری، فرخی،مسعود ،
سعد سلیمان،اور عسجدی قابل ذکر ہیں۔ مساجد کیساتھ مدارس کی تعمیر مسلم
حکمرانوں کی روایت رہی ہے ۔ محمود غزنوی نے عظیم الشان کتب خانہ تعمیر
کرایا اگر یہ مدرسہ علا ؤ الدین جہاں سوز کی آگ سے جل کر تباہ نہ ہوتا تو
یقینا اس کی اہمیت آج کے جامعہ ازہر سے بڑھ کر ہوتی۔ سلاطین دہلی کے عہد
میں بھی کثرت سے مساجد و مدارس تعمیر ہوئے ۔ " محمد تغلق نے شہر دہلی آباد
کیا تو اس نے مدرسے اور مساجد بھی تعمیر کیں۔تغلق دور کا سب اہم مدرسہ "مدرسہ
فیروز شاہی" تھا۔یہ ایک عظیم الشان ہندوستان کی پہلی تکنیکی تعلیم کا
کامیاب تجربہ تھا جہاں تفسیر ، حدیث ، فقہ ،فلسفہ، ہئیت اور ریاضی کے
علیحدہ شعبے جات تھے۔فیروز شاہ نے ہندوستان، توران، خراسان اور بلاد
اسلامیہ سے طبیبوں کی ایک ایسی جماعت کو یکجا کیا جنہوں نے فن طب پر مستند
کتاب مرتب کی جو طب سکندری کہلائی۔
جون پور فیروز تغلق کے نام پر آباد علم و فن کا اہم مرکز بنا۔ مغلیہ اکبر
دور میں ابوالفضل نے نصاب کی جو تفصیل لکھی ہے اس کے مطابق علم الحساب ،
علم الہندسہ،فن زراعت، علم المساحت،علم ہیت،رمل، معاشیات،انتظام ملکی،
طبعیات، منطق، ریاضیات، الہیات اور تاریخ کی شعبوں میں ہندو مسلم ملکر
تعلیم حاصل کرتے تھے۔شاہ جہاں نے "مدرسہ دارلبقا" کے نام سے عظیم الشان
مدرسہ قائم کیا ۔اورنگزیب کے دور میں"مدرسہ رحیمیہ" شاہ ولی اﷲ کے والد عبد
الرحیم نے عہد ساز تعلیمی ادارہ قائم ہوا۔بد قسمتی سے چودھویں صدی میں کے
آخری عشرے میں تیمور اور منگولوں نے جو تباہ کاریاں میں مالی ، جانی اور
ادبی ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ اسی طرح انگریزوں نے ہندوستان پر قبضے کے
بعد دہلی ،آگرہ اور مسلمانوں کے دوسرے علمی اور ثقافتی مراکز کو تباہ و
برباد کردیا ۔ لاکھوں گراں قدر کتابیں ضائع ہوئیں۔انگریزوں نے سینکڑوں سال
کی محنت سے لکھے جانے والا قیمتی اثاثہ چُرا لیا جو آج بھی یورپی کتب خانوں
کی زینت ہیں اور آج بھی بڑی بڑی علمی درسگاہوں میں پڑھایا جاتا ہے۔سر سید
احمد خان کے علی گڑھ دارلعلوم کو قائد اعظم نے اسلامی ہند کا اسلحہ خانہ
اور اس کے طلبہ کو بہترین سپاہی قرار دیا تھا۔
انگریزوں نے دوہرا نظام تعلیم متعارف کرایا جس کی وجہ سے مسلمان دور جدید
کے تقاضوں کے مطابق خود کو جلد نہیں ڈھال سکے ۔ اس کے علاوہ برطانیہ ،
امریکہ اور دیگر یورپی ممالک نے فلاح انسانیت کے بجائے فساد فی الارض کے
لئے تباہی کا سامان ایجاد کیا ۔ تما م تعمیریں ایجادات مسلمانوں کی ہیں۔
جدید سائنس کی بنیاد مسلمانوں نے رکھی۔آج مسلمان تعلیم کیجانب متوجہ نہیں
ہیں کیونکہ ایسے خانہ جنگیوں ، بد امنی ، دہشت گردی اور ملکی بغاوتوں میں
الجھا دیا گیا ہے۔معاشی طور پر مضبوط مسلم حکومتیں عیاشیوں میں مصروف ہیں۔
ترقی پذیر مملکتیں معاشی الجھنوں و مفاہمتی سیاست و تعلیم پر مجرمانہ عدم
توجہ کا شکارہیں۔ موجودہ دور میں اکیسویں آئینی ترمیم کے حوالے سے بعض
مذہبی جماعتیں اپنے تحٖفظات کا اظہار کر رہی ہیں وہاں یہ خدشہ بھی ظاہر کیا
جارہاہے کہ قوم کی یکجہتی کو سانحہ پشاور میں معصوم بچوں کی شہادتوں کے
نتیجے میں جو ایک صفحے پر متفق ہوئے تھے اس کا رخ مدارس کی جانب موڑا جا
رہا ہے حکومت کی سست روری کی عادات ثانیہ کی وجہ سے تحفظات دور کرنے کیلئے
ایک بار پھر حساس معاملے پر وفاق المدارس ، مذہبی جماعتوں اور وکلا بار
کونسلوں کو مطمئن کرنے کیلئے ٹھوس اقدامات دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔
چیدہ چیدہ نامور چھوٹے بڑے مدارس کے مقابل ایک ادارہ مجلس صوت اسلام
پاکستان،ماضی و مستقبل کی طرز تعلیم کا حسین امتزاج ہے۔بر اعظم ایشیا میں
طلبہ سرگرمیوں کو مانیٹر کرنے اور طلبا کے حقوق کی جنگ لڑنے والے ادارے نے
مجلس صوت اسلام پاکستان کی طلبہ سرگرمیوں اور بالخصوص تقریری مقابلوں کی
تقاریب کو " ایشیا کی تیسری بڑی " طلبہ کی سرگرمی قرار دیا۔ایشین دیبٹنگ
ویب سائٹ ( Asian debatingweb site) کے نمائندے نے لکھا کہ تین سالوں میں
طلبا نے بہت ہی قابل اعتماد تقاریر کیں اور اس مقابلے کی سب سے اہم بات یہ
ہے کہ اس میں پورے ملک سے جید علما ء کو بھی مدعو اور کامیاب طلبا کیلئے
خطیر رقم انعام میں دی جاتی ہے۔ جس سے طلبا میں حوصلہ افزائی کا جذبہ پیدا
ہوتا ہے۔مجلس صوت اسلام پاکستان کے تذکرے کی ایک اہم وجہ یہاں کا نظام
تعلیم ہے، تربیت علما کے کورس میں تخصیص فی الدعوۃ و الارشاد ، صحافت کورس
و جغرافیہ کمپوئٹر سائنس و عمرانیات ، اسلاملک بینکنگ کورس انگلش اور عربک
لینگولیج کورس ، اور فن خطاب اور اسلوب بیان قا بل ذکر ہیں اسی سلسلے میں
گذشتہ دنوں اسلام میں مجلس صوت اسلام پاکستان کے زیر اہتمام پاکستان کے
تمام رجسٹرڈ مدارس میں زیر تعلیم طلبا کے درمیان کنویشن سینٹر اسلام آباد
کی ایک پر وقار تقریب میں ایک تقریری مقابلہ کا اہتمام کیا گیا، تقریب میں
راقم نے بھی شرکت کی ،قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس قسم کی اجتہادی تقاریب کا
اہتمام بڑے منظم انداز میں پہلی بار کیا گیا جس میں کسی مسلک ، سنی ، شیعہ
کی تفریق کے بغیر وفاقی بین المدارس کے منظور شدہ مملکت کے مدارس میں زیر
تعلیم مستقبل کے تمام ممکنہ خطیبوں نے مقررہ موضاعات پر مدلل خطابات نے
تحیر و متاثر کر دیا۔ جب مستقبل کے ذہین نوجوان طلبا خطیبوں نے تقاریر کیں
تو میرے دل میں ایک بے ساختہ آرزو اٹھی کہ کاش ہمارا الیکڑونک میڈیا اس
پروگرام کی مناسب اور تقاریر کی مکمل کوریج دیتا تو عالم دنیا میں مدارس کے
حوالے سے جو غلط فہمی پیدا ہورہی ہے وہ کسی حد تک دور ہوسکتی تھی۔ مجلس صوت
اسلام پاکستان کے امیرمفتی ابوہریر ہ محی الدین، نائب رئیس جامعہ اسلامیہ
کلفٹن کراچی ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ تنظیم میں امیر کے علاوہ مزید کوئی
عہدے نہیں ہیں۔اہم بات یہ ہے کہ یہ تنظیم مکمل غیر سیاسی ایک ایسی تبلیغی
جماعت ہے جس کی ترجیحات میں عصری تعلیم کی بڑی اہمیت ہے جہاں دور جدید کے
تقاضوں کے مطابق تعلیم دی جاتی ہے اور دیگر سیاسی یا مذہبی جمہوری جماعتوں
یا تنظیموں کے بالکل برعکس پالیسی کے تحت کسی قسم کے احتجاجی مظاہروں کا
حصہ نہیں بنتی بلکہ ان کے مدارس سے فارغ التحصیل عالم جہاں مذہبی تعلیم کا
ماہر ہوتے ہیں تو دوسری جانب عصری جدید تعلیم سے آگاہی کے سبب مسلم امہ
کیخلاف کئے جانے والے پروپیگنڈوں کا جواب تشدد کے بجائے علم ، دلیل اور
برداشت کے ساتھ مدلل انداز میں پیش کرتے ہیں اور اپنی رائے کو مسلط کرنے کی
کوشش نہیں کیجاتی۔
یہی اس جامعہ کی دیگر خدمات کے علاوہ دوسروں سے منفرد بلا خوف خصوصیت ہے
اور ملکی مدارس کے حوالے سے پائی جانے والی غلط فہمیوں سمیت خود کو سب سے
پہلے احتساب کیلئے پیش کرنے کی پیشکش اور مملکت کے آئین کو تسلیم کرنے کے
ساتھ ملک میں جاری دہشت گردی و انتہا پسندی کے خلاف عسکری قوت اور پارلیمنٹ
کی مکمل حمایت کرتے ہیں ۔تقریب میں شریک میجر(ر) عامر کے بقول کہ میرے جسد
مایوسی میں آج ایک قابل اعتماد ا حساس ویقین پیدا اور مردہ جسم میں روح
پھونک دی گئی ہے ۔محترم خواجہ خان محمد ، حضرت مفتی نظام الدین شہید ،
مولانا حسن جان جیسے اکابرین کے مشورے سے مجلس صوت اسلام نے علمی کام کا
آغاز کیا اور اب جید علما اسکی مکمل سرپرستی کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ عالمی
گلیپ سروے میں مجلس صوت اسلام کو طلبا سرگرمیوں کے حوالے سے ایشیا میں
تیسرا نمبر دیا گیا جو قابل تقلید و تعریف اور حوصلہ افزائی کے قابل ہے۔ |